602

کشمیری عورت کی ترقی, مگر نسوانی لحاظ کو مدِ نظر رکھ کر۔۔۔!

ڈاکٹر محی الدین زور کشمیری

One is not born a woman, one becomes one, (Simone De Beauvoir … The second sex)

یہ مئی 2015 کی بات ہے۔ کلکتہ میں میرے ایک دوست تھے، مرحوم ڈاکٹر ایس ایم اظہر عالم صاحب، جوکہ وہاں مولانا آزاد کالج میں پڑھاتے تھے اور ساتھ ہی اردو تھیٹر کی دنیا میں انہوں نے ایک اہم نام بھی کما لیا، مگر بدقسمتی سے اپریل 2021 میں کووڈ کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوئی۔ ان کی شریک حیات اوما جُھن جُھن والا بھی تھیٹر سے وابستہ ہیں، اور ایک اسکولی ٹیچر بھی ہیں۔ خیر ہم بات کر ہے تھے، انہوں نے ہمیں وہاں ایک تھیٹر فیسٹول کے سلسلے میں بلالیا، میرے ساتھ ڈاکٹر الطاف انجم بھی تھے۔ تھیٹر اور سمینار کی باتیں الگ ہیں اور آج ہم یہاں کچھ گھریلو زندگی کی بات کریں گے۔ ایک روز ہم رات کے دس بجے کے قریب ایک پروگرام میں شرکت کرنے کے لئے جارہے تھے ، ہم چار لوگ ان کی گاڑی میں سوار تھے اور اسی اثناءمیں اظہر بھائی کی والدہ کا فون آیا۔ یعنی ساس نے اپنی بہو کو فون کیا کہ بیٹا آپ لوگ کب گھر آرہے ہیں اور آج کھانے میں کیا بناو¿ں، تو بہو نے جواب دے دیا کہ اماں کوئی ضرورت نہیں میں کھانا بھجواو¿ں گی۔ فون کٹنے کے بعد ہماری بھابی نے ریسٹورنٹ والے کو فون کیا کہ فلاں نمبر کے فلیٹ پر جاو¿ اور وہاں یہ یہ چیز لے لو۔ تو کوئی پندرہ منٹ کے بعد ساسو ماں نے دوبارہ فون کرکے بتایا کہ بیٹا آپ نے آج کچھ زیادہ ہی بھجوایا ہے، اتنا بڑا چکن ۔۔۔ وغیرہ کون کھائے گا۔
”اچھا ماں جتنا آپ اور بچے کھا سکیں گے کھاو¿ اور باقی فریج میں رکھو اور بچوں کو سلاو¿ ہمیں آج کچھ دیر ہو جائے گی۔©
یہ ایک ایسا واقعہ ہے، جس کو ہم کئی نظروں سے دیکھ سکتے ہیں۔ منفی سوچ ہمارے سامنے نہیں پھٹک سکتی ہے۔ البتہ مثبت سوچ کے کئی دریچے واضح ہیں۔ سب سے پہلے ایک عورت تعلیم یافتہ ہو تو وہ مرد کی برابری کر سکتی ہے۔ آج کل کے دور میں اس کے شانہ بشانہ چل سکتی ہے اور اپنے مرد کے ساتھ چلنا اس کا فرض بھی ہے اور آج کل کے مہنگے دور میں ضرورت بھی ہے۔ باقی گھر گرہستی اور گھریلو کام کاج وغیرہ اگر میاں بیوی میں ذہنی ہم آہنگی ہے، تو وہ کسی بھی صورت میں چل سکتا ہے۔ اس کو proper طریقے سے manage کیا جا سکتا ہے۔ اتنا ہی نہیں اس سے دوسروں کے لئے بھی روزگار کے نئے نئے مواقعے پیدا ہو سکتے ہیں۔ لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ جو لوگ ایسا کرکے اپنی زندگی کو خوشحال بناتے ہیں۔ وہ دوسروں کو ایسی جدید طرز کی زندگی گزارنے کا فارمولہ نہیں بتاتے ہیں، بلکہ ُالٹا قوم کو بہکانے کے لئے پروپیگنڈا ہی کرتے ہیں۔ کشمیر کے ایسے ایک بہت بڑے صاحب ہیں اور بغیر پڑھے لکھے اور جانے پہچانے یا پھر کسی مشاہدے کے۔۔۔انہیں ہر کسی بڑی علمی و ادبی محفل میں مہمانِ خصوصی کے طور پر بلایا جاتا ہے۔۔۔ وہ کرسی پر براجمان ہوتے ہیں اور پھر ہر جگہ ایک ہی بھاشن دیتے رہتے ہیں۔ اپنی بھاشن میں وہ اس بے حس کشمیری قوم کو کیا کیا گمراہ کن باتیں کہتے ہیں۔ آج کل لوگ مادیت پرست ہو گئے ہیں، عورتوں کی کمائی ہوئی رزق کھاتے ہیں ان کے گھر میں بھال بچوں کا کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہوتا ہے۔ عورت گھر چھوڑ کر کام پر جاتی ہے اور ان کے گھر میں بچے بلک رہے ہیں۔ سسرساس۔گھر کی صفائی وغیرہ کون ان چیزوں کا خیال رکھے گا۔ لعنت ہو اس کمائی پر۔ اسلام۔۔۔ یورپ میں لوگ اب تنگ آچکے ہیں۔۔۔ وہ پچتا رہے ہیں۔۔۔ وغیر وغیرہ۔
جبکہ یہ ساری باتیں کہنے والے کے گھر کا حال یہ ہے کہ چونکہ وہ دونوں میاں بیوی خود بڑے بڑے سرکاری پدوں سے ریٹائر ہو چکے ہیں اور بڑے بڑے سیاست کاروں کے تلوے چاٹ کر انہیں بہت بڑا عہدہ دے دیا گیا اور پھر اپنی بیوی کو بھی انہوں نے ایک جگہ سے دوسری جگہ extention دلوادیا اور اس طرح دونوں اپنے پوتا پوتی کو چھوڑ کرسرکاری دولت کو چار چار ہاتھوں لوٹتے ہیں اور کشمیریوں کے ذہن میں فرسودہ باتیں بھر کر گمراہ کرتے رہتے ہیں۔
کشمیر میں ایسا بھاشن دینے والے آپ کو ہر گلی، ہر نکڈ اور ہر چوراہے پر ضرور ملیں گے۔ ہر سماجی محفل، تعزیت ہو یا خوشی کا دن، جہاں بھی لوگ جمع ہو جاتے ہیں، کوئی شخص اٹھ کر ہمیں نئے دور کی نئی باتیں نہیں سمجھا تا ہے، بلکہ یہاں ہر ایک باتونی شخص، مقرر خطیب، مولوی، سیاست کار، مسجد کے متولی، ٹوپی والے، مونچھ والے، داڑھی والے، منہ چبا چبا کر بات کرنے والے، ناک سے ہی دوسروں کی باتوں کا جواب دینے والے کے پاس دماغ میں نہ جانے کس وبا نے وہی پرانا فرسودہ کیسٹ بھر کے رکھا ہے۔ اور بس آپ کی دیری ہے، آپ نے مضراب سے انہیں چھیڑنے کی کوئی معمولی سی کوشش کی۔ انہیں آگے بٹھا لیا، انہیں کسی بھی محفل میں بولنے کا موقع دے دیا، تو وہ لوگ اپنی برسوں پرانی راگ الاپنا شروع کردیتے ہیں اور پھر بند ہونے کا وہ لوگ نام ہی نہیں لے لیتے ہیں۔ اور یہ چیز اب ہمارے کلچر کا حصہ بھی بن گیا ہے۔ لوگ اس کو ختم کرنا معیوب ہی نہیں بلکہ غیر مذہبی چیز اڈاپٹ کر لینے کے مترادف بھی سمجھتے ہیں۔
بدقسمتی قوم کی یہ ہے کہ برسوں سے مولوی لوگ اس علم کو سب سے زیادہ آگے لے جاتے ہیں۔ یہ بیسوی صدی کی آٹھویں دہائی کی بات ہے کہ ہمارے ایک ملا صاحب مرحوم نے جمعہ کے دن اپنے خطبے میں فرمایا کہ لڑکیوں کا تعلیم پڑھنا جائز نہیں ہے۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ ہمارا سماج تعلیم اور ترقی کے معاملے میں آج بھی کچھ زیادہ نہیں بدل گیا ہے کیونکہ ہمارے ذہنوں پر ابھی بھی اُن مذہب اور سماج کے ٹھیکہ داروں کا راج ہے، جو خود تو کب سے بدل چکے ہیں مگر اپنی قوم کو بدلتا ہوا وہ دیکھنا نہیں چاہتے ہیں اور جہاں ان کی چلتی ہے وہاں وہ کسی بھی صورت میں لوگوں کو بدلنے نہیں دے دیتے ہیں۔ انہیں پیچھے ہی گہری کھائی میں دھکیل دیتے ہیں۔ تو ہم یہاں بات کر رہے ہیں اس باریش بادستار مولوی صاحب کی جنہوں نے اعلان کیا ہے کہ لڑکی کوپڑھانا (ان کے مطابق) گناہ کبیر ہے۔ اب اگر آپ پر تعلیم نسواں کا بھوت سوار ہو چکا ہے کیونکہ یہاں کی دوسری کمیونٹیوں کا بھی اثر آپ لوگوں کو دھیرے دھیرے ہونے لگا ہے۔ اس کے علاوہ ریڈیو۔ ٹی وی، سنیما نے تم لوگوں کو برباد کر دیا ہے۔ اس لئے میٹرک کے بعد لڑکیوں کی تعلیم بالکل نہیں۔!
دن بیتے گئے۔ مولوی موصوف کی بیٹی نے میٹرک پاس کیا، وہ بھی سپرانٹنڈنٹ جب ماموں، چاچوتھا۔ اس زمانے میں تحصیل میں ایک ہائر اسکنڈری ہوا کرتی تھی، جس کو کبھی کالج بھی کہتے تھے۔ یکدم مولوی صاحب نے اپنی دختر نیک اخترکا ہائر سیکنڈری میں داخلہ کروادیا۔ پورے علاقے میں ایک ہی مسلم لڑکی 55 سیٹوں والی گاڑی میں سوار ہوکر ہائر اسکنڈری پڑھنے کے لئے جاتی تھی۔ تو ایک روز کسی نے پوچھا بھائی یہ مسلمان لڑکی کن کی ہے جو ان پنڈت لڑکیوں کے ساتھ کالج جاتی ہے۔
گاڑی میں سوار گنجے کنڈیکٹر نے کہا یہ تو مولوی صاحب کی بیٹی ہے۔ اس طرح بس میں ہی چہ مے گوئیاں ہونے لگی۔ پھر جب مولوی صاحب کو ان کے اس بیان اور ان کی بیٹی کی پڑھائی کے معاملے میں پوچھا گیا تو مولوی صاحب نے اُلٹا انہیں مورد الزام ٹھہراکر کہا کہ تم لوگوں کے کان یا تو بہرے ہیں یا پھر تم کبھی بھی اسلام کو نہیں سمجھو گے اور نہ کبھی سدھر جاو¿ گے، کیونکہ میں نے علی الاعلان کہا تھا کہ ایک لڑکی کا بے پردہ غیر مسلم لڑکیوں کی طرح باہر نکل کر کسی اسکول یا پھر کالج میں تعلیم حاصل کرلینا جائز نہیں ہے۔ میری شہزادی تو برقعہ پہن کر کالج جاتی ہے ۔ اب اس میں بُرا کیا ہے۔ یعنی مولوی صاحب نے چانکیہ کے فلسفے کی طرح اتنا جھوٹ بولا کہ دوسروں کو وہی سچ معلوم ہونے لگا۔!
اب سوال یہ ہے کہ ان سماجی ناسور وںسے کیسے چھٹکارا پایا جائے، کیونکہ ہم بغاوت کے حق میں کبھی بھی نہیں رہے۔ دوسروں کو خاص کر غلط انسانوں کو منہ لگنے کے حق میں بھی نہیںہیں۔ تو پھر ہمارے پاس ایسا کون سا ہتھیار ہے جس کو یہ ظلم مٹانے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جواب مختصر یہ ہے (۱) علم ( 2) عقل۔ بد قسمتی یہ ہے ان دونوں چیزوں کا آج کے دور میں صحیح استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔!
میرے دو شاگرد (اسکالرس) ایک روز کہیں جا رہے تھے۔ میں نے انہیں پوچھا کہا جا رہے ہو ، وہ chapter مکمل کر لیا اور وہاں سے وہ کتاب منگوائی۔۔۔ انہوں نے جواب دیا ، سر اس وقت ہم وعظ سننے کے لئے جا رہے ہیں۔ میں نے انہیں طنزاً پوچھا کہ کیا وہاں گاو¿ں میں ہارون یحی ٰ آئے ہیں یا پھر نوام چامسکی ویڈیو کانفرنس کے ذریعے قوم سے خطاب فرمائیں گے۔!
اب آپ سوچئے اگر ہماری قوم کے پروفیسر کلاس، کتب خانے چھوڑ کر، ہمارے ڈاکٹرس اسپتال چھوڑ کر اور ریسرچ اسکالرس یونیورسٹی اور ذاتی مطالعہ کے کمرے یا تجربہ گاہ چھوڑ کر نہ جانے کن کن جماعتوں کے پیچھے پیچھے بھاگیں گے اور وہاں محولہ بالا مولویوں کا وعظ سنیں گے، تو قوم کی حالت کیسے سدھر جائے گی اور عورت ذات تو عورت ذات ہی ہے، جسے ہم نے کب گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھنے دے دیا ہے۔!
اس لئے بہتر ہے، سب سے پہلے مرد اپنی سوچ کو بدلیں۔ اس میں ہمارے مولویوں، واعظوں، مقرریوں، استادوں، سوشل ورکروں و دیگر کئی لوگوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایک عورت کی بہبودی کے لئے عملی طور پر میدان میں آجائیں ۔ اسے مرد کے برابر بنانے، اس کے حقوق کی رکھوالی کرنے کے لئے میدان عمل میں آکر جدوجہد کریں، تب جاکرایک عورت اس کے لئے جنت بن سکتی ہے۔ ورنہ عورت کے ساتھ ساتھ یہ اپنی زندگی خود کے لئے بھی جہنم بناتا ہے۔
اس ضمن میں ایک عورت کے بھی بہت سارے فرائض بنتے ہیں جنہیں ہر ایک عورت کو کبھی نہیں بولنا چاہئے۔ جیسا کہ میں اس سے پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں کہ عورت کی تباہی کا ذمہ دار زیادہ تر ایک عورت ہی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ مرد کے شانہ بشانہ چلنے کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ زندگی کے کسی خاص موڑ پر مرد کو دھکا دیکر اسے گرا کر اس کے حقوق پر شب خون مار کر خود آگے بڑھنا چاہئے۔ چاہے میری عزت بھی تار تار ہوجائے، عورت آگے بڑھ سکتی ہے، مگر پہلے اپنی نسوانیت کا دامن کَس کر رکھ لیجئے اسے کسی بھی قیمت پر داغ دار نہ ہونے دیجئے!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں