209

درپردہ تاریخی حقائق سے پردہ سرکانے کی کامیاب کوشش

غازی سہیل خان

کشمیر ایکسپوزنگ دِی میتھ بِہائینڈ دِی نیریٹو(Kashmir Exposing the myth behind the Narrative) خالد بشیر احمد کی انگریزی زبان میں لکھی گئی مشہور تصنیف ہے۔موصوف کا تعلق وادی کشمیر سے ہے۔ خالد بشیر تحقیق و تصنیف کے ساتھ ساتھ شعر و شاعری کا بھی شغف رکھتے ہیں۔ آپ کشمیر ایڈمنسٹریٹو سروسز آفیسر بھی رہ چکے ہیں۔ مذکورہ کتاب کے علاوہ موصوف کی دیگر تصانیف کو قارئین نے کافی سراہا ہے جن میں خاص طور سے ”کشمیر اے واک تھرو ہسٹری (kashmir a walk through history)اور حال ہی میں منظر عام پر آنے والی کتاب کشمیر لوکنگ بیک اِن ٹائمز( kashmir looking back in times) قابل ذکر ہیں۔ سابقہ کتابوں کی طرح زیر نظر کتاب کو بھی قارئین نے ہاتھوں ہاتھ لیا ہے۔ مذکورہ کتاب میں موصوف نے کشمیر کی اصل تاریخ کو چند واقعات کے ذریعے سے ہم تک بہترین انداز میں پہنچانے کی کوشش کی ہے، دوسرے الفاظ میں کشمیر کی تاریخ کو جس طرح سے اپنے مفادات کی خاطر ہر وقت مسخ کرنے کی کوشش کی گئی اور واقعات کو توڑ مروڑ کے پیش کرنے کی کوشش کی گئی اُس کے جواب میںموصوف نے تمام گرد آلود حقائق سے بڑی ہی بے باکی سے پردہ سرکانے کی کوشش کی ہے۔ جن میں خاص طور سے کشمیری پنڈتوں کا کشمیر سے اپنی مرضی سے ہجرت کرنے اور 1967ءمیں ایک پنڈت لڑکی جس کا نام پرمیشوری تھا، نے اسلام قبول کر کے ایک مسلم لڑکے سے نکاح کے واقعہ کے بعد پنڈتوں کی طرف سے احتجاجی تحریک کو مذہبی رنگ دینے کے واقعات کو تفصیلاً بیان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کشمیر کی اصل تاریخ کو غیر کشمیری تاریخ دانوں نے کیسے چھپانے اور توڑ مروڑ کرکے پیش کرنے کی کوشش کی وہ بھی شامل کتاب ہے۔ الغرض ملکی میڈیا کی جانبداری کا بہترین انداز میں یوں سمجھئے پوسٹ مارٹم کیا ہے۔ اسی طرح سے کتاب میںہمیں ہر دور میں مسلمانوں کے ساتھ استحصال بھی دیکھنے کو ملے گا، وہ چاہے مغل دور ہو یا افغانیوں کا دور یا سکھوں کے بعد ڈوگرو ں کی دور حکمرانی ہو، کس طرح سے مسلمانوں کی اکثریت کے باوجود اُن کو سرکاری نوکریوں اور انتظامیہ سے دور رکھ کے اُن کے حقوق کو پامال کیا جاتا رہا۔ مذکورہ کتاب میں کشمیری پنڈتوں کی تاریخ اور ہجرت کی اصل وجوہات کو تفصیلاً جاننے کا موقعہ ملے گا۔ کتاب کی ابتدا میںکشمیر کی تاریخ کی چند کتابوں کے علاوہ یہاں کے پشتینی باشندوں کے متعلق تحقیقی انداز میں گفتگو کی گئی ہے ۔اس کے بعد سکھوں کے دور حکومت کے مظالم کا بھی تذکرہ کیا ہے کہ کس طرح سے سکھ حکمرانوں نے مسلمانوں پر بے انتہا مظالم ڈھائے اور ساتھ ساتھ مساجد پر تالے چڑہاکر اذان پر پابندی لگا دی گئی، جامع مسجد کو مسلسل 23سال تک تالا چڑھا کر رکھا گیا،مسلمانوں پر ٹیکس عائد کیے جاتے تھے، گائے ذبح کرنے پر پابندی لگائی گئی تھی اور جو کوئی بھی اس جرم میں ملوث پایا جاتا اُس کو سزاے موت سُنائی جاتی تھی۔ اسی حوالے سے ایک جگہ موصوف کہتے ہیں کہ :
”دیوان چنی لال کے دور اقتدار (1825-27) میں کاوﺅسہ خاندان کے تین مشہور تاجروں کو گائے کے بے بُنیاد ذبیحہ کے الزامات پر پھانسی پہ لٹکا دیا گیا اور اُن کی نعشوں کو شہر کی گلیوں میں گھسیٹا گیا، اسی طرح سے حول سرینگر کے ایک ہی خاندان کے 12افراد اور چھتہ بل سرینگر میں ایک ہی خاندان کے 17افراد کو گائے کے ذبیحہ کے الزامات پر زندہ جلایا گیا۔ اسی طرح کے ایک اور واقعہ میں سکھ دور کے ایک افسر سوجن سنگھ نے کشتی چلانے والے ایک ہی خاندان کے 19افراد جو دودھ گنگا کے پاس رہتے تھے کو گائے کے جھوٹے ذبیحہ کے الزام میں موت کے گھاٹ اُتار دیا جن میں بچے اور خواتیں بھی شامل تھے۔“(ص: 74 )
اس طرح کی درجنوں دردناک کہا نیاں مذکورہ کتاب میں شامل ہیں کہ کس طرح سے مسلمانوں سے جینے کا حق ہی چھین لیا گیاتھا۔ سابق گورنرجموں وکشمیر جگ موہن کے دور کے مظام کا تذکرہ بھی اس کتاب میں موجود ہے جس کو پڑھنے کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کس طرح سے جگ موہن نے کشمیریوں کو اجتماعی سزا کا منظم پروگرام بنایا جس کے لئے پہلے یہاں سے پنڈتوں کو ایک سازش کے تحت ہجرت پر مجبور کیا گیا۔ اسی حوالے سے صاحب تصنیف نے لکھا ہے کہ ”ہجرت کے بعد چند کشمیری پنڈتوں نے اخبارات اور اپنے کشمیری دوستوں کو خطوط لکھ کے بتایا کہ ہمیں سرکاری ایجنسیوں نے کشمیر چھوڑنے پہ مجبور کیا۔”راج ناتھ ترکی“ ایک کشمیری مہاجر پنڈت نے شاستری نگر جموں سے سرینگر میں موجود اپنے دوست مشتاق وانی منیجر JKPCCکو خط لکھا کر کہاکہ وہ جولائی میں جموں اس لئے منتقل ہوئے کیوں کہ کرن نگر میں فورسز نے اُنہیں ہجرت پہ مجبور کیا۔معروف صحافی تولین سنگھ ایک جے کشن نامی ہندو (پنڈت )دکاندار کو سوپور میں ملے جہاں دکاندار نے اُسے کہا کہ بہت سارے ہندو رات کی تاریکی میں جگ موہن کے کہنے پر یہاں سے چلے گئے لیکن میں یہاں سے خود اس لئے نہیں گیا کیونکہ مجھے اپنے مسلمان ہمسائیوں سے کوئی خوف نہیں تھا۔)ص 242 ( مسلمانوں پر ایک اور الزام بھی لگایا جا رہا تھا کہ انہوں نے کشمیر میں تاریخی جگہوں کے نام بدل کر اسلامی نام رکھ دئے ہیں کے جواب میں موصوف نے اننت ناگ (اسلام آ باد ) کی مثال پیش کی ہے کہ تاریخ میں کہیں بھی ہمیں اسلام آباد کا نام” اننت ناگ“ نہیں ملتااسی حوالے سے موصوف نے فرمایا ہے کہ ”وہ لوگ جو یہ الزام لگاتے ہیں کہ کشمیر میںکئی مقامات کے ناموں کو اسلامائز کیا جاتا ہے اور جنوبی کشمیر کے ایک قصبے اسلام آباد کی مثال دیتے ہیں جس کے بارے میں اُن کا دعویٰ ہے کہ اس کا اصل نام اننت ناگ تھا۔تاہم تاریخ اس دعویٰ کی تائید نہیں کرتی ہے ،اس شہر کا نام اسلام آباد ہے کیوں کہ اس کی بنیاد کشمیر میں اورنگ زیب کے مغل دورِ حکومت میں (1685-1707)ءمیں ڈالی گئی ہے۔اس کے ایک گورنر ”اسلام خان“ نے بادشاہ کے لئے یہاں ایک باغ بنوایا تھا اس کے بعد بادشاہ نے اس قصبے کا نام اسلام آباد رکھا۔ ڈوگرہ دور کی حکمرانی (1846-1947)کے دور میں اس شہر کا نام اننت ناگ رکھ دیا گیا تھا۔ ان کے اس مفروضے کی تائید کے لئے کوئی تاریخی شواہد موجود نہیں ہیں کہ یہ پہلے اننت ناگ کے نام سے شہر تھا۔راج ترنگنی نے بھی اس نام کے ساتھ کسی مندر یا جگہ کا ذکر نہیں کیا ہے اور نہ ہی تاریخ کی کتابوں میں اس کا ذکر ہے۔(ص:254)
اسی طرح اس کتاب کے آخری باب میں میڈیا کے عنوان کے تحت موصوف نے بھارتی میڈیا کی اصل حقیقت پیش کی ہے کہ کس طرح سے ملکی میڈیا جابنداری کے ساتھ کشمیریوں کو دہشت گردوں کے روپ میں دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے، بلکہ کشمیریوں کی کردار کُشی میں بھی یہ پیچھے نہیں رہتے یہاں تک یہ وقت کے حکمرانوں کو مشورے تک دیتے ہیں کہ کس طرح سے اس قوم کو دبائیں اور اِن کا قافیہ حیات تنگ کر کے ان کی زندگی کیسے اجیرن بنا دی جائے ۔اسی طرح سے ملکی میڈیا نے پنڈتوں کی ہجرت کوایسے پیش کیا ہے کہ جیسے کشمیری مسلمانوں نے اُن کو زبردستی یہاں سے نکال دیا ہواور اوراُن کی عبادت گاہوں پر قبضہ کر کے اُن کو مساجد میں تبدیل کر دیا ہے۔ملکی میڈیا کی جانب داری کے حوالے سے موصوف نے لکھا ہے کہ ملکی صحافتی اداروں کوکشمیر کے رپورٹروں کی خبروں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا کہا جا رہا ہے جس کی مثال کتاب میں ایک جگہ کچھ یوں ہے کہ:
”2016ءمیں جب برہان مظفر وانی کے جاں بحق ہونے کے سبب لوگ سراپا احتجاج تھے ۔اسی دوران سرینگر کے ایک نمائندے جو کہ بھارت کی ایک ہندی چینل کے ساتھ کام کرتا تھا نے استعفیٰ دے دیا، وجہ جاننے کے بعد اُس نے کہا کہ اسے جھوٹی اور حقائق سے دور کہانیاں بنانے کا کہا جاتا تھایہاں تک کہ اُس دوران جو اموات واقعہ ہوتی تھیں اُن کو بھی چھپانے کا کہا جاتا تھا۔“ (ص:333)
اس واقعہ کے بعد مذکورہ صحافی نے اس چینل سے کام کرنے سے انکار کر دیا۔
کتاب لکھنے میں جہاں موصوف نے بڑی عرق ریزی سے کام کیا ہے وہیں چند مقامات پرمضامین اور واقعات کی معمولی سی تکرار بھی محسوس ہوئی اسی طرح سے اتنی ضخیم کتاب میں موصوف نے کشمیری پنڈتوں کی ہجرت وغیرہ پر زیادہ خامہ فرسائی کی ہے ۔تاہم ان چند کمیوں کے با وصف کتاب میں واقعات کی تہہ تک جانے میں موصوف نے قابل رشک کام انجام دیا ہے ۔کتاب کا دیدہ زیب ٹائٹل جس پر کشمیر ی شال پر گلاب کے خوبصورت پھول، قاری کی نظروں کو بھاتے ہیں ۔کتاب کے بیک کور پر کتاب کے متعلق ایک اقتباس کے ساتھ ساتھ نیچے مصنف موصوف کی ایک خوصورت سی تصویر بھی ہے ۔کتاب کا پہلا ایڈیشن 2017ءمیں Sage publications india نے شایع کیا ہے، اور کتاب کی قیمت 725روپے ہے ۔کتاب سرینگر کے مختلف کتب فروشوں کے پاس دستیاب ہے ۔مجموعی طور پر مذکورہ کتاب کشمیر میںد ر پردہ تاریخ سے پردہ ہٹانے کی ایک بہترین کوشش ہے ۔کتاب کا اُردو ترجمہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے تاکہ عام اور اُردو دان طبقہ کواصل کشمیری تاریخی حقائق کو جاننے اور
سمجھنے میں مدد ملے۔تاریخی دستاویزات کواگرچہ اب منصوبے کے تحت نئے سرے سے ترتیب دے کر عوام الناس کو گمراہ کرنے کی کوششیں ہو رہی ہے تاہم ہمارے ہاں کے ایسے بھی کئی نام ہیں جو اصل حقیقت کو اس کی اصل صورت دے کر لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی ایک کوشش کر رہے ہیں، تاکہ عوام الناس کسی اندھیرے میں نہ رہے۔ ضرورت ہے کہ ایسی کتابوں کی ترویج واشاعت میں بھر پور حصہ لیا جائے اور دوسروں تک اصل حقائق کو سامنے لانے میں اپنی طرف سے حتی المقدور کوشش کی جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں