شمیمہ صدیق شمی
چک سیدپورہ شوپیان کشمیر
عورت رب کائنات کا سب سے بڑا شاہکار ہے۔عورت ہر روپ میں محبت کا سمندر ہے اور ہر روپ میں پیار بھرا دل رکھتی ہے۔ ماں،بہن بیوی اور بیٹی ان سارے مقدس رشتوں نے ہمیشہ ایثار و ہمدردی اور محبت و شفقت میں ایک اہم رول ادا کیا ہے۔
ماں ،بیوی بہن جیسے کئی روپ ہیں اس کے
واللہ ہر اِک رنگ میں غمخوار ہے عورت (راز اعظمی)
زمانہ قدیم سے لے کر آج تک عورت ظلم و ستم کی چکی میں پستی آرہی ہے مگر اب تک اس کی آزمائشیں ختم نہیں ہوئیں ہیں بلکہ روز بہ روز بڑھتی ہی جارہیں ہیں اور عورت درد کی چادر اوڑھ کر اپنی بےبسی اور لاچاری کو نم آنکھوں سے دیکھ رہی ہے اور من کے اندر ہی اندر آنسوو¿ں کا سمندر اتار رہی ہے۔ذرا سوچیں اگر اِس دنیا میں عورت کا وجود نہ ہوتا تو کیا ہوتا ؟ کیا مرد کی کوئی حیثیت ہوتی ؟کیا مرد کا کوئی مستقبل ہوتا ؟ اگر کائنات میں عورت کا وجود نہ ہوتا تو یہ مرد جو عورت کو ناقص العقل کہہ کر مخاطب کرتا ہے نا ،آج جنگلوں میں ،ویرانوں میں خونخوار درندوں کے ساتھ رہ رہ کر خود بھی کسی وحشی درندے کی شکل اختیار کرچکا ہوتا اور ساری کائنات غم میں ڈوبی ہوئی ہوتی اور ساری کائنات ہی بےرونق ہوتی۔
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں (علامہ اقبالؒ )
صنفِ نازک روز اول سے ہی ظلم و ستم کا شکار رہی ہے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے اور کہیں بھی یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیںلے رہا ہے۔ جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو بہت ساری تلخ اور دِل دہلانے والی داستانیں سامنے آتیں ہیں کہ کس طرح پرانے وقتوں میں عورت بطورِ ہدیہ دی جاتی تھی، بطورِ رشوت صنفِ نازک کو پیش کیا جاتا تھا اور عورت کو مردہ شوہر کے ساتھ جلایا جاتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اگرچہ یہ مظالم کم ہوگئے مگر دوسری کہیں صورتوں میں یعنی کہ آج زمانہ جدید میں عورتوں کے ساتھ ایسے ایسے ظلم و ستم ہورہے ہیں کہ جن کو دیکھ کر ،پڑھ کر دِل دہل جاتے ہیں ،روحیں کانپ جاتیں ہیں۔آج کے اس ترقی یافتہ دور میں عورتوں کے خلاف تشدد میں ذہنی و جسمانی اذیتیں ،عصمت دری ،چھیڑ چھاڑ ،تیزاب پھینکنا ،جہیز کے لئے جلانا ،زنا الجبر، غیرت کے نام پر قتل Honour Killing اور سب سے بڑھ کر رحم مادر میں ہی معصوم کلیوں کو قتل کرنے جیسے خوفناک، دل دہلانے والے واقعات آئے روز بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ایسے انسانیت سوز مظالم تو اب عام بات ہوگئی ہے۔اب تو دل دہلانے والی خبروں کے لوگ عادی ہوگئے ہیں۔
آج کے اس ترقی یافتہ دور میں عورتوں کی خودکشی کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے۔عورتیں اپنی قیمتی جانوں کو خود ہی ختم کررہی ہیں زندگی سے سے تنگ آکر۔دوسری طرف کہیں کہیں پر عورتوں کا قتل کرکے خودکشی کا نام بھی دیا جارہا ہے۔شادی شدہ خواتین کی خودکشی کے پیچھے گھریلو جگھڑے ،ظلم و ستم اور مار پیٹ جیسی ڈراونی داستانیں پوشیدہ ہوتیں ہیں۔جب گھریلو ظلم وستم حد سے بڑھ جاتے ہیں تو عورتیں مجبور ہوکر خودکشی جیسا قدم اٹھاتیں ہیں اور اپنی قیمتی جان گنوا دیتی ہیں۔آج کل اگر دیکھا جائے تو بہت سارے گھروں میں عورتوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ہے۔صنفِ نازک نہ صرف اپنے مجازی خدا بلکہ مجازی خدا سے جڑے ہوئے رشتوں سے بھی ظلم و ستم کا شکار ہو رہی ہے اور ظلم برداشت کررہیں ہیں۔دکھ درد کی چادر اوڑھ کر لبوں کو سی لیتیں ہیں تاکہ اس کے پیاروں تک اس کی بے بسی کی داستان نہ پہنچ سکے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک تو اندر کا غم عورت کے اندر پل پل کر زہریلا ناگ بن جاتا ہے اور جب صبر کا دامن ہاتھوں سے چھوٹ جاتا ہے تو یہ غم کا زہریلا ناگ عورت کو ڈھس لیتا ہے۔کتنی ہی عورتیں ہیں گھروں میں جو جسمانی، ذہنی تشدد سہتے سہتے زندہ لاش بن کر رہ گئیں ہیں۔اور کتنی ہی ایسی ہیں جو سسرالی رشتوں سے تنگ آکر موت کو گلے لگا لیتی ہیں. تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ عورتوں پر ظلم کرنے والوں میں صرف مرد حضرات ہی نہیں بلکہ چند بے ضمیر عورتیں بھی ہیں ،جو دوسروں کی بیٹیوں کو کسی جانور سے، نوکر سے اور کسی کام کرنے والی مشین سے کم نہیں سمجھتیں۔
عورت بڑی ہی کٹھن آزمائش میں مبتلا ہے ،بڑے ہی کرب سے دوچار ہے ،بڑے ہی دکھ درد سے گزر رہی ہے۔صنفِ نازک آخر کیونکر اس درد سے گزر رہی ہے ،ایسی وجوہات پر ہم سبھی کو غور کرنے کی ضرورت ہے اور حالات اور مسائل کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔اگر ہم اپنی وادیِ کشمیر کی بات کریں تو یہاں پر بھی عورتوں پر کوئی کم ظلم و ستم نہیں ہے۔حال ہی میں بہت سارے خودکشی اور قتل جیسے دلسوز واقعات سامنے آئے۔ اور زندہ عورتیں کس قدر روز جیتی ہیں روز مرتیں ہیں اور کس قدر زندہ لاشیں بن کر رہ گئیں ہے اس کا حساب لگانا ناممکن ہے۔عورتوں پر تشدد کرنے والوں میں پڑھے لکھے اور ان پڑھ جاہل ہر طرح کے مرد شامل ہیں۔ہمارے معاشرے میں عورت کی جو بے بسی دیکھنے کو ملتی ہے وہ بیان کرتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ہر معاشرے میں ایسے دوغلے مرد حضرات بھی پائے جاتے ہیں جو عورتوں کے حقوق کے لئے بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں، انہوں نے اپنے چہرے پر نہ جانے منافقت کے، دوغلے پن کے کتنے نقاب اوڑھ رکھے ہوتے ہیں۔ چند مرد حضرات ایسے بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کے سامنے اپنی بیویوں کی بڑی قدر کرتے ہیں، بڑا احترام کرتے ہیں۔ رشتہ داروں اور دوستوں کے سامنے بیویوں کو مختلف پیار بھرے ناموں سے پکارتے ہیں اور گھر میں عورت کی معمولی غلطی پر ا±سے گدھی، جاہل عورت اور نہ جانے کیسے کیسے برے القاب سے نوازتے ہیں، گالی گلوچ کرتے ہیں ،مار پیٹ کرتے ہیں اور کبھی کبھی نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ معلوم ہوا کہ عورت کے متعلق بہت سارے متضاد اور منفی نظریات تھے چند ذہنی طور مریض لوگوں کے۔ کسی نے عورت کو "ام الخبائث ” کسی نے تمام برائیوں کی ماں ،کسی نے ڈائن ،کسی نے فتنے کی جڑ ،کسی نے ابلیس کی بہن، کسی نے زہریلا سانپ کہا ،کسی نے ناگن،اور کسی نے مہلک زہر سے صنفِ نازک کو تشبیہ دی۔ایسے برے اور منفی نظریات نے عورت کے احترام، شخصیت اور عزتِ نفس کو مجروح کیا۔ عورتوں سے متعلق ایسے نظریات پڑھ کر دل بہت دکھی ہوا۔ قدیم اردو شاعری کے مطالعے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ شعراءحضرات نے بھی کوئی کثر باقی نہ چھوڑی ،عورت کو ظالم، قاتل، سنگ دل اور بے وفا جیسے الفاظ سے نوازا۔ان سب چیزوں کو اگر مدنظر رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ا±س وقت عورت کی کیا حیثیت تھی زمانے میں۔ اور عقل کے اندھے لوگ عورت جیسی عظیم ہستی کو کیا تصور کرتے تھے۔جہاں بہت سارے منفی نظریات دیکھنے کو ملے وہیں دوسری اور عورتوں سے متعلق مثبت نظریات بھی پڑھنے کو ملے۔کسی نے عورت کو پھول کہا ،کسی نے کہا کہ عورت کے بنا دنیا ویران ہے۔کسی نے عورت کو آسمانی تحفہ کہا۔ شیکسپیئر کا کہنا ہے کہ "عورت خوشبو ،نغمہ ،رقص اور روشنی کا مجموعہ ہے "۔
گوئٹے کا قول ہے کہ ” عورت کی روح ہمیں ا±ونچائی کا راستہ دِکھاتی ہے۔ مرد کی رہنمائی عورت کے شیریں الفاظ کرتے ہیں "غرض کسی نے عورت کو محبت اور شفقت کا سمندر کہا۔
یاں ناری کی تعظیم کا دستور ہی کب ہے
دھوکہ اسے کہتے ہیں سراب اس کا لقب ہے
زاہد کے لئے زہد کا تاوان ہے عورت
ملا کے لئے عیش کا سامان ہے عورت
فنکار یہ سمجھا ہے کہ گلدان ہے عورت
صوفی کا یہ کہنا ہے کہ شیطان ہے عورت (سلطانہ مہر )
تمام مذاہب کا اگر مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا جو عزت دینِ اسلام نے عورت کو دی وہ کسی اور مذاہب نے نہ دی اور عورت کو سب سے زیادہ عزت میرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دی ۔ رحمت العالمین کے ہم سب پر ،پوری کائنات پر احسانات ہی احسانات ہیں۔پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کرم نہ ہوتا تو ہم لڑکیوں کا وجود تک نہ کہیں ہوتا اور ہماری ہستی مٹ گئی ہوتی بلکہ یوں کہ ساری کائنات ہی مٹ گئی ہوتی اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم دنیا میں تشریف نہ لاتے۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی عورت طرح طرح کے مسائل سے دوچار ہے ،گھریلو تشدد ،ذہنی اور جسمانی تشدد عام سی بات ہوگئی ہے۔ گھر سے نکلنا عورت کےلئے مشکل ہوگیا ہے کیونکہ چند درندے ن±ما لوگ شکار کی تلاش میں ہوتے ہیں۔عورت ازل سے ہی د±کھ درد کی چکی میں پِستی آرہی ہے ،جو حالت زمانہ قدیم میں تھی ا±سے بدتر حالت اب جدید دور میں ہوگئی ہے۔
ہر عہد میں ہر دور میں محکوم رہی ہے
ہر روپ میں ہر شکل میں مظلوم رہی ہے (سلطانہ مہر )
اگرچہ گزرتے وقت نے، بدلتے دور نے عورت کے ہاں ذہنی بیداری پیدا کی اور عورت کو دِکھایا کہ وہ کمزور نہیں ہے وہ مضبوط ہے اور ہر میدان میں فتح کے جھنڈے گاڑ سکتی ہے۔صنفِ نازک نے اپنے ہونے کا احساس ہر موڑ پر دلایا اور زمانے کو یہ احساس دلایا کہ اسے انسانی وجود سمجھا جائے، اس کی قدر کی جائے، احترام کیا جائے کیونکہ وہ اس سب کی حقدار ہے۔اگرچہ عورت نے احساس دلایا مگر مرد کی حاکمانہ ذہینت نے عورت کی کامیابی برداشت نہ کی اور عورت کو ہمیشہ ہی دبانے کی کوشش کی۔جہاں ایسے حاکمانہ ذہنیت کے مرد حضرات تھے وہیں پر چند فرشتہ صفت مرد حضرات بھی تھے ،جنہوں نے عورتوں کے خلاف ہونے والے تشدد کے خلاف آواز اٹھائی اور اِن لوگوں کے خلاف بھی آواز اٹھائی جو صنفِ نازک کو ہرطرح سے پست کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ایسے فرشتہ صفت لوگوں نے آواز اٹھائی کہ عورت کو گھر میں، سماج میں عزت دی جائے اور عورت کے تمام جائز حقوق دیے جائیں۔ عورت کی ترقی کے لئے دن رات ایک کیا۔انہوں نے عورت کی تضحیک،بے قدری، محرومی اور ظلم وستم کے خلاف آوازیں اٹھائیں۔ کسی بھی طبقے کی ،سماج کی ترقی کا دار مدار عورت کی خوشحالی پر ہے۔ہر سماج کی تعمیر و ترقی میں صنف نازک کا ایک اہم رول رہا ہے۔اگر معاشرے میں عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جائے، ا±س کی تذلیل کی جائے، ا±س کے جائز حقوق نہ دئے جائیں اور عورتوں کی عزتِ نفس کا خیال نہ رکھا جائے ا±سے پست کرنے کی کوشش کی جائے تو ذرا سوچیں ایسے معاشرے کی کیا حالت ہوگی؟ جہاں عزت نہ ملے، حق نہ ملے وہاں بغاوت تو جنم لیتی ہے، نفرت تو جنم لیتی ہی ہے۔جب عورت کی تمام قربانیوں کے باوجود معاشرہ اس کی تضحیک کرے گا،ا±س کے حقوق کی پامالی کرے گا ،اسے ہمیشہ کمتر سمجھ کر جانور سے بھی بدترین سلوک کرے گا تو ظاہر سی بات ہے کہ پھر ایسے معاشرے زوال کا شکار ہو جاتے ہیں، پستی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ایسے معاشرے میں مرد اور عورت ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں ۔، ہمیشہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کریں گے اور ایک دوسرے سے بےگانہ اور نفرت آمیز رویہ اختیار کریں گے، تو خود سوچیں ایسی حالات میں معاشرے کی کیا تعمیر و ترقی ہو گی؟ اور آنے والی نسل کا کیا ہوگا؟۔ جب تک کوئی معاشرہ عورت کی اہمیت اور عظمت کو نظرانداز کرتا رہے گا تب تک ایسے معاشرے کی ترقی ناممکن ہے۔
عورت کی عظمت اور اہمیت کو دنیا کے بڑے بڑے مفکروں، عالموں، دانشوروں اور تمام عظیم ہستیوں نے مانا ہے۔ عورت نہ توکبھی وفا میں پیچھے تھی نہ قربانی میں، نہ ہی ذہانت میں کبھی پیچھے تھی اور نہ ہی نفاست میں۔تاریخ گواہ ہے کہ عورتوں نے بہادری ہنرمندی اور اپنی ذہانت سے بڑے بڑے اور بہترین کارنامے انجام دیے ہیں۔آجکل اگر دیکھا جائے تو حوا کی بیٹی نے اپنی بہادری سے اپنے کارناموں سے، اپنی ذہانت سے اور اپنی ہ±نر مندی سے د±نیا کو حیرت میں ڈال کر رکھا ہے۔آج کی عورت نے اپنی محنت اور مسلسل کوشش سے یہ ثابت کردیا کہ ترقی میں جنس کا کوئی دخل نہیں اور زمانہ جتنا ا±سے کمزور اور ناقص العقل سمجھتا ہے وہ نہیں ہے۔آج کی عورت زندگی کی ہر میدان میں آگے آگے ہے۔ مانا کہ آج کی عورت نے اونچائیوں کو چھوا ہے۔اور اگرچہ وہ اونچی ا±ڑان کا ل±طف بھی ا±ٹھا چ±کی ہے اور زندگی کے ہر میدان میں آگے ہے مگر بہت سارے معمالات میں عورت آج بھی بے بس ہے، لاچار ہے۔بہت سارے عورتوں کو کِھلونا سمجھتے ہیں۔ان کو ہمیشہ د±کھ دینے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ان کی بربادی کا سوچتے رہتے ہیں۔چند ایسے بھی ناقص العقل اور بے ضمیر لوگ ہیں دنیا میں، جن کی نظر میں عورت کا وجود کوئی معنی نہیں رکھتا اور چند عورت کو پیر کی جوتی کہتے ہیں۔ایسے لوگوں کی منفی سوچ دیکھ کر دل کہتا ہے کہ انہیں کسی پاگل خانے میں داخل کروا دیا جائے، دراصل ایسے لوگ ذہنی طور بیمار ہوتے ہیں۔ اگرچہ عورتوں کی حفاظت کو لےکر بہت سارے اقدامات اٹھائے گئے ہیں ،بہت سارے قوانین بھی بنائے گئے ہیں مگر سب بے معنی نظر آتے ہیں۔ ظلم وستم کی ستائی ہوئی عورتوں نے اگر انصاف کے لئے عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا تو بے سود اور کروڑوں کی تعداد میں فائلیں کہیں درازوں میں پڑی انڈے دے رہی ہیں اور گرد کی تہہ فائلوں کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے مگر عورتوں کو انصاف نہ ملا۔
ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ہر ڈھائی دِن بعد کسی نہ کسی عورت کو اسمگل کیا جاتا ہے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ہر 15 منٹ میں ایک خاتون جنسی تشدر کا شکار ہوتی ہے۔ اور ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ہر 6منٹ کے اندر کوئی نہ کوئی خاتون ہراسانی ،بدسلوکی اور ظلم وتشدد کا شکار ہو رہی ہے ،اور ہر پانچ منٹ کسی عورت کو ا±س کے سسرال والے ،شوہر یا اہلِ خانہ تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ان رپورٹوں کو مدنظر رکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں عورتوں پر کس طرح سے ظلم وستم جاری ہے۔بات صرف ہندوستان کی ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہرکونے میں عورت تشدد کا شکار ہورہی ہے۔ گھروں میں ،دفتروں میں، راستے چلتے ہوئے غرض کہ کہیں بھی عورت محفوظ نہیں ہے۔ کہیں جلایا جارہا ہے ،کہیں ستایا جارہا ہے ،کہیں پیدا ہونے سے پہلے ہی مٹایا جارہا ہے اور بھی ایسے ایسے ظلم کی قلم لکھتے ہوئے کانپ جاتی ہے ،دل دہل جاتا ہے ،روح کانپ جاتی ہے۔ عورتوں کی حفاظت کے لئے جو بھی اقدامات اٹھائے گئے ہیں سب بے معنی سے نظر آتے ہیں۔بہت کم خوش قسمت عورتوں کو انصاف ملتا ہے مگر زیادہ تر عمر بھر انصاف کی بھیک مانگتی رہتیں ہیں۔ عورتوں کے حقوق کے لئے ہر سال نہ جانے کتنے پروگرام منعقد ہوتے ہیں۔بڑی بڑی تقریریں ہوتی ہیں مگر اثر صرف چند ہی لمعات کا ہوتا ہے اور پھر سے وہی سب جاری ہوجاتا ہے جو کہ صدیوں سے جاری ہے۔ 8مارچ کو عالمی یومِ خواتین منایا تو ہر سال جاتا ہے مگر جب بات عورت کے حقوق کی آتی ہے تو سارے نظرانداز کرجاتے ہیں روزبروز عورتوں کے خلاف ظلم وستم میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔جب تک ہم اپنی سوچ نہیں بدلیں گے تب تک حوا کی بیٹی یوں ہی کرب سے دوچار ہوتی رہے گی ،ظلم وستم کی چکی میں پِستی رہے گی،ایک پل جیتی اور ہزار پل مرتی رہے گی۔خدارا سب ایک ایسے معاشرے کی تشکیل دیں ،جس معاشرے میں عورتوں کے جائز حقوق کو نہ صرف سمجھا جائے بلکہ ان کے حقوق انہیں دیے بھی جائیں۔ عورت کے وجود کو بھی اِنسانی وجود سمجھا جائے نہ کہ جانوروں سے بھی بدتر سمجھ کر جانوروں جیسا سلوک کیا جائے۔ خدارا عورت کو ایک کِھلونا نہ سمجھا جائے۔اسکی قدر کی جائے، احترام کیا جائے ،اسے بھی انسان سمجھا جائے۔اس کی تذلیل نہ کی جائے، تضحیک نہ کی جائے، بار بار اسکی عزتِ نفس کو اور دل کو مجروح نہ کیا جائے۔گھروں میں ،سماج میں اور ہر جگہ عورتوں کی برابری کو تسلیم کیا جائے۔عورت کی اہمیت اور عظمت کو سمجھا جائے نہ کہ اسے قدم قدم پر دبایا جائے ،اور اسے ذہنی مریض بنایا جائے۔ میں جب بھی عورت کی بے بسی، لاچاری دیکھتی ہوں،س±نتی ہوں یا پڑھتی ہوں تو مجھے د±کھ تو بہت ہوتا ہے ساتھ میں کیفی اعظمی کی ایک نظم "اجنبی "کا یہ بند یاد آجاتا ہے۔
ہیں سبھی ح±سن پرست اہلِ نظر صاحبِ دل
کوئی گھر میں کوئی محفل میں سجائے گا تجھے
تو فقط جسم نہیں شعر بھی ہے گیت بھی ہے
کون اشکوں کی گھنی چھاو¿ں میں گائے گا تجھے
تجھ سے اک درد کا رشتہ بھی ہے بس پیار نہیں
اپنے آنچل پہ مجھے اشک بہالینے دے کیفی اعظمی
عورت تو پیار کا سمندر ہے ،محبت بھرا دل رکھتی ہے۔سارے رشتوں میں وفا کی مثال قائم کرنے والی عورت ظلم و ستم کی حقدار نہیں ہے بلکہ محبت ،عزت ،احترام کی حقدار ہے۔عورت کی عزت کی جائے، احترام کیا جائے،پیار دیا جائے اور اس سب میں کوئی بھی خودغرضی نہ ہو بلکہ ایثار و قربانی کا جزبہ ہو۔ماں ،بہن ،بیٹی ،بیوی کتنے مقدس، پیارے اور پاکیزہ رشتے ہیں، زندگی کے ہر موڑ پر اپنوں کے لئے قربان ہونے والی، جان نچھاور کرنے والی۔ گھر اور گھر سے باہر تمام عورتیں عزت ،احترام کی حقدار ہیں ،ایسا نہ ہوکہ اپنے گھروں کی عورتوں کی عزت تو کی جائے مگر گھر سے باہر عورتوں کی عزتوں کی دھجیاں اڑائی جائیں۔وہ بھی انسان ہیں کسی کی بیٹیاں، کسی کی بہنیں ہیں۔
اللہ کی صناعی کا شاہکار ہے عورت
تعظیم کی ،تکریم کی حقدار ہے عورت
جز اِس کے اسے اور نہیں چاہیے کچھ بھی
شفقت کی محبت کی طلب گار ہے عورت
ماں ،بیوی ،بہن جیسے کئی روپ ہیں اس کے
واللہ ہر اک رنگ میں میں غمخوار ہے عورت راز اعظمی