16

۱۳جولائی، یوم شہدائے کشمیر ۔ ہنگامہ ہے کیوں برپا؟

رشید پروین ؔسوپور

۵مارچ بدھ کو کشمیر اسمبلی میں پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کے وحید پرہ نے گورنر کے خطاب پر شکرئے کی تحریک کے دوران مطالبہ کیا کہ شیخ عبداللہ اور۱۳ جولائی کے یوم شہدا کی تعطیلات کو از سر نو بحا ل کیا جائے ۔ یاد رہے کہ یہ دونوں دن یہاں تعطیلات ہوا کرتی تھیں اور ۱۳ جولائی کو یوم شہدا کے طور پر سرکاری اور عوامی سطح پر منایا جاتا تھا جس میں ۱۳ جولائی ۱۹۳۱ کے شہدا کو خراج عقیدت کے ساتھ ساتھ ان واقعات اور حالات پر روشنی ڈالی جاتی تھی۔ ظاہر ہے کہ اس کا مقصد ہی اپنی نئی نسل کو ان مجاہدین اور ان کے کارناموں سے روشناس کرانا ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زندگیاں قوم کے لئے قربان کی ہوں اور یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں بلکہ ہر ملک اور ہر قوم کی تاریخوں میں اس طرح کے باب رقم ہیں اور ان کی حفاظت ان اقوام اور ان ممالک کا فریضہ بھی ہوتا ہے۔ لیکن وحید پرہ کے خطاب کے ساتھ ہی بی جے پی کے سنیل شرما نے ۱۳ جولائی کے شہدائے کشمیر کو غدار قرار دیا۔ کشمیر نشین تمام سیاسی پارٹیوں نے متحد ہوکر اس کے خلاف احتجاج کیا اور ان ہتک آمیز ریمارکس کو اسمبلی کاروائی سے خارج کرنے کا مطالبہ کیا۔ ممبر اسمبلی نظام الدین بٹ نے ان ریمارکس کو ذلت آمیز اور تفرقہ انگیز قرار دیا، جس میں وہ حق بجانب ہیں۔ بہر حال اسپیکر نے ان ریمارکس کو کاروائی سے خارج کرنے کا اعلان کیا ،لیکن یہ ریمارکس بہر حال کشمیر سے متعلق ایک مخصوص نظرئیے پر محیط ہیں، جو کشمیری عوام کی تذلیل اور ان سے نفرت کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ، اور اس کے پسِ منظر میں آج بھی یہی جذبہ ہے کہ جموں کے راجہ گلاب سنگھ نے ملک ِجموں و کشمیر گلگت بلتستان معہ پاکستانی مقبوضہ کشمیر انگریز سرکار سے بیعنامہ امرتسر کے تحت ۱۶ مارچ ۱۸۴۶ کو معہ انسان، جانوراور چرند و پرند کے خرید لی تھی ۔
قومے فروختندچہ ارزاں فروختند
تو ایک لمبے عرصے کے لئے کشمیری عوام ظاہر ہے کہ غلامو ں کی زندگی گذارتے رہے ہیں ، وہ غلام جن کی حثیت کبھی کیڑے مکوڑوں سے سے زیادہ تاریخی طور نہیں رہی ہے۔ انقلابات اور عوامی بغاوتوں کی تاریخ ساری دنیا میں ایک جیسی رہی ہے اور جب بھی ظلم و ستم اور زور وجبر اپنی انتہا کو پہنچتا ہے تو راکھ کے ڈھیر میں ایک چھوٹی سی چنگاری آہستہ آہستہ سارے ڈھیر کو آگ کے شعلوں کی نذر کرتی ہے ، اور یہی یہاں کشمیر میں بھی ہوا جب توہین قرآن کے معاملے میں اس وقت کے گورنر ترلوک چند نے معز زین شہر کو بلاکر تنبیہ کی کہ مہاراج نے ایک کمیشن بٹھا دیا ہے اس لئے اب کوئی جلسہ جلوس سرکار کو قابل قبول اور برداشت نہیں ہوگا ۔ اس کے رد عمل میں یقینی طور پر کچھ معز زین خوف زدہ بھی ہوئے لیکن اکثریت نے اس وارننگ کو نظر انداز کرکے ایک نئے احتجاج اور بغاوت کی تیاری کی۔ ایک جلسہ عام خانقاہ معلیٰ میں بلایا گیا جس میں پہلی بار مولوی یوسف شاہ نے شرکت کی، پہلے مولوی خاندان ہی سارے کشمیر میں احترام و عقیدت کی بنیاد پر عوام کے دلوں پہ راج کرتا تھا۔ ان کا استقبال جلسے میں تمام اکابرین نے کھڑے ہوکر کیا ۔ اس کے بعد سات نمائندوں کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ، جس میں سعد الدین شال (۲)میر واعظ یوسف شاہ صاحب (۳)میر واعظ احمداللہ ہمدانی، (۴)آغا سید حسین جلالی (۵)خواجہ غلام احمد عشائی ، (۶)شیخ محمد عبداللہ اور منشی شہاب الدین نامزد کئے گئے ، لیکن جلسہ جب ختم ہونے کے قریب ہی تھااور اکابرین و لوگ جلسہ گاہ چھوڑنے ہی والے تھے تو اچانک ایک اجنبی نوجوان کہیں سے آکر سٹیج پر چڑھ گیا اور اچانک ہی اس نے اپنی ولولہ انگیز اور اشتعال انگیز تقریر سے کایا ہی پلٹ دی۔ سیدھے اور دوٹوک الفاظ میں مہاراجہ سرکار کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا، اس سر کار کو ظالم، جابر و قابض سرکار کہہ کر مہا راجہ کو نہ صرف للکارا بلکہ مسلمانانِ کشمیر کو صف بند ہونے اور مہاراجہ کی سرکار کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان کیا۔ یہ گرم راکھ کے ڈھیر میں بارود سے دھماکہ کرنے کی بات تھی، بلکہ وہ ڈھیر جو ابھی تک سلگ رہا تھا ایکدم بھبھوکے ، کے ساتھ پھٹ پڑا۔ اس نوجوان کا نام عبدالقدیر تھا ، یہ بات طئے ہے کہ یہ کشمیر کا باشندہ نہیں تھا ، لیکن کشمیر میں ایک عرصے سے رہ رہا تھا اور کشمیری مسلمانوں پر مہاراجہ کے ظلم و ستم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا ،( کئی مورخوں کا خیال ہے کہ یہ نوجوان کسی انگریز کے ہاں ملازم بھی تھا ) افسوس کہ اس اولین مرد مجاہدکے متعلق نہ تو ہماری تاریخ میں کوئی تصویر ہے اور نہ ہی اس کی زندگی کے بارے میں تفصیلات ملتی ہیں، ایک آندھی کی طرح ہی آیا تھا اور ایک طوفانی ریلے ہی کی طرح ہری سنگھی سرکار کے تخت کو ہلا کر گذر گیا تھا۔ یہی ابتدائی واقعہ ہے چھوٹا سا، مختصر سا لیکن یہی ایک بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اسی وقت عبدالقدیر کے خلاف کئی مقدمات درج ہوئے ، جن میں غداری کا مقدمہ بھی تھا اور اسی وقت انہیں گرفتار بھی کیا گیا۔ سیشن جج کشن لال کچلو کی عدالت میں کیس چلنے لگا۔ قدیر کے کیس کی پیر وی مولوی عبداللہ وکیل، پیر قمرالدین اور غلام محمد وکیل کرنے لگے۔ اس مقدمے کو کئی وجوہات کی بِنا پر سنٹرل جیل منتقل کیا گیا جس کے خلاف ۱۲جولائی ۱۹۳۱ ء کو غلام نبی گلکار اور مولوی عبدالرحیم نے عوامی اجتماع میں اس مقدمے کو سنٹرل جیل منتقل کرنے کے خلاف احتجاج کیا۔ دوسرے روز ۱۳ جولائی کو سنٹرل جیل کے باہر صبح سے ہی لوگوں کی ایک بڑی تعداد جمع ہوئی جو عبدالقدیر زندہ باد کے نعرے لگا رہی تھی۔ سیشن جج کچلو کی گاڑی جب جیل کے پھاٹک کے اندر داخل ہوئی تو لوگوں کا ایک جم غفیر بھی جیل کے احاطے میں پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ مولوی عبداللہ وکیل کی اپیل پر بھیڑ جیل سے باہر آئی لیکن ہنگامہ اس بات پر برپا ہوا کہ انہیں کاروائی دیکھنے کی اجازت دی جائے۔ اسی اثنا میں گورنر بھی جیل پہنچے اور یہاں یہ ماجرا دیکھ کر برافروختہ ہوئے۔ لوگوں نے اندر جانے کی اجازت چاہی تو گورنر نے ان سب کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ، بھگدڈ مچ گئی ، اور گورنر نے فوری طور سپاہیوں کو گولی چلانے کا حکم دیا۔ پولیس پہلے ہی سے گھات لگائے بیٹھی تھی اس لئے اس واقع کو کشمیر کا جلیانوالہ باغ بھی کہا جاسکتا ہے۔ گولیوں کی اس باڈھ میں گیٹ پر سترہ آدی شہید ہوئے ، پانچ شدید زخمی ہوئے جو بعد میں زندگی کی جنگ ہار گئے۔ لوگ پہلے تو سچویشن ہی نہیں سمجھے لیکن جب انہوں نے لاشوں اور زخمیوں کے ڈھیر دیکھے توحواس کھو بیٹھے اور اس کے بعد وہ ہلہ بولا کہ کئی سپاہی پاؤں تلے کچل کر رہ گئے۔ کمروں سے چارپائیاں اٹھائیں اور ان پر شہیدوں اور زخمیوں کو اٹھالیا۔ ایک ٹکڑی نے پولیس ہیڈ کوارٹر کو نذر آتش کیا۔ زخمیوں میں سے مزید ۵ آدمی شہادت کے درجے پر فائض ہوئے ۔ لوگ جوق در جو ق جمع ہونے لگے اور یہ ہجوم جامع مسجد کی طرف رواں ہوا۔ ملہ کھاہ (قبرستان ) کے پاس فوجیوں نے جلوس کو روکا اور ان سے لاشیں چھیننے کی کوشش کی ۔عوام کا موڈ دیکھ کر کمانڈر نے اپنے فوجیوں کو پیچھے ہٹا دیا اور اس طرح سے یہ دوسرا تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا۔ شہیدوں کو جامع مسجد پہنچایا گیا ؟
یہ رات کیسی رہی ہوگی جب سارے شہر میں کوئی اور کسی گھر سے چولھا جلنے کا دھواں نہیں اٹھا تھا۔ ظاہر ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر خون ریزی اور اس قدر بہیمانہ قتل عام سرینگر کے لوگوں کے لئے ایک نیا تجربہ رہا ہوگا ، المناک اور کرب ناک۔ لاشوں پر عوام نے پہرے بٹھا دئے کیونکہ پورے دن کی افرا تفری میں ان شہیدوں کو دفن نہیں کیا جاسکا تھا ۔یہ لاشیں جامع مسجد میں تھیں اور جوان دروازوں کو بند کرکے ان کی نگہبانی پر متعین تھے۔ سوچ بچار کے بعد شہیدوں کو درگاہ نقشبندیہ کے صحن میں دفن کرنے کا فیصلہ ہوا اور مولوی یوسف شاہ صاحب نے انہیں شہیدوں کے طور طریقوں کے ساتھ دفن کرنے کا فتویٰ جاری کیا۔ کئی قصبوں میں اس واقعے کے خلاف زبردست احتجاج بلند ہوا جس میں میرا سوپور بھی سر فہرست ہے جہاں نو اشخاص نے جام شہادت نوش کیا جو سوپور کے مزار شہدا میں دفن ہیں۔ اگر چہ سوپور میں یہ واقع ۱۳ جولائی کو ہی پیش نہیں آیا بلکہ اس کے کچھ دن بعد وقوع پذیر ہوا تھا لیکن ان کا یوم شہدا بھی سرینگر کے شہدا کے ساتھ ۱۳ جولائی کو ہی منایا جاتا ہے۔ اس طرح بارہمولہ اور کئی دوسرے قصبوں میں بھی ۱۳ جولائی قتل عام کے خلاف زبردست احتجاج ہوا جس میں کئی کئی افراد موت کے گھاٹ اتارے گئے۔حالات سدھرنے لگے تو ۱۴ اگست کے دن ۱۳جولائی کے سانحہ کو کشمیر ڈے سے موسوم کرکے منانے کا فیصلہ ہوا۔
اس کے بعد ۲۱ ستمبر کو شیخ عبداللہ کو پھر گرفتار کیا گیا ، لوگ احتجاج کے لئے جامع مسجد میں جمع ہونا شروع ہوئے ، ہری سنگھی فوج نے جامع مسجد کا معاصرہ کیا ، اور جب لوگ اس معاصرے کے بعد بھی جامع مسجد کی طرف آتے گئے تو فوج نے لوگوں کے ہجوم پر گھوڑے دوڑائے ،ڈنڈے برسائے اور اور اس کے بعد گولیاں چلائیں ، اس تصادم میں چار آدمی شہید ہوئے ،اسی دن بسنت باغ میں جلوس نکلا تو یہاں بھی تین آدمی گولیوں کی زد میں آگئے اور شہید ہوئے۔ در اصل یہ خونین واقعات اس انقلاب کا پیش خیمہ تھے جو ڈوگرہ مظالم کے خلاف مستقبل قریب سے جھانک ر ہا تھا اور ان سب خونین واقعات کا سر چشمہ ۱۳ جولائی ہے جس دن بے کس ، مفلس ، مظلوم ،فاقہ کش اور بے یارو مددگار کشمیری عوام نے شہنشاہیت اور غلامی کی زنجیروں سے نجات پانے کی سعی اور کشمکش شروع کی ۔اس وقت بھارت میں بھی انگریزوں کے خلاف اور انگریز راج کے خاتمے کے لئے لوگ قربانیاں دے رہے تھے۔ کشمیریوں کی دل آذری ، توہین اور ذلت آمیز وطیرہ۔ یہ سلسلہ تب سے اب تک اسی طرح جاری و ساری ہے اور آج تک اس ذہنیت کا انداز کشمیریوں کے بارے میں نہیں بدلا ہے اور شایدآگے بھی نہیں بدلے گا کیونکہ ہر فاتح کو کشمیر کی سر زمین سے پیار ہے ، یہاں کے قدرتی حسن ، پانی اور گھنے جنگلات سے عشق ہے ، اور انسان کیڑے مکوڈوں سے زیادہ اہمیت کے حامل تاریخ میں شاید کبھی رہے ہی نہیں ہیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں