430

کشمیر میں بے کس، بیوہ اور مطلقہ عورتوں کے مسائل

ڈاکٹر محی الدین زورؔ کشمیری

پھیلتی جاتی ہے ناصر رنج ہستی کی ردا
اور سمٹتے جارہے ہیں پاو¿ں پھیلانے کو ہم
فیس بک پر ایک پوسٹ گشت کررہا تھا، جس میں ایک لڑکی اپنی بپتا بیان کر رہی تھی، وہ کچھ ایسا کہہ رہی تھی کہ مجھے اپنے شوہر نے طلاق دے دیا ہے اور زدکوب کرکے گھر سے نکال دیا ہے۔ چونکہ میں ایک یتیم لڑکی ہوں اور میرا کوئی آسرا نہیں ہے۔ مجھے اپنی خالہ نے اس عمر رسیدہ شخص (جوکہ نشے کا عادی بھی ہے) کے گلے باندھ دیا تھا۔۔۔!
اپنی حالت کے پیش نظر اور اپنے بچے کی خاطر میں سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار ہوں اور میں اپنے گھر واپس جانا چاہتی ہوں ۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔ اس پر لوگوں نے مثبت و منفی کافی ردعمل دے دیا ہے اور ناچیز نے بھی ایک سطر میں کمنٹ کیا، جوکہ میرے اس مضمون کا موضوع بھی بنا۔!
شادی میں کامیابی یا ناکامی تو انسان کے ازل سے ہی لکھی ہوئی ہوتی ہے۔ اس میں بڑے بڑے لیڈروں، دانشوروں اور پروفیشنلوں کی بھی عقل مات کھا جاتی ہے۔۔۔ تعجب کی بات یہ بھی ہے کہ کشمیر کے کچھ پاکستانی شیدائیوں نے وہاں جاکر یا وہاں کی لڑکیوں سے انٹرنیٹ والی شادی کرلی۔۔۔ پھر اس کا کیا حاصل۔۔۔، نفاق پیدا ہوا اور طلاق کی نوبت آگئی۔ اب وہ مطلقہ لڑکیاں جائیں تو کہاں جائیں۔۔۔ سرحد بند، جانے کے لئے کاغذات نا مکمل۔۔۔ لیڈر حضرات تو بڑے بڑے مسئلوں کے نام پر۔۔۔ ان سماجی مسئلوں کی وہ لوگ کیوں پرواہ کریں گے۔! پریس کالونی میں احتجاج ۔۔۔ سوشل میڈیا میں چرچے اور پھر لوگوں کے مثبت و منفی کمنٹس۔۔۔ لیکن کسی نے کبھی اس مسئلے کے حل کے لئے یا ایسی خواتین کی بازآبادکاری کی بات ہی نہیں گی۔۔۔ ہم کسی غیبی آواز کا انتظار کرتے رہے۔ تو وہاں سے غیبی نہیں بلکہ دنیاوی چنگھاڑ ٹرپل طلاق کی صورت میں آگئی، جس کے خوف سے بڑے بڑے ملاءحضرات بھی بھاگنے لگے۔۔۔
ہم بات کر رہے ہیں کہ ہمارا سلوک ہماری ماں بیٹیوں اور بہوو¿ں کے ساتھ ٹھیک نہیں رہتا ہے۔ ہاں اگر اس میں کہیں کہیں ہماری بہو بیٹی سے بھی کوئی غلطی سرزد ہوجاتی ہے، تو اس کے پیچھے بھی کسی نہ کسی طرح ہمارا سماج ہی انوالو ہوتا ہے۔ جیسے ہم اپنی بیٹی کی صحیح تربیت نہیں کرپاتے ہیں۔ ہم نے بیٹی کو چار دیواری میں قید رکھ کر اسے دنیا کے نشیب و فراز کی جانکاری نہیں دے دی۔ ہماری بیٹی دوسرے کی بہو یا بیوی بن گئی تو وہ لوگ اسے طرح طرح سے تنگ کرنے لگتے ہیں اور کبھی کبھار اس کے لئے ایسے بھی حالات پیدا کرجاتے ہیں کہ وہ کوئی غلط قدم اُٹھانے کے لئے مجبور ہو جاتی ہے یا ہم اس کو ایسے جال میں پھنسا دیتے ہیں کہ جہاں اسے خود سپردگی کے علاوہ کوئی اور چارہ ہی نہیں ہوتا ہے۔!
عورتوں کے ساتھ ہمارا ایسا بُرا رویہ نہ صرف ہمارے یہاں کی اپنی بہو بیٹیوں سے ہوتا رہتا ہے بلکہ اگر کسی باہر کی لڑکی کو ان کی تقدیر یہاں لے آئی اور ایک آدھ کو چھوڑ کر ہم اس معاملے میں بھی پارسا ثابت نہیں ہو پاتے ہیں، جس کی ایک مثال میں نے اوپر چند پاکستاتی لڑکیوں کی دے دی ہے۔ اتنا ہی نہیں ہم نے اپنی آنکھوں سے دل دُکھانے والے مناظر دیکھے ہیں جیسے بیروہ بڈگام میں چند برس پہلے ایک لڑکے نے باہر کی کسی غیر مسلم لڑکی سے شادی کرلی۔ بہو کو گھر لایا لیکن گھروالوں نے اسے اپنانے سے صاف انکار کیا۔ کچھ مہینے گھر میں مجبوراً رکھا اور پھر اپنے گھروالوں کے دباو¿ میں آکر اس لڑکی کو طلاق دے دیا گیا۔ لڑکی نے اپنے میکے والوں کو فون کیا لیکن انہوں نے اس کی گھر واپسی سے انکار کر دیا۔ تو پھر مہینوں تک وہ معصوم اور بے چاری لڑکی در بہ در یہاں گھومتی رہی۔! یہاں معزور اور عمر رسیدہ افراد کے لئے بنگال سے لڑکیاں لائی جاتی ہیں اور پھر ان سے بھیک منگوایا جاتا ہے۔!
ایسا ہی ایک دوسرا دلدوز واقعہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا۔ ایک رئیس اور مذہبی گھرانے کا بزرگ اپنی زندگی کے آخری ایام گزار رہاتھا ۔ چونکہ ان کے بچے اور دیگر وارثین یا تو بڑے کاروبار میں مصروف تھے یا پھر بڑے بڑے سرکاری عہدوں پر فائز تھے۔ اب وہ لوگ اپنے باپ/دادا/ نانا کو کیسے سنبھال پائیں گے۔ سوچا اس کے لئے ایک نوکرانی رکھیںگے۔۔۔ وہ ان کے لئے غیر محرم ہوگی، اس لئے انہوں نے اس مسئلے کا حل یہ نکالا کہ کیوں نہ باہر کی کوئی لڑکی ان کے لئے پہلے خریدی جائے اور پھر ان کا نکاح کیا جائے۔ بعد میں وہ ان کی خدمت کرے گی، تو کوئی پرواہ نہیں!۔ انہوں نے ایسا ہی کیا ، وہ بنگالن دو برس تک ان کی خدمت کرتی رہی۔ اس کے بعد بزرگ خواجہ کا انتقال ہوا اور ان مذہب داروں نے اپنی شرعی اور قانونی ماں کو گھر سے نکالا اور وہ بے چاری در در کی ٹھوکریں کھاتی رہی؟ چونکہ میں کوئی ملا نہیں ہوں، مگر پھر بھی یہ بات صاف ظاہر ہے کہ اگر چہ نکاح میں عمر کا کوئی لحاظ نہیں رکھا جاتا ہے لیکن دونوں پاٹنروں کا جسمانی طور پر فٹ ہونا ضروری ہے۔ دوسری بات شوہر کے انتقال کے بعد ان کی جائیدا میں آٹھواں حصہ ان کی بیوی کو ملتا ہے، وہ عورت کس ذات، رنگ یا نسل سے تعلق رکھتی تھی، وہ اس قبیلے کی ماں بن گئی تھی، تو اس کے ساتھ ایسا سلوک ۔۔۔؟ یہ کون سا مذہب ہے یا پھر کون سا دھرم ہے، جس کو ایسے لوگ اپناتے ہیں۔یہ اسلام نہیں ہے۔ کسی بھی مرد یا عورت کا کسی بھی عمر میں، یا پھر کسی بھی سوسائٹی میں شادی کرنا اس کا بنیادی حق ہے، لیکن ازدواجی زندگی گزارنا یا اپنے پاٹنر کو ان کے حقوق دینا بہت بڑی بات ہے اور اس معاملے میں پہلے یہاں میاںبیوی دونوں پر کافی ذمہ داریاں عائد ہو جاتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ شادی سے پہلے یا کسی مخصوص پِیرڈ میں وہ اپنی ان ذمہ داریوں کو سمجھنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ چونکہ ہمارا یہاں موضوع بیواو¿ں یا پھر ایسی عورتوں کا ہے جنہیں کسی وجہ سے اپنے شوہروں سے دُور رہنا پڑتا ہے یا پھر بدقسمتی سے ان کا طلاق ہوا ہے۔ ان کے درپیش کافی مسائل ہیں۔ انہیں کسی حد تک حل کیا جائے۔ پہلی بات تو یہ ہے اگر میاں بیوی میں ذہنی ہم آہنگی ہو تو طلاق یا ایک دوسرے سے دور رہنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ اب اگر خدانخواستہ ایسی کوئی سچویشن پیدا ہو گئی ہے تو ہماری سوسائٹی کیوں ان حالات میں خاموش بیٹھتی ہے یا ہم کہیں گے کہ میاں بیوی کے بعد اس تباہی و بربادی کا ذمہ دار ہمارا سماج ہی ہے۔ جس میں میاں بیوی کے والدین ان کے بھائی بہن ان کے پڑوسی اور پھر مجموعی طور محلے کی کمیٹی یا قانون۔۔ کیوں نہ ہم آج سے ان باتوں پر بڑی سنجیدگی سے غور کریں تاکہ لوگوں کی ازدواجی زندگی سکون سے گذر جائے ۔۔۔ یہ بات سچ ہے کہ خیر اور شر حضرت آدم ؑ اپنے ساتھ ہی لائے ہیں اور حضرت انسان کا فرض اولین یہ ہے کہ وہ ہر دکھ سکھ میں دوسروں کے کام آئے۔ اب ہماری بہن بیٹی نے حضرت حواؑ کی طرح کوئی غلطی کی ہے یا اس کے شوہر نے یا ان کی سوسائٹی نے ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا ہے یا تقدیر کا کھیل ہی کچھ ایسا تھا، تو ان حالات میں ہمارے ہاتھوں میں بھی بہت کچھ ہے۔ انسانی اور سماجی ذمہ داریوں کے پیش نظر ہم اس کی بازآباد کاری کا بھی سوچ سکتے ہیں۔ اکثر ہماری سوچ اس حد تک سمٹی ہوئی ہے کہ کسی لڑکی کا ایک جگہ گھر اُجڑ گیا تو ہم فوراً اس کو دوسری جگہ کسی نا اہل کے گلے باندھنے کی کوشش کرتے ہیں، یا پھر اس معاملے میں چادر اُوڈھ لیتے ہیں تو ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ یہ ہمارے لئے ایک ناسور بن جاتا ہے۔
یوں تو اگر ہمارے سماج کے غیرت مند لوگ چاہیں گے، تو ایسی تمام عورتوں کی بازآبادکاری کے لئے سو طرح کے حل ممکن ہو سکتے ہیں کیونکہ جب ایک انسان چاہے گا تو وہ کچھ بھی کرسکتا ہے اور یہ کوئی بڑا مسئلہ ہے ہی نہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے سماج کے افراد دوسرے کاموں میں الجھے ہوئے ہیں۔!
میرے نزدیک ضرورت اس بات کی ہے کہ کیوں نہ ہماری آسودہ حال عورتیں اس مسئلے کے بار ے میں سوچیں اور ایک ٹرسٹ، این جی او یا پھر سوسائٹی بنائیں ۔ سب سے پہلے وہ کسی بستی میں ان کے رہنے کے لئے کسی مکان/سرائے کا انتظام کریں جس کا پورا کنٹرول عورتوں کے ہی ہاتھوں میں ہو۔ مرحلہ وار ان کی بازآبادکاری ہو سکتی ہے۔ (۱) پہلے وقتی طور پر رہائش (۲) اس کے بعد کچھ روزگار بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ (۳) اگر بچے ساتھ ہوں ، تو ان کی بھی پرورش (۴) اگر عورت طلاق شدہ ہیں تو پہلے اپنے ہی شوہر سے صلح کرانے کی کوشش، اگر ایسا ممکن نہیں ہو سکا تو بیوہ کی طرح اس کا بھی دوسرا نکاح کرایا جا سکتا ہے۔(۵) اب اگر ایسا ممکن نہیں ہو سکا تو ٹرسٹ میں ہی ان کی مستقل سکونت بہ حالت ان کے اپنے گھر والے موجود نہ ہوں۔
ہمارے پاس کشمیر میں کتنے سورسز موجود ہیں، ہمیں خدا کا شکر اداکر لینا چاہئے۔ ہماری کاروباری عورتیں، ہماری سرکاری عہدوں سے سبکدوش عورتیں، بڑے بڑے گھرانوں کی عورتیں۔۔۔ کبھی دلی، کبھی سعودی عرب، دبئی، امریکہ وغیرہ ممالک میں اپنے بچوں کے پاس آیا جایا کرتی ہیں، کچھ عمر رسیدہ عورتیں مشاعروں اور دیگر تفریحی محفلوں میں بھی خوب جایا کرتی ہیں یا پھر اپنے گھروں میں بیٹھے بیٹھے فتنہ وفساد کرتی رہتی ہیں۔ کیوں نہ آخرت کے لئے اور اپنے سماج کی بہتری کے لئے کچھ کنٹریبیوٹ کیا جائے اور ریٹائر منٹ کے بعد بھی ایسے نیک کام کرکے اپنے آپ کو انگیج رکھا جائے اور عمر بھر کمائے ہوئے روپیوں کو آخرت کی راہوں کے لئے بھی خرچ کیا جائے۔!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں