230

طالبان کا افغان حکومت اور اتحادی افواج کے ملازمین کیلئے عام معافی کا اعلان

طالبان نے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں داخلے سے قبل افغان حکومت کے ساتھ ساتھ اتحادی افواج کے لیے بھی کام کرنے والوں کے لیے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ عوام کے مال و جان کی حفاظت امارات اسلامی افغناستان کی بنیادی ذمے داری ہے۔

طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ مجاہدین خزانہ، عوامی سہولیات، سرکاری دفاتر اور آلات، پارکس، سڑکوں اور پل وغیرہ پر خاص توجہ دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ عوام کی املاک ہیں اور اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی ذاتی مداخلت یا غفلت ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی اور اس کا انتہائی سختی کے ساتھ تحفظ کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ امارات اسلامی ان تمام افراد کے لیے اپنے دروازے کھولتی ہے جنہوں نے ماضی میں حملہ آوروں کے لیے کام کیا اور ان کی مدد کی یا جو ابھی بھی کرپٹ افغان حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہم ان کے لیے عام معافی کا اعلان کرتے ہیں اور انہیں دعوت دیتے ہیں کہ وہ قوم اور ملک کی خدمت کریں۔

طالبان کے ترجمان نے کہا کہ حال ہی میں کابل انتظامیہ نے بے بنیاد پروپیگنڈا شروع کیا ہے کہ امارات اسلامی کے جنگجو لوگوں کو اپنی بیٹیوں سے شادی پر مجبور کررہے ہیں یا مجاہدین سے ان کی بیٹیوں کی شادی کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں، وہ کبھی کہتے ہیں کہ طالبان عوام اور قیدیوں کو قتل کررہے ہیں لیکن یہ تمام تر الزامات بے بنیاد ہیں۔

بعد ازاں انہوں نے مزید ٹوئٹس کرتے ہوئے کہا کہ امارات اسلامی افغانستان، کسی کی نجی املاک (گاڑی، زمین، گھر، مارکیٹوں یا دکانوں) میں دلچسپی نہیں رکھتی بلکہ عوام کے مال و جان کی حفاظت ہماری بنیادی ذمے داری ہے۔

انہوں نے سابقہ مؤقف کو ایک مرتبہ پھر دہراتے ہوئے باور کرایا کہ ایسے تمام تر دعوے بے بنیاد ہیں کہ امارات اسلامی افغانستان، لوگوں کو اپنی بیٹیوں کی شادی مجاہدین سے کرنے پر مجبور کررہے ہیں اور یہ زہریلا پروپیگنڈا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران انتہائی تیزی سے پیش قدمی کرنے والے طالبان آج افغانستان کے دارالحکومت کابل کے مضافات میں داخل ہوگئے ہیں۔

تاہم طالبان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے جنگجوؤں کو کابل کے دروازے پار کر کے طاقت کے ذریعے شہر کا کنٹرول نہ حاصل کرنے کی ہدایت کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘کابل کے شہریوں کی زندگی، املاک، عزت پر سمجھوتہ کیے بغیر اقتدار کی محفوظ منتقلی کا عمل یقینی بنانے کے لیے مذاکرات جاری ہیں’۔

اس سے قبل طالبان نے مزاحمت اور لڑائی کے بغیر افغانستان کے شہر جلال آباد پر قبضہ کرلیا تھا جس کے بعد افغان حکومت کا کنٹرول دارالحکومت کابل تک ہی محدود ہوگیا تھا جبکہ اس سے پہلے وہ مزار شریف پر بھی بغیر کسی مزاحمت کے قابض ہو گئے تھے۔

طالبان کی پیش قدمی

واضح رہے کہ افغانستان میں امریکا نے 2001 میں پہلی مرتبہ طالبان حکومت کے خلاف حملے شروع کیے تھے، جو نائن الیون حملوں کا نتیجہ تھا۔

تاہم 2 دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے امریکا نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بعد گزشتہ برس فروری کو امن معاہدہ کیا تھا جس کی رو سے غیر ملکی افواج کے انخلا اور افغان حکومت کی طالبان کے ساتھ بات چیت پر اتفاق ہوا تھا۔

افغانستان میں جاری لڑائی میں رواں برس مئی سے ڈرامائی تبدیلی آئی جب امریکا کی سربراہی میں افغانستان میں موجود غیر ملکی افواج کے انخلا کی تاریخ کا اعلان کیا گیا تھا اور رواں مہینے کے اختتام سے قبل انخلا مکمل ہوجائے گا۔

جس کے پیشِ نظر طالبان کی جانب سے پہلے اہم سرحدی علاقوں پر قبضہ کیا گیا اور پھر برق رفتاری سے صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرتے چلے گئے۔

چند روز قبل ایک امریکی رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی تھی کہ طالبان 30 روز میں کابل پر قبضہ کرسکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں