620

طالبان جنگ جیت چکے ہیں اس لیے ان سے بات کرنا ہو گی، یورپی یونین

یورپی یونین نے کہا ہے کہ طالبان جنگ جیت چکے ہیں اس لیے ان سے بات کرنا ہوگی لیکن یورپی یونین کے تعاون کے حصول کے لیے طالبان کو بنیادی انسانی حقوق کا احترام کرنا ہو گا۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا اجلاس منعقد ہوا جس کے بعد اعلامیہ جاری کیا گیا۔

یورپی یونین کے اعلیٰ نمائندے جوزف بوریل نے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ہم طالبان کو تسلیم کرنے جا رہے ہیں بلکہ ہم خواتین اور لڑکیوں کا تحفط یقینی بنانے کے لیے ان سے ہر مسئلے پر بات کریں گے کیونکہ اس کے لیے ہمیں ان سے بات کرنی پڑے گی۔

واضح رہے کہ افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی باضابطہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے طالبان نے کہا کہ وہ دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ پرامن تعلقات چاہتے ہیں اور اسلامی شرعی قوانین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے خواتین کے حقوق کا احترام کریں گے۔

یورپی یونین نے کے مطابق وہ افغانستان میں طالبان حکومت سے صرف اسی صورت میں تعاون کریں گے اگر وہ بنیادی حقوق کا احترام اور اپنی سرزمین دہشت گردوں کو استعمال نہیں کرنے دیں گے۔

یونین کے نمائندے نے مزید کہا کہ یورپی یونین کی ترجیح کابل سے اپنے عملے اور افغان مددگاروں کا انخلا ہے۔

ان کے مطابق اس وقت یورپی یونین کے لیے کام کرنے والے افراد کی اہلخانہ سمیت تعداد 400 کے لگ بھگ ہے۔

اسپین نے افغانستان سے آنے والے ان افراد کو ابتدائی طور پر اپنے پاس ٹھہرانے کی ذمے داری قبول کی ہے جس کے بعد انہیں ان یورپی ممالک میں بھیجا جائے گا جو انہیں پناہ دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

جوزف بوریل نے کہا کہ افغان عوام کے لیے امداد کا سلسلہ ناصرف جاری رکھا جائے گا بلکہ اس میں اضافہ بھی کیا جائے گا لیکن یہ امداد حکومت کو صرف شرائط پوری کرنے پر ہی دی جائیں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ مہاجرین کے ممکنہ بحران سے بچنے کے لیے جلد مذاکرات کا عمل شروع کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں کابل میں حکام سے رابطے میں رہنا ہو گا، طالبان نے جنگ جیت لی ہے لہٰذا ہمیں ان سے بات کرنا ہو گی۔

انہوں نے افغانستان پر طالبان کے قبضے کو اہم عالمی سیاسی پیشرفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے عالمی سیاست پر اثرات مرتب ہوں گے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ یورپی یونین کو پاکستان، چین، ترکی، ایران اور روس کے ساتھ زیادہ باریک بینی سے کام کرنا ہو گا۔

واضح رہے کہ کابل میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم کسی تنازع اور جنگ کو دہرانا نہیں چاہتے ہیں، اسی لیے امارت اسلامی کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے، تمام دشمنیاں ختم ہوچکی ہیں، ہم پرامن رہنا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک کے لوگ انتظار کر رہے ہیں، میں یقین دلانا چاہتا ہوں کہ مشاورت کے بعد بہت جلد مضبوط اسلامی حکومت قائم ہوگی۔

ترجمان نے مزید کہا کہ افغانستان خصوصاً کابل کی سیکیورٹی ہمارے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ وہاں سفارت خانے ہیں، جن علاقوں میں سفارت خانے ہیں وہاں مکمل سیکیورٹی ہوگی، پورے ملک میں سیاسی نمائندوں، سفارت خانوں، مشنز، بین الاقوامی اداروں اور امدادی اداروں کو یقین دلاتے ہیں کہ کسی کو آپ کی سیکیورٹی خطرے میں ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ امریکا سمیت عالمی برادری کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ افغانستان میں انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا، ہم اپنے ہمسائیوں، خطے کے ممالک کو بتانا چاہتے ہیں کہ کسی کو ہماری سرزمین دنیا کے کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں