طالبان افغانستان کے دارالحکومت کابل کے مضافات میں داخل ہوگئے جس کے بعد سرکاری ملازمین افراتفری میں حکومتی دفاتر سے فرار ہونے لگے جبکہ امریکی سفارتخانے میں ہیلی کاپٹرز بھی پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔
غیر ملکی خبررساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق ایک عہدیدار نے بتایا کہ طالبان تمام اطراف سے داخل ہورہے ہیں البتہ انہوں نے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
عسکریت پسندوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ دارالحکومت کابل پر بزور طاقت قبضہ نہیں کریں گے۔
ایک آن لائن بیان میں طالبان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے جنگجوؤں کو کابل کے دروازے پار کر کے طاقت کے ذریعے شہر کا کنٹرول نہ حاصل کرنے کی ہدایت کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘کابل کے شہریوں کی زندگی، املاک، عزت پر سمجھوتہ کیے بغیر اقتدار کی محفوظ منتقلی کا عمل یقینی بنانے کے لیے مذاکرات جاری ہیں’۔
افغان صدارتی محل کی ایک ٹوئٹ میں بتایا گیا کہ کابل کے اطراف میں متعدد مقامات پر فائرنگ کی آوازیں سنی گئیں لیکن سیکیورٹی فورسز بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ شہر کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں۔
اس سے قبل طالبان نے مزاحمت اور لڑائی کے بغیر افغانستان کےشہر جلال آباد پر قبضہ کرلیا تھا جس کے بعد افغان حکومت کا کنٹرول دارالحکومت کابل تک ہی محدود ہوگیا تھا۔
خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق جلال آباد کے سقوط نے طالبان کو اس سڑک کا کنٹرول بھی دے دیا جو پاکستان کے شہر پشاور کو افغانستان سے ملاتی ہے اور ملک کی اہم ترین شاہراہوں میں سے ایک ہے۔
اس سے قبل طالبان نے ملک کے چوتھے بڑے شہر مزار شریف پر بھی قبضہ کرلیا تھا جس کا دفاع 2 سابق وار لارڈز نے کرنے کا وعدہ کیا تھا، یوں طالبان کو افغانستان کے پورے شمالی حصے پر قبضہ حاصل ہوگیا۔
جلال آباد میں ایک افغان عہدیدار نے بتایا کہ شہر میں کوئی لڑائی نہیں ہورہی کیوں کہ گورنر نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور انہیں راستہ دینا شہریوں کی زندگی بچانے کا واحد راستہ تھا۔
ایک دوسرے سیکیورٹی عہدیدار نے کہا کہ طالبان نے حکومتی عہدیداران اور سیکیورٹی فورسز کو جلال آباد سے نکلنے کی صورت میں محفوظ راستہ دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
دوسری جانب ہفتہ کو طالبان جنگجو مزار شریف میں بھی مزاحمت کے بغیر داخل ہوگئے کیوں کہ سیکیورٹی فورسز شاہراہ سے پڑوسی ملک ازبکستان کی جانب بھاگ گئیں۔
ایسے میں حکام نے شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ افغان صدر کے 2 اتحادی وار لارڈز عطا محمد نور اور عبدالرشید دوستم ازبکستان فرار ہوگئے۔
اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی غیر مصدقہ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ افغان فوج کی گاڑیاں اور یونیفارم میں ملبوس آدمی افغان قصبے حیرتان اور ازبکستان کے درمیان لوہے کے پل پر جمع ہورہے ہیں۔
دوسری جانب عسکریت پسندوں نے اتوار کی صبح تصاویر اور ویڈیوز پوسٹ کیں جن میں انہیں صوبہ ننگر ہار کے دارالحکومت جلال آباد میں گورنر کے دفتر میں دیکھا جاسکتا ہے۔
ادھر کابل میں امریکی سفارت خانے کے عملے کو حکم دیا جاچکا ہے کہ وہ حساس مواد کو جلانا شروع کردیں جبکہ برطانیہ، جرمنی، ڈنمارک اور اسپین سمیت یورپی ممالک اپنے متعلقہ سفارت خانوں سے اہلکاروں کو واپس بلانے کا اعلان کر چکے ہیں۔
کابل کے باشندوں کے ساتھ ساتھ دارالحکومت میں پناہ لینے والے ہزاروں افراد بھی خوف اور عدم تحفظ کے احساس کا شکار ہیں۔