96

مسلم ممالک کی اسرائیلی مظالم کے خلاف خاموشی یا صرف بیان بازی جرم عظیم سے کم نہیں

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی

1967 میں فلسطینی علاقوں پر ناجائز قبضہ کے بعد سے ”اسرائیل“ نہتھے فلسطینی مسلمانوں پر برابر ظلم کرتا رہتا ہے تاکہ مظلوم مسلمان ظلم وستم سے تنگ آکر فلسطینی علاقوں کو خالی کردیں اور اس طرح یہودیوں کا بیت المقدس خاص کر مسلمانوں کے قبلہ اوّل یعنی مسجد اقصیٰ پر قبضہ کرنے کا خواب پورا ہوسکے، جو انشاءاللہ کبھی پورا نہیں ہوسکے گا۔ اسرائیل کی ناجائز حکومت کی طرح وہاں کی ظالم عدالتیں بھی فلسطینی مسلمانوں پر مظالم ڈھانے کے لئے اسرائیلی حکومت کے اشارہ پر کام کرتی ہیں۔ چند روز قبل اسرائیل کی سپریم کورٹ نے مشرقی یروشلم کے علاقہ ”شیخ جرح“ میں فلسطینی مسلمانوں کو اپنے مکان خالی کرکے یہودیوں کو سونپ دینے کا حکم جاری کردیا۔ اقوام متحدہ اور دنیا میں امن وسکون کے ظاہری ٹھیکیدار بھی مشرقی یروشلم (جہاں مسجد اقصیٰ واقع ہے) پر اسرائیل کے قبضہ کو ناجائز مانتے ہیں، حالانکہ اسرائیل کے خلاف کوئی کاروائی کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ نیز بین الاقوامی قوانین کے مطابق اسرائیل کی عدالتوں کو اس طرح کا فیصلہ سنانے کا حق ہی نہیں ہے۔ اسرائیل اپنی غنڈہ گردی سے برابر یہودیوں کی کالونیاں بنواکر وہاں یہودیوں کو بسا رہا ہے۔ اس نوعیت کے ظالمانہ فیصلے اس سے قبل بھی ہوچکے ہیں جس کے تحت زیادہ سے زیادہ یہودیوں کو فلسطینی علاقوں میں آباد کرنا مقصد ہے۔ آپ خود سوچیں کہ جس مکان میں آپ آباو¿ واجداد سے رہتے چلے آرہے ہیں، آپ سے کہہ دیا جائے کہ اپنے گھروں کو خالی کردو اور سڑکوں پر آجاو¿، تو آپ کیا کریں گے؟ یقینا آپ اپنا حق لینے کے لئے سڑکوں پر آئیں گے۔ چنانچہ اس ظالمانہ فیصلہ کے خلاف فلسطینی مسلمانوں نے اپنا احتجاج شروع کیا۔ جس کے بعد اسرائیلی فوجیوں نے اپنے مذموم مقاصد کے تحت رمضان کے آخری جمعہ سے فلسطینی مسلمانوں پر گولے، ربر کی گولیاں اور لاٹھیاں برسائیں جس کے نتیجہ میںدرجنوں فلسطینی، جن میں بچے بھی ہیں، شہید ہوگئے اور سینکڑوں فلسطینی مسلمان زخمی ہوگئے۔
ایسے حالات میں مسلم حکمرانوں کو چاہئے کہ آپسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ایک آواز سے بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں کے ذریعہ اسرائیل پر دباو¿ ڈالیں کہ وہ اپنے مذموم فیصلہ کو پہلی فرصت میں واپس لے۔ اگر 57 مسلم ممالک یا 22 عرب ممالک یا صرف 7 خلیجی ممالک اسرائیل مظالم کے خلاف ایک آواز کے ساتھ کھڑے ہوجائیں تو اللہ کی ذات سے یقین ہے کہ کسی دوسرے صلاح الدین ایوبی کے آئے بغیر ہی مسجد اقصیٰ کا فیصلہ ہوجائے گا۔ مگرتمام مسلم حکمران اپنے ذاتی مفادات کے لئے صرف بیان تو جاری کردیتے ہیں لیکن کوئی قدم اٹھانے لئے تیار نہیں ہے، بلکہ اسرائیل سے خفیہ ملاقاتیں بھی کرتے رہتے ہیں۔
اس موقع پر مسلمانوں سے درخواست ہے کہ قبلہ اوّل کی یہودیوں کے چنگل سے مکمل آزادی اور فلسطینی مسلمانوں کی مدد کے لیے اللہ تعالیٰ سے خصوصی دعائیں کریں کیونکہ مسجد اقصیٰ میں یقینا پنج وقتہ نماز ادا کی جاتی ہے لیکن جس شہر میں مسجد اقصیٰ واقع ہے، یعنی بیت المقدس ا±س کا مکمل نظم ونسق اسرائیلی حکومت کے پاس ہے۔ اور اس مقدس شہر میں مسلمانوں کی آبادی کو کم کرنے اور یہودیوں کی آبادی کو بڑھانے پر مکمل پلاننگ کے تحت کام کیا جارہا ہے۔
آئیے اس موقع پر اس مقدس سرزمین کے متعلق تاریخی حقائق سے آگاہی حاصل کریں:
فلسطین دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے جس کی حدود اِس وقت اردن، سیریا، لبنان اور مصر سے ملتی ہیں۔ یہ در اصل پورا علاقہ(سیریا، لبنان، فلسطین اور اردن) تاریخی کتابوں میں ملک شام سے موسوم ہے۔ فلسطین کا سب سے مشہور شہر القدس ہے، جسے بیت المقدس بھی کہتے ہیں اور اسرائیل اسے یروشلم (Jerusalem) کہتا ہے۔ مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں تینوں بڑے آسمانی مذہبوں کے لیے یہ مقدس شہر ہے۔ اسی مبارک شہر ”القدس“ میں قبلہ اوّل واقع ہے جس کی طرف نبی اکرم اور صحابہ کرام نے تقریباً 16 یا 18 ماہ نمازیں ادا فرمائی ہیں۔ مسجد حرام اور مسجد نبوی کے بعد سب سے بابرکت وفضیلت کی جگہ مسجد اقصیٰ ہے، جس کی زیارت کے لیے نبی اکرم نے مسلمانوں کو تعلیم دی ہے۔ اسی سرزمین میں واقع مسجد اقصیٰ کی طرف ایک رات آپ کو مکہ مکرمہ سے لے جایا گیا اوروہاں آپنے تمام انبیاءکی امامت فرماکر نماز پڑھائی، پھر بعد میں اسی سرزمین سے آپ کو آسمانوں کے اوپر لے جایا گیا جہاں آپ کی اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضری ہوئی۔ اس سفر میں آپ نے جنت وجہنم کے مختلف مناظر دیکھے اور سات آسمانوں پر آپ کی مختلف انبیاءکرام سے ملاقات ہوئی۔ یہ مکمل واقعہ رات کے ایک حصہ میں انجام پایا۔ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کے اس سفر کو اسراءاور مسجد اقصیٰ سے اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضری کے اس سفر کو معراج کہا جاتا ہے۔
16 ہجری (637) میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں اس مبارک شہر (بیت المقدس) کو فتح کرکے وہاں اسلامی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ خلیفہ عبد الملک کے عہد میں یہاں عالیشان مسجد اقصیٰ اور قبة الصخراءکی تعمیر کی گئی۔ بیت المقدس کی فتحیابی کے 462 سال بعد 1099 میں پہلی صلیبی جنگ کے موقع پر عیسائیوں نے اس شہر پر قبضہ کرکے 70 ہزار مسلمانوں کو شہید کردیا تھا، مگر صرف 88 سال بعد 1187 میں حضرت صلاح الدین ایوبی رحمة اللہ علیہ نے القدس شہر کو عیسائیوں کے قبضہ سے چھڑایا۔ 1228 سے 1244 تک بھی اس شہر کو مسلمانوں سے چھین لیا گیا تھا۔ غرضیکہ یہ مبارک شہر (بیت المقدس) صرف سو سال کے علاوہ 637 سے 1917 تک مسلسل مسلمانوں کے ہی قبضہ میں رہا ہے۔ اور اس شہر میں رہنے والوں کی بڑی تعداد مذہب اسلام کو ہی ماننے والی رہی ہے۔ لیکن پہلی جنگ عظیم کے بعد خلافت عثمانیہ کے زوال کے ساتھ ہی 1917 میں اس شہر اور فلسطین کے دوسرے علاقوں پر برطانیہ نے قبضہ کرلیا تھا اورپھر آہستہ آہستہ دنیا کے کونے کونے سے یہودیوں کو آباد کرکے مسلمانوں کی اس سرزمین (فلسطین) پر 1948 میں ایک ایسے ناجائز ملک کے قیام کا اعلان کردیا جو آج تک پورے خطہ کے امن وسکون کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے۔ خلافت عثمانیہ کے آخری بااختیار خلیفہ عبدالحمید ثانی پر جب مغربی طاقتوں نے فلسطین کو یہودیوں کو دینے یا وہاں یہودیوں کو آباد کرنے کے تعلق سے دباو¿ ڈالا تو ا±ن کا جواب تاریخ کا حصہ بن گیا: میں سرزمین فلسطین کا ایک انچ بھی یہودیوں کو نہیں دوں گا کیونکہ فلسطین میرا نہیں بلکہ امت کا ہے اور امت نے اس سرزمین کی حفاظت کے لیے اپنا خون بہایا ہے۔ 1948 سے 1967 تک القدس شہر مسلمانوں کے ملک ”اردن“ کا ہی ایک حصہ رہا۔ 1967 میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد مغربی ممالک کی بھرپور مدد سے فلسطین کے دیگر علاقوں کے ساتھ القدس شہر پر بھی اسرائیل نے قبضہ کرلیا۔ اس طرح 1967 میں وہ مقدس شہر بھی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گیا، جہاں مسجد اقصیٰ واقع ہے جو مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہے۔
شہر القدس (یروشلم) سے جہاں مسلمانوں کا خصوصی تعلق ہے، وہیں یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے بھی یہ مقدس سرزمین ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام نے عراق سے بیت المقدس کی طرف ہجرت فرمائی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹوں میں سے ایک بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام اور ان کے بعد آنے والے تمام انبیاءکرام (حضرت یعقوب، حضرت سلیمان، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام وغیرہ) کا تعلق اسی سرزمین سے ہے۔ عیسائیوں کا خیال ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش بھی یہی شہر ہے۔ یہودیوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت سلیمان علیہ السلام کی تیار کردہ عبادت گاہ (ہیکل سلیمانی) کا تعلق بھی اسی سرزمین سے ہے۔ سرور کائنات وآخری نبی حضرت محمد مصطفی ‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے ہیں جو مکہ مکرمہ میں مقیم تھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں اس شہر پر مسلمانوں کی فتح یابی سے قبل تک اس سرزمین میں یہودیوں اور عیسائیوں کے درمیان متعدد جنگیں ہوئی ہیں جن میں ہزاروں افراد کا قتل عام ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ فلسطینی علاقے خاص کر بیت المقدس پر جو اسرائیل نے ناجائز قبضہ کررکھا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی آزادی کا فیصلہ فرمائے اور مظلوم نہتھے فلسطینی مسلمانوں کی مدد فرمائے۔ آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں