533

ذیابیطس وجوہات اور حل

,

ذیابیطس ایک دائمی مرض ہے، جس میں لبلبے میں پیدا ہونے والے ہارمون انسولین کی کمی کی وجہ سے بلڈ شوگر لیول بڑھ جاتا ہے جو ہائی کولیسٹرول اور ہائی بلڈ پریشر جیسے دیگر امراض کو بھی جنم دیتا ہے۔ شوگر کے مریضوں میں دل کے دورے اور ذہنی امراض کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ انسولین کی کمی دو طرح کی ہو سکتی ہے۔ لبلبے سے انسولین کی پیداوار ہی کم یا ختم ہو جاتی ہےیا لبلے سے انسولین تو پیدا ہوتی رہتی ہے، لیکن کسی وجہ سے اسکا اثر کم ہو جاتا ہے۔ اس کیفیت کو انسولین کی بے اثری کہا جاتا ہے۔ لیکن یاد رکھیں کہ شوگریا گلوکوز ہمارے خون کا انتہائی لازمی اور مستقل جزو ہے۔ ہماری خوراک میں جتنی بھی نشاستہ دار غذائیں شامل ہوتی ہیں۔ وہ ہماری آنتوں میں جا کرگلوکوز میں تبدیل ہو کر خون میں شامل ہو جا تی ہیں۔ ہمارا جسم اسی گلوکوز سے توانائی حاصل کرتا ہے۔ لیکن ایک نارمل انسان کے خون میں گلوکوز کی مقدار قدرت کی طے کی ہوئی حدوں کے اندر ہی رہتی ہے، جبکہ ذیابیطس کی حالت میں گلوکوز کی مقدار نارمل حد سے بڑھ جاتی ہے۔

علاما ت:
ذیابیطس میں مندرجہ ذیل علامات ہو سکتی ہیں، لیکن ذیابیطس کی حتمی تشخیص کیلئے خون میں گلوکوز کی مقدار چیک کرنا لازمی ہے۔بار بار پیشاب کی حاجت محسوس ہوتی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ گردوں کو پیشاب میں موجود شوگر کی زیادہ مقدار کو خارج کرنے کیلئے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ خاص طور پر رات کو بار بار پیشاب کرنا اہم علامت ہے۔ بہت زیادہ پیشاب کرنے کے نتیجے میں پیاس زیادہ محسوس ہوتی ہے ۔اورعام معمول سے کہیں زیادہ پیاس لگتی ہے۔ کیونکہ زیادہ پیشاب آنے کی وجہ سے جسم میں پانی کی کمی ہوجاتی ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں کو ذیادہ بھوک لگنے لگتی ہےاور ان میں کاربوہائیڈیٹ سے بھرپور غذا کی خواہش پیدا ہونےلگتی ہے۔ جب آپ کاربوہائیڈریٹس سے بھرپور غذا استعمال کرتے ہیں تو مریض کے جسم میں انسولین کی مقدار بڑھ جاتی ہے جبکہ گلوکوز کی سطح فوری طور پر گرجاتی ہے جس کے نتیجے میں کمزوری کا احساس پیدا ہوتا ہے اور آپ کے اندرمیٹھی غذا کی خواہش پیدا ہونے لگتی ہے اور یہ چکر مسلسل چلتا رہتا ہے۔پیشاب میں شکر کی زیادہ مقدار بیکٹریا کی افزائش کا باعث بنتی ہے جس سے مثانے کی انفیکشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ بار بار انفیکشن کا سامنے آنا خطرے کی علامت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جسم میں قوت مدافعت کمزور پڑ جاتی ہے، جس کی وجہ سے آپ بار بار انفیکشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس صورت میں ذیابیطس کا ٹیسٹ لازمی کرالینا چاہئے ۔

وزن میں کمی آنا بھی اس مرض کی ایک علامت ہوسکتی ہے۔ جسمانی وزن میں کمی دو وجوہات کی بناءپر ہوتی ہے، ایک تو جسم میں پانی کی کمی ہونا (پیشاب زیادہ آنے کی وجہ سے) اور دوسری
خون میں موجود شوگر میں پائے جانے والی کیلیوریز کا جسم میں جذب نہ ہونا۔ جسم چربی اور پٹھوں کو ایندھن کے طور پر استعمال کرتاہے، تا کہ تونائی فراہم ہو سکے۔ لوگ اپنے بلڈ شوگر کو کنٹرول کرنا شروع کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں وزن بڑھ سکتا ہے مگر یہ اچھا ہوتا ہے کیونکہ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ بلڈ شوگر کا لیول زیادہ متوازن ہے۔تھکاوٹ تو ہر شخص کو ہی ہوتی ہے مگر ہر وقت اس کا طاری رہنا ذیابیطس میں مبتلا ہونے کی اہم علامت ثابت ہوسکتی ہے ۔ تھکاوٹ کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جسم کو تونائی فراہم کرنے کا اولین ذریعہ گلوکوز ہے،جس میں کمی ہونا شروع ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔ اگر دھندلا نظر آنا شروع ہوجائے، تو یہ بھی شوگر کی ایک علامت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر شوگر کو کنٹرول نہ کیا جائےتوآنکھوں میں گلوکوز کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس کے نتیجے میں عارضی طور پر لینز کی ساخت بدل جاتی ہے۔ جب مریض کا بلڈ شوگر لیول مستحکم ہوجاتا ہے تو دھندلا نظر آنا ختم ہوجاتا ہے کیونکہ آنکھیں جسمانی حالت سے مطابقت پیدا کرلیتی ہیں ۔جب بلڈگلوکوز ہائی ہوتا ہے تو ایسی صورت میں مریض کے اندر چڑچڑے پن یا اچانک میں غصے میں آجانے کا امکان ہوتا ہے۔
درحقیقت ہائی بلڈ گلوکوز ڈپریشن جیسی علامات کو ظاہر کرتا ہے، یعنی تھکاوٹ، ارگرد کچھ بھی اچھا نہ لگنا، باہر نکلنے سے گریز اور ہر وقت سوتے رہنے کی خواہش وغیرہ۔جبکہ بلڈگلوکوزلیول نارمل ہونے پر مریض کا موڈ خودبخود نارمل ہوجاتا ہے۔جسمانی دفاعی نظام بلڈ شوگر لیول بڑھنے کی صورت میں موثر طریقے سے کام نہیں کرپاتا جس کی وجہ سے زخم اور خراشیں معمول سے زیادہ عرصے میں مندمل ہوتے ہیں اور یہ بھی ذیابیطس کی ایک بڑی علامت ہے۔بلڈ شوگر میں اضافہ سےاعصابی نظام کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور اس کی وجہ سے آپ کے پیروں کو جھنجھناہٹ یا سن ہونے کا احساس معمول سے زیادہ ہونے لگتا ہے کہ جو کہ خطرے کی علامت ہے۔
وہ شریانیں جو انسانی جسم کو خون فراہم کرتی ہیں زیادہ شکر سے ناکارہ ہوجاتی ہیں ۔ دوسرےکولیسٹرول کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس کے سبب ہائی بلڈ پریشر کا عارضہ لاحق ہو جاتا ہے جس سے دل کی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ ذیابطیس میں قبض کی شکایت بھی پیدا ہوجاتی ہے اور مریض پٹھوں کے درد کا شکار ہو جاتا ہے۔خون میں شوگر کی زیادہ مقداراعصاب کوبھی نقصان پہنچاتی ہے۔فالج کا بھی خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ذیابیطس کئی قسم کی ہوتی ہے۔ لیکن اسکی تمام قسموں میں ایک بات مشترک ہے کہ تمام اقسام میں خون میں شوگر نارمل سے ذیادہ ہوتی ہے۔

ذیابیطس قسم دوم (2 Diabetes type )
یہ ذیابیطس کی سب سے زیادہ عام قسم ہے۔ ذیابیطس والے افرادمیں سے 95 فیصد لوگ ذیابیطس کی اسی قسم سے متاثر ہیں۔ ذیابیطس قسم دوم زیادہ تر بالغ افراد کو ہوتی ہے ۔لیکن ذیابیطس قسم دوم عمر کے کسی بھی حصے میں ہو سکتی ہے۔ذیابیطس کی اس قسم کی بنیادی وجہ انسولین کا بے اثر ہو جانا ہے۔ یعنی لبلبہ جو انسولین پیدا کرتا ہے، وہ اپنا اثر دکھانے میں ناکام رہتی ہے۔انسولین کی اس بے اثری پر قابو پانے کیلئے لبلبہ مزید انسولین پیدا کرتا ہے، اور اسی طرح اپنی استعداد سے زیادہ کام کرتے کرتے لبلبہ تھک جاتا ہے، انسولین کی بے اثری کے ساتھ انسولین کی کمی بھی واقع ہونے لگتی ہے۔ اور خون میں شوگر بڑھنے لگتی ہے۔ اگر آپ کو ذیابیطس قسم دوم ہے تو اپنے جسم کا خیال رکھیں تاکہ آپ پیچیدگیوں سے بچے رہیں ـ اگر آپ اپنے پیروں ، اپنی آنکھوں، اپنی جلد، اور اپنے دانتوں کاخیال رکھیں گے، دل اور گردے کی پیچیدگیوں سے بچنے کےلئے ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کریں گے، تو ان پیچیدگیوں سے بچاؤ میں یقیناً كامیاب ہو سکتے ہیں ـ۔اگر آپ سگریٹ پیتے ہیں تو اس عادت کو ترک کردیں ـ جو لوگ شراب نوشی کے عادی ہیں وہ اسے ترک کر دیں ۔ٹائپ ون اور ٹائپ ٹو ڈائیبٹیز کی علامات عمومی طور پر ویسے تو ایک جیسی ہوتی ہیں۔ لیکن ٹائپ ون کی علامات تھوڑا اچانک آتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک بچے میں فلو جیسی علامات نظر آسکتی ہیں، اور جب یہ علامت کچھ عرصے تک نہیں جاتی تو والدین بچے کو ڈاکٹر کے پاس لیکر جاتے ہیں، جہاں جا کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ بچے کو تو شوگر کی ٹائپ ون ہو گئی ہے۔ کئی بار والدین بچے کو اس لئے بھی ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہیں، کیونکہ وہ بہت ہی سستی کا مظاہرہ کرتا ہے، اور پھر ٹیسٹ کے بعد ڈاکٹر بتاتا ہے کہ بچے کو تو شوگر ہو گئی ہے۔
ٹائپ ٹو ڈائییٹیز میں علامات کئی سال تک چلتی رہتی ہیں، اور جب بگڑ جاتی ہیں، تو تب جا کر پتہ چلتا ہے کہ شوگر ہوگئی۔ کیونکہ یہ آہستہ آہستہ جڑ پکڑتی ہیں۔ اور ادھیڑپن اور ڈایابیٹیز کی علامت میں مماثلت ہوتی ہے۔
جب انسان پر بڑھاپا آتا ہے تو اُس کی جلد خشک ہونا شروع ہوتی ہے، اور بار بار باتھ روم جانا پڑتا ہے۔ یہی علامات شوگر میں بھی ہوتی ہیں۔ کچھ مریض تھکاوٹ یا بار بار باتھ روم جانے کی اِن علامات کے ایسے عادی ہو جاتے ہیں کہ انہیں محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ان کی صحت کو کوئی مسئلہ درپیش ہے۔اگر آپ میں ایسی کوئی بھی علامت پیدا ہو، تو آپ فوراً کسی ڈاکٹر سے رجوع کریں ۔ ویسے تو ٹائپ ٹو ڈائیباٹیز کسی کو بھی ہو سکتی ہے، لیکن اگر آپ کا وزن زیادہ ہے، کولیسٹرول زیادہ ہے یا بلڈ پریشر ہے، یا سگریٹ نوشی کے عادی ہیں، یا آپکے خاندان میں شوگر ہے، تو پھر آپکو اس مرض کے لاحق ہونے کا زیادہ خطرہ ہے ۔

وقت پر اپنے ٹیسٹ کروائیں اور کوشش کریں جسم میں شکر کا تناسب برقرار رہے۔یاد رکھیں آپ کی صحت آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے جسے آپ تھوڑی سی کوشش اور توجہ سے برقرار رکھ سکتے ہیں۔انسولین ایک ہارمون ہے جولبلبہ سے خارج ہوتا ہے جو گلوکوز کو استعمال میں لانےکےلئےاھم کردار ادا کرتا ہے لیکن جب لبلبہ انسولین بنانا بند کردے یا انسولین خاطرخواہ کام نہ کرے تو ذیابطیس کا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔

کسی بھی بیماری سے نجات حاصل کرنے کے لیے علاج کے ساتھ ساتھ صحت بخش غذا نہایت اہمیت کی حامل ہے لہذا شوگر کے مریضوں کو صحت بخش غذا کا انتخاب کرنا چاہیے۔ایک انسان کو روزانہ1500 سے 1800 کیلوریز حاصل کرنا ضروری ہے۔اس لئے شوگر کے مریض کی غذا میں روزانہ کم از کم3 سبزیاں اور دو پھل شامل ہونا چاہیے۔شوگر کے مریضوں کی غذا میں دال ضرور شامل ہونی چاہیے کیونکہ دال میں موجود کاربوہائیڈریٹ دوسرے ذرائع سے حاصل ہونے والے کاربوہائیڈریٹ کی طرح خون پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ دالیں پروٹین کا بھی بہترین ذریعہ ہیں۔ شوگر کے مریض اپنی غذا میں بروکولی ، پھلیاں ، پالک ، مٹر اور پتوں والی سبزیاں ضرور شامل کریں۔ فائبر کی وجہ سے پیٹ دیر تک بھرا محسوس ہوتا ہے اور خون میں شوگر لیول صحیح رہنے کے ساتھ بلڈ پریشر اور کولیسٹرول بھی کنٹرول میں رہتا ہے۔ کچھ پھلوں جیسے آم، انگوراور کیلے میں شکر بہت زیادہ ہوتی ہے اس لیے یہ نہیں کھانے چاہئیں۔ اسکے علاوہ پپیتا، سیب ، امرود، ناشپاتی اور کینو وغیرہ لیئے جاسکتے ہیں۔ چکنی غذا اور مٹھائیاں کھانے سے گریز کریں۔ بیکنگ میں استعمال ہونے والے مصنوعی میٹھے اور کولا ڈرنکس سے گریز کریں۔

وراثت، ماحولیاتی اثرات
کسی شخص کے والدین بہن بھائیوں یا خون کے رشتہ داروں میں ذیابیطس ہونے سے اس کے لئے ذیابیطس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ تاہم جنوبی ایشیا کے افراد میں ذیابیطس قسم دوم کا خطرہ ویسے ہی ذیادہ ہے۔ یعنی ہمارے لئے ذیابیطس قسم دوم ہونے کا خطرہ دوسری قوموں کی نسبت زیادہ ہے۔ وراثت عمر 45 برس سے زیادہ ہونا، بلند فشار خون ،خون کولیسٹرول کی خرابیاں ،وزن کی ذیادتی، خاص طور سے پیٹ پر چربی کا ہونا ،ورزش اور جسمانی مشقت کی کمی خطرناک اشارے ہیں۔آپ متوازن غذا استعمال کرتے ہیں، جسمانی مشقت یا ورزش کرتے ہیں اور وزن حد کے اندر ہے تو طاقتور موروثی اثرات کے باوجود ذیابطیس قسم دوم ہونے کا خطرہ کم ہےـ

ذیابیطس قسم دوم میں ہمارے جسمانی نظام میں مندرجہ ذیل خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔
خون میں گلوکوز کا بڑھ جانا، خون میں کولیسٹرول کی خرابیاں ،خون کی نالیوں کے اندر بہتے ہوئے خون کے جم جانے کا خطرہ، جس سے دل کے دورے، فالج اور پاوں یا پاوں کی انگلیاں کٹنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ہر مریض کے علاج میں اُس کے حالات کے مطابق تھوڑا بہت فرق ہوتا ہے، لیکن ذیابیطس کے علاج کے کچھـ بنیادی اصول ہیں جو تقریباً تمام مریضوں کےلئے یکساں ہوتے ہیں۔ـ اپنے وزن کو مطلوبہ حد پر لانے اور قائم رکھنے کی کوشش کیجے۔ خوراک میں اپنے معالج کے مشورے کے مطابق پرہیزکیجئے ۔ روزانہ ورزش کو معمول بنائیےـ ورزش کابہترین وقت کھانے کے 30 منٹ بعد ہوگا ۔ ڈاکٹر صاحب کی تجویز کردہ دوائیں باقاعدگی سے استعمال کریں ۔ خون میں شوگر کی مقدار باقاعدگی سے چیک کریں اور اپنے معالج کے تجویزکردہ ٹیسٹ باقاعدگی سے کرواتے رہیں اور وقفے وقفے سے اپنے معالج سے مشورہ کرتے رہیں۔علاج شروع کرنے سےپہلےدیکھنا چاہیے کہ مریض میں کوئی دائمی پیچیدگی شروع تو نہیں ہو چکی۔ اسکے لئے تفصیلی معائینہ کرنا چاہیے۔ جیسا کہ پیروں کا معائینہ، آنکھوں کے پردوں کا معائینہ وغیرہ۔،علاج شروع کرنے سے پہلے لیبارٹری سے گردوں، دل اور چکنائی کے ٹیسٹ کروانے چاہییں۔

ذیابیطس کا عمر بھر کا ساتھ ہے اسلیئے خود اپنی دیکھ بھال کی تربیت حاصل کرنا چاہئے۔ بلکہ بہتر ہو گا کہ اس تربیت میں آپکے اہل خانہ اور قریبی ساتھی اور دوست بھی شامل ہوں، تاکہ وہ آپکے علاج میں آپکی مدد کر سکیں۔خون میں شوگر چیک کرنے اور اُس کی ریکارڈ رنگ کرنے کا طریقہ سیکھئے ، تاکہ اس ریکارڈ کو دیکھ کر معالج آپکی بہتر مدد کر سکیں۔آپ کو اور آپکے اہل خانہ اور قریبی ساتھی اور دوستوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ اگر خون میں شوگر کم ہو جائے، تو اُس کی تشخیص کیسے کی جائے، اور علاج کے سلسلے میں فوری طور پر کیا کیا جائے۔


انسولین کی بے اثری(Insulin Resistance)
جب خون میں گلوکوز کی مطلوبہ کمی پیدا کرنے کیلئے معمول سے زیادہ انسولین کی ضرور پڑے، تو اسے انسولین کی بے اثری کہا جاتا ہے۔ گویا ہمارا جسم خود اپنی ہی پیدا کی ہوئی انسولین کو مناسب اور مفید انداز میں استعمال نہیں کر پاتا۔ انسولین کی ایسی بے اثری بہت سی بیماریوں کی وجہ سمجھی جاتی ہے مثلا ذیابیطس قسم دوم ،حمل کی ذیابیطس ،لڑکیوں کی انڈہ دانیوں میں پٍانی کی تھیلیاں ،جگر میں چربی جمع ہونا، میٹابولک سنڈروم ،دل کے کئی امراض ۔

یاد رکھیں کہ انسولین کی بے اثری، موٹاپے، بلڈ پریشر میں اضافے اور خون میں کولیسٹرول کی زیادتی سے گہرا تعلق ہےـ ۔انسولین کی بے اثری ذیابطیس دوم کا سبب تو بنتی ہے، لیکن بہت سے لوگوں میں انسولین بے اثرہونے کے باوجود ابھی اُنہیں ذیابطیس کامرض لاحق نہیں ہوتاـ یہ لوگ بر وقت علاج پر توجہ دے کر ذیابطیس سے بچ سکتے ہیں ـ مگر توجہ نہ دینےکی صورت میں انہیں ذیابطیس دوم ہونے کا امکان بڑھـ جاتا ہےـ۔انسولین کی بے اثری کا سب سے موثر اور کم خرچ علاج اپنے طرز زندگی میں صحت مند تبدیلیاں پیدا کرنا ہے۔ یعنی صحت مند غذا لیجئے ۔ وزن کو قابو میں رکھئے ۔باقاعدگی سے ورزش کیجئے ۔اور تمباکو نوشی سے پرہیز کیجئے۔

شیخ صارم، طالب علم دسویں جماعت، جی ڈی گوئنکا پبلک اسکول سرینگرکشمیر

کیٹاگری میں : صحت

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں