144

پڑوسی ممالک نے امریکا کو فوجی اڈے دیے تو یہ تاریخی غلطی ہوگی: طالبان

طالبان نے افغانستان کے پڑوسی ممالک کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے امریکا کو فوجی اڈے چلانے کی اجازت نہ دیں اور اگر ایسا ہوا تو یہ ان کی تاریخی غلطی ہوگی۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکا، افغانستان سے اپنی فوج کے انخلا کے آخری مراحل میں ہے اور حالیہ دنوں میں امریکا اور پاکستان کے مابین سفارتی سطح پر ہونے والے رابطوں نے ان قیاس آرائی کو جنم دیا ہے کہ پینٹاگون طالبان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے نئے اڈوں کی تلاش میں ہے۔

پاکستانی ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ چوہدری نے پیر کو صحافیوں کو بتایا تھا کہ پاکستان میں کوئی امریکی فوج یا ہوائی اڈہ نہیں ہے اور نہ ہی ایسی کوئی تجویز زیر غور ہے، اس حوالے سے متعلق کوئی قیاس آرائیاں بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ ہیں اور ان سے پرہیز کیا جانا چاہیے۔

طالبان نے ایک بیان میں کہا کہ ہم ہمسایہ ممالک سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ کسی کو بھی ایسا کرنے کی اجازت نہ دیں، اگر دوبارہ ایسا قدم اٹھایا گیا تو یہ ایک بہت بڑی اور تاریخی غلطی ہو گی۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ وہ اس طرح کی گھناؤنی اور اشتعال انگیز حرکتوں کے بعد خاموش نہیں رہیں گے۔

افغانستان کے متعدد ہمسایہ ممالک نے طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد 2000 کی دہائی کے اوائل میں امریکی فوج کو فضائی اڈوں کے محدود استعمال کی اجازت دی تھی۔

اس طرح کی مدد بڑی حد تک ختم ہوگئی ہے تاہم کچھ ممالک اپنی فضائی حدود کو فوجی پروازوں کے لیے استعمال کرنے کی اب بھی اجازت دیتے ہیں۔

منگل کے روز حکومت پاکستان نے ایک بار پھر ایسی میڈیا رپورٹس کو مسترد کردیا تھا جن میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان نے امریکا کے ساتھ ایک نیا معاہدہ کیا ہے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سینیٹ کو بتایا کہ یہ خبریں بے بنیاد اور قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں ایوان میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ عمران خان کی سربراہی میں پاکستان اپنی سرزمین پر کبھی بھی کسی امریکی اڈے کی اجازت نہیں دے گا۔

پچھلے سال طالبان اور واشنگٹن کے درمیان ایک تاریخی معاہدہ ہوا جس نے افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کے انخلا کی راہ ہموار کی تھی۔

اس کے بدلے میں طالبان نے کہا کہ وہ افغانستان کو القاعدہ اور عسکریت پسند اسلامک اسٹیٹ گروپ جیسے جہادی گروہوں کا اڈہ نہیں بننے دیں گے۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ 11 ستمبر تک باقی تمام ڈھائی ہزار امریکی فوجی افغانستان سے چلے جائیں گے۔

لیکن امریکی انخلا سے یہ خدشات پیدا ہوگئے ہیں کہ کیا افغان حکومت اکیلے طالبان کا مقابلہ کرسکتی ہے۔

حالیہ ہفتوں میں پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور حکومتی فورسز اور طالبان میں روزانہ کی بنیاد پر تصادم ہو رہے ہیں اور جنگ کے خاتمے کے لیے امن مذاکرات التوا کا شکار ہونے کے بعد طالبان مزید علاقے قبضے میں لینے کے لیے اپنی مہم تیز کررہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں