216

خواتین کی حق تلفی

کسی بھی سماج کی ترقی تب تک ممکن ہی نہیں جب تک اس میں ہر ایک کو مساوی حقوق فراہم نہ کئے جائیں خواہ وہ مزدوروں کے حقوق ہوں یا پھر بچوں اور بزرگوں کے یا پھر خواتین کے۔خواتین کے حقوق کی بازیابی کے لئے بہت سی آ وازیں بلند ہورہی ہیں لیکن فی الحقیقت اس سلسلے میں شعوری بیداری کی اشد ضرورت ہے۔ مذہب اسلام نے اسے بہت ہی بااختیا ر بنایا لیکن افسوس کا مقام ہے کہ یہاں مسلم اکثریتی علاقے میں بھی لوگ خواتین پر زیادتیوں کے مرتکب ہورہے ہیں۔ ماہرین سماجیات کی جانب سے گزشتہ برس کئے گئے ایک سروے کے مطابق کشمیر میں40فیصد سے زائد خواتین گھریلو تشدد کی شکار ہیں۔ گھریلو تشدد کے بیشتر معاملات میں وجوہات جہیز ،سسرال والوں کی مداخلت، غلط فہمی، شوہر کی طرف سے زیادتیاں، بچیوں کو جنم دینا وغیرہ شامل ہیں۔ سابق ریاستی خواتین کمیشن کے اشتراک سے2003میں ایک سروے کیاگیاتھا جس میں پایا گیا تھا کہ کشمیر میں30 فیصد خواتین کو اپنے شوہروں کی جانب سے جسمانی تشدد کا سامنا ہے۔ تاہم اب یہ تعداد 40 فیصد سے متجاوز کرچکی ہوگی۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سابق ریاستی خواتین کمیشن میں سالانہ خواتین کی جانب سے گھریلو تشدد سے متعلق 1600سے1700شکایات درج کی جاتی تھیں اور ان میں سے بیشتر شکایات کشمیر صوبہ سے ہوتی ہیں اور یہاں بھی بیشتر شکایات جنوبی و وسطی کشمیر سے ہوتی ہیں۔جس کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف گاﺅں دیہات بلکہ قصبات اور سرینگر شہر میں بھی خواتین کو تشدد کا سامنا ہے۔ ماہرین سماجیات کے مطابق اگر چہ گزشتہ کچھ دہائیوں کے دوران خواتین کافی حد تک بااختیار ہوئی اور وہ تعلیم کے زیور سے بھی آراستہ ہوئیں تاہم اس کے نتیجہ میں شادیوں میں سسرالیوں کی جانب سے مطالبات میں بھی اضافہ ہوا۔ماہرین کے مطابق کشمیر میں اگر چہ آگہی آئی تاہم خواتین پہلے سے زیادہ غیر محفوظ بن گئیں اور انہیں ہر وقت مردوں کی جانب سے خطرات لاحق رہتے ہیں۔غور طلب با ت یہ ہے کہ کشمیر میں خواتین کی جانب سے خود سوزیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے اور شاید ہی ایسا کوئی دن گزرتا ہوگا جب خواتین کی جانب سے خود کشی کے معاملات سامنے نہ آتے ہوں۔ کشمیر میں روزانہ اوسطاً دو خواتین خود کشی کرلیتی ہیں اور اگرچہ ان میں نصف تعداد غیر شادی شدہ لڑکیوں کی ہوتی ہے تاہم نصف تعداد شادی شدہ خواتین کی ہوتی ہے جو گھریلو تشدد کی وجہ سے اپنی زندگی کا خاتمہ کردیتی ہیں۔متمدن معاشروں میں اس طرح کے رجحان کی کوئی گنجائش نہیں ہے تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کشمیر کے مسلم معاشرے میں اس رجحان میں اضافہ ہورہا ہے۔یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ حکومت کے پاس خواتین کے خلاف گھریلو تشدد روکنے سے متعلق قانون کو عملانے کیلئے پیسے نہیں ہیں جس کا اعتراف خود حکومت کرچکی ہے۔دوسری بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ کشمیر کا معاشرتی نظام ایسا ہے کہ یہاں خواتین گھریلو تشدد برداشت کرلیتی ہیں لیکن کسی سے کہہ نہیں پاتی اور جب و ہ حد سے گزر جاتا ہے تو وہ خود کشی کرنے میں ہی اپنی عافیت محسوس کرلیتی ہیں۔مادہ پرستی ،شکم پرستی اور حرس نے کشمیر ی معاشرے کو اس قدر اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے کہ اب اس کے سوا کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا ہے۔ ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے اور اجتماعیت کا تصور فوت ہوچکا ہے۔بیٹی بوجھ بن چکی ہے اور بہو گھر کی شان کی بجائے بحران بن چکی ہے۔سماجی خرافات کی قربان گاہ پر لڑکیوں کوبھینٹ چڑھنا پڑتا ہے اور سماج ہے کہ ا±ف تک نہیں کرتا ہے۔یہ رجحان کشمیر ی معاشرے کیلئے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ دراصل اس سماج میں جہاں عام لوگ دین سے دور ہوچکے ہیں وہیں بیشتر علماءنے بھی اپنے آپ کو محض جمعہ کے خطبات تک محدود کرکے رکھا ہے اور اصلاح معاشرہ کی کوئی کوشش نہیں ہورہی ہے۔ اس سلسلے میں باشعور طبقوں، علما، مبلغین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنا کلیدی رول ادا کریں تاکہ اس مظلوم طبقے کے حقوق کی بحالی ممکن ہوسکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں