190

پی ڈی پی اور اے این سی کا حد بندی کمیشن سے ملنے سے انکار،کمیشن کی آئینی اور قانونی پوزیشن پر شبہات کا اظہار

جموں وکشمیر میں آئندہ اسمبلی الیکشن سے قبل سیٹوں کی نئی حلقہ بندی کیلئے سپریم کورٹ کی سابق جج رنجنا پرکاش ڈیسائی کی سربراہی میں تشکیل شدہ سہ رکنی کمیشن نے منگل کوسرینگر سے اپنے 4روزہ مشن کا باقاعدہ آغازکیا۔ اس بیچ نیشنل کانفرنس، کانگریس،بی جے پی ،سی پی آئی ایم سمیت کئی پارٹیوں نے کمیشن سے ملاقات کی اور اپنی تجاویز پیش کیں۔البتہ گپکار الائنس میں شامل دوا ہم پارٹیوں پی ڈی پی اور عوامی نیشنل کانفرنس کمیشن سے نہ ملنے کا اعلان کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ حد بندی کمیشن آئینی اور قانونی طور سے بے اختیار ہے اور اس مشق کا مقصد جموں وکشمیر کے عوام کو سیاسی طور بے اختیار بناناہے تاہم نیشنل کانفرنس سمیت دیگر سبھی جماعتوں نے کمیشن سے ملنے پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے اس سلسلے میں وفود بھی تشکیل دئے۔ایس این ایس کے مطابق جموں وکشمیر میں اسمبلی سیٹوں کی نئی حد بندی کیلئے تشکیل دئے گئے حد بندی کمیشن نے منگل کو سرینگر سے اپنے 4روزہ مشن کا باضابطہ طور آغا زکیا۔ریٹائرڈ جسٹس رنجنا پرکاش ڈیسائی ی سہ رکنی ٹےم پیر کی شام کو سرینگر پہنچی اور منگل سے ڈل کے کنارے واقع ہوٹل للت سے اپنے مشن کا آغا زکیا۔اپنے 4روزہ دورے کے پہلے دن کمیشن سے پردیش کانگریس اور بی جے پی کے وفود نے ملاقات کی اور حد بندی سے متعلق اپنی آراءکو پیش کیا۔کانگریس وفد کی قیادت پارٹی کے صدر غلام احمد میر کررہے تھے۔کمیشن سے ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ کے ساتھ بات کرتے ہوئے غلام احمد میر نے اس کو ایک فضول مشق قرار دیا اور کہا کہ کمیشن کے پاس آئینی اور قانونی اختیار نہیں ہے۔انہوں نے سوال اٹھایاکہ 2026میں طے نئی حد بندی سے قبل جموں وکشمیر کیلئے سیٹوں کی حد بندی کئی معنوں سے چہ معنی دارد ہے اور اس سے جان بوجھ کر جموں وکشمیر کو ملک سے الگ کردیا گیا ہے۔غلام احمد میر کے مطابق حد بندی سے قبل ریاستی درجہ بحال کرنے کی ضرورت تھی لیکن اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔بی جے پی وفد نے بھی کمیشن سے ملاقات کی اور اس پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا۔دریں اثناءگپکار الائنس میں شامل دو اہم پارٹیوں پی ڈی پی اور عوامی نیشنل کانفرنس نے حد بندی کمیشن کو بے اختیا ر قرار دیتے ہوئے اس سے ملنے سے انکار کردیا۔پی ڈی پی کے جنرل سیکرٹری غلام نبی لون ہانجورہ کی جانب سے حد بندی کمیشن کی چیئر پرسن رنجنا پرکاش ڈیسائی کے نام 4صفحات پر مشتمل ایک مکتوب ارسال کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 5اگست 2019کو مرکز میں برسر اقتدار پارٹی نے ایک غیر آئینی اور غیر قانونی فیصلے کے تحت جمو ں وکشمیر کے آئینی اور جمہوری حق پر ڈاکہ ڈالتے ہوئے دفعہ 370اور 35-Aکو کالعدم کردیا اور اسی روز جموںوکشمیر کے عوام کی عزت نفس کے ساتھ ایک کھلواڑ کرتے ہوئے 2سو سال پرانی ریاست کو دولخت کرکے ریاست سے یونین ٹریٹری میں تبدیل کردیا گیا۔خط میں مذید کہا گیا ہے کہ تنظیم نو ایکٹ اسی فیصلے کا ثمرہ ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کمیشن کے پاس آئینی اور قانونی منڈیٹ حاصل نہیںہے جس پر عوام کو شبہات کے ساتھ ساتھ خدشات بھی ہیں۔خط میں ان شبہات کا اظہار کیا گیا ہے کہ کمیشن عوام کو سیاسی حقوق دینے کے بجائے مسائل سے ہی دوچار کرے گی۔اس لئے پارٹی نے فیصلہ کردیا ہے کہ وہ اس مشق کا حصہ نہیں بنے گی کیونکہ اس کا ماحاصل پیشگی طور طے شدہ ہے اور نتائج عوام کے جذبات کو مجروح کرنے والے ہونگے۔عوامی نیشنل کانفرنس نے بھی کمیشن سے نہ ملنے کا اعلا ن کیا ہے۔پارٹی بیان میں کہا گیا ہے کہ چونکہ 5اگست 2019کو لئے گئے غیر آئینی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں کیس زیر سماعت ہے اس لئے اس سے قبل حد بندی کمیشن کا قیام ایک فضول اور بے معنی عمل ہے۔نیشنل کانفرنس نے بھی حد بندی کمیشن پر سوال اٹھائے تاہم پارٹی نے عبد الرحیم راتھر ،محمد شفیع اوڑی ،میاں الطاف ،ناصر اسلم وانی اور سکینہ ایتو پر مشتمل 5رکنی وفد تشکیل دیا ہے جس نے حد بندی کمیشن سے ملاقات کی۔سی پی آئی ایم کی ٹیم نے محمد یوسف تاریگامی ،بی جے پی کی ٹیم نے الطاف ٹھاکر اور کئی دوسری جماعتوں نے بھی کمیشن سے ملاقات کی۔دوسری مدعو پارٹیاں سرینگر میں خیمہ زن ہیں جو آج کمیشن کے ساتھ ملاقات کریں گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں