مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے ایک گروپ نے جرمن دارالحکومت میں بین المذاہب مکالمے کی علامت کے طور پر ایک عمارت کا سنگ بنیاد رکھا ہے جس میں تینوں مذاہب کے افراد عبادت کر سکیں گے۔
خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق اس منصوبے کے بانی غزہ میں اسرائیل کے حملوں پر برلن میں ہونے والے مظاہروں اور ایک ایسے وقت میں جب سیاستدان جرمنی میں یہودی مخالف جذبات کے فروغ کا انتباہ دے رہے ہیں، اس طرح کا اقدام مذاکرات کے لیے امید کی کرن ہے۔
برلن کے میئر مائیکل مولر نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ اہم ہے کہ جرمنی کے دارالحکومت میں ڈرامائی عالمی تنازعات پر بات کی جا سکے اور لوگوں کے پاس اپنے ممالک میں موجود مسائل کو اجاگر اور اپنی رائے کا اظہار کرنے کا ایک پلیٹ فارم موجود ہو گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ نفرت اور تشدد، یہود دشمنی اور اسلامو فوبیا، نسل پرستی اور اشتعال انگیزی کی ہمارے معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
ایک بلند چکور ٹاور کی حامل اس عمارت میں عبادات کے لیے الگ کمرے اور ملاقات کے لیے مشترکہ جگہ شامل ہو گی۔
جرمنی میں یہودیوں اور مسلمانوں کی مرکزی کونسل کے سربراہوں نے اس منصوبے اور مذہبی تبادلے کا خیرمقدم کیا ہے۔
10 سال کی منصوبہ بندی کے بعد شروع ہونے والے تعمیراتی کام کو مکمل ہونے میں چار سال لگیں گے اور اس کی لاگت 4کروڑ 73 لاکھ یوروز لاگت آئے گی، جرمنی کی حکومت کروڑ یورو دے گی، برلن ایک کروڑ 21 لاکھ یورو عطیہ کرے گا جبکہ بقیہ رقم دیگر ممالک سے آنے والے عطیات سمیت دیگر ذرائع سے جمع کی جائے گی۔
یہ مرکز 13ویں صدی کے چرچ کی جگہ پر تعمیر کیا جائے گا جسے 1960 کی دہائی میں کمیونسٹ مشرقی جرمنی کی حکومت نے تباہ کردیا تھا۔
جرمنی میں پروٹسٹنٹ چرچ کے سربراہ ہینرک بیڈفورڈ اسٹروہم نے آر این ڈی میڈیا کو بتایا کہ ‘ہاؤس آف ون’ پروجیکٹ اس وقت ایک اہم پیغام دیتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہودی مخالف جذبات اور اسلامو فوبیا میں اضافہ ہورہا ہے جو لوگوں کو غلط سمت پر لے جاتے ہیں، وہ نفرت کو ہوا دیتے ہیں اور ممکنہ طور پر تشدد کا باعث بنتے ہیں۔