معاشرہ کی اصلاح میں عورتوں کا کردار

محمد شفیق عالم مصباحی
اسلامک اسکالر ،البرکات ،علی گڑھ ۔۔

یوں تو اللہ نے اس خاک گیتی پر کم و بیش ایک لاکھ 24 ہزار یا دو لاکھ 24 ہزار انبیائے کرام علیہم السّلام اور رسلان عظام کو مبعوث فرمایا اور ہر ایک کو ان کی قوم کی طرف مبعوث فرمایا جن میں وہ دعوت تبلیغ کے کام بحسن و خوبی انجام دیتے رہے لیکن کہیں بھی اللہ نے کسی قوم کو بہترین امت کا خطاب نہیں عطا فرمایا بلکہ ان میں سے کسی قوم کا ذکر قرآن میں یا تو عذاب و سزا کے ساتھ ہے یا غداری اور بے ایمانی کے ساتھ ہے لیکن ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ ہمیں جو نبی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ملے وہ سب رسولوں اور نبیوں میں اعلیٰ اور اسی رسول اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ہمیں بہترین امت کا خطاب عطا فرمایا، ارشاد باری تعالی: *”(اے مسلمانو!) تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی ہدایت ) کے لیے ظاہر کی گئی، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر: 110)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ امت کا ہر فرد داعی ہے خواہ وہ مرد ہوں یا عورت، بچے ہوں یا بوڑھے،ہر کوئی اس عظمت و شرف کا مستحق ہے اور چونکہ شریعت اسلامیہ نے مرد و عورت دونوں پر یکساں حقوق اور فرائض عائد کیے ہیں اور دونوں ہی اپنے فرائض کو پورا کرنے کے لیے یکساں مکلف اور ذمہ دار ہیں، لہذا وہ دعوت و تبلیغ کا کام ہو یا حقوق و فرائض سے آشنائی کی بات ہو اس کے لیے علم کا حاصل کرنا، علم کا ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ جب تک امت مسلمہ علم حاصل نہیں کرے گی خیر و شر اور بھلائی و برائی کو نہیں جانے گی، تو ان کے درمیان تمیز پیدا نہیں کر سکتی، کبھی ایسا ہوگا کہ وہ شر میں پڑ جائے گی اورانہیں احساس بھی نہیں ہوگا،اسی طرح بغیر علم کے اپنے حقوق و فرائض سے آشنا بھی نہیں ہوں گی۔
علم روشنی ہے جو تاریکی کو دور کر دیتا ہے، جس کی اہمیت اسلام میں بہت زیادہ ہے، جس کی اہمیت وفضیلت ہی کو بتانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نزول قرآن کے اعتبار سے پہلی سورت کی پہلی آیت ’اقرأ‘ نازل فرمائی اور یہی وجہ ہے کہ دین اسلام نے حصول علم کو مرد و عورت دونوں کے لیے یکساں لازم قرار دیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔: کہ ’’ہر مسلمان (مرد و عورت) پر علم حاصل کرنا فرض ہے‘‘ (ابن ماجہ ،طبرانی، بیہقی ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث میں بھی کوئی تخصیص نہیں کہ صرف مرد ہی تعلیم حاصل کریں بلکہ یہ عورت پر بھی ضروری ہے۔
قارئین ! اگر آپ یہ سمجھ چکے ہیں تو بتائیے جو تعلیم نسواں کی مخالفت کرتے ہیں ان کا کیا جواب ہوگا، یقینا یہ ایک احمقانہ بات ہے۔
اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ عورتوں کا معاشرے کی اصلاح میں کیا کردار رہا ہے، دور رسالت میں حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے جس طرح مردوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام فرمایا، اسی طریقے سے عورتوں کی تعلیم و تربیت کا بھی اہتمام فرمایا، جہاں دعوت و تبلیغ کا کام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے انجام دیا، وہیں صحابیات رضوان اللہ علیہن نے بھی دعوت و تبلیغ کے کام میں اپنا حصہ نہیں چھوڑا۔ ایک کثیر تعداد ہے، خواتین محدثین، مفسرین، معلمین اور مبلغین کی، جنہوں نے ایک خوبصورت اسلامی معاشرے کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کیا ہیں۔اسلام کی تعلیمات کو عام کرنے میں پیش پیش رہی ہیں،دعوتی، تعلیمی، تصنیفی، و تبلیغی مشن کو آگے بڑھایا ہے۔
جیسے جیسے ضرورت بڑھتی گئ دنیا و اہل دنیا بھی خود کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے رہے، اسی طرح مسلمانوں کو بھی وقت کے تقاضوں کے ساتھ چلنا چاہیے تھا اگر پہلے نہیں چلے تو اب مسلمان بچوں اور بچیوں کو اپڈیٹ ہو جانا چاہیے،انہیں بھی پوری طرح سے دین اور دنیا کی تعلیم میں حصہ لینا چاہیے اور ہر وہ تعلیم جو روز مرہ کی زندگی بسر کرنے کے لیے اور معاشرے کی بہتری کے لیے ضروری ہو اسے ضرور حاصل کرنا چاہیے خواہ مرد ہوں یا عورت۔۔۔
سچ کہوں تومعاشرے اور سماج کی تشکیل و ارتقا میں مردوں کے علاوہ عورتیں بھی نمایاں کردار ادا کر سکتی ہیں،کیونکہ ایک عورت کبھی نہ کبھی ماں بنتی ہے اور اس کے اوپر بچوں کی تعلیم و تربیت اور پرورش کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور اگر وہ پڑھی لکھی ہوگی تو یقینا وہ اپنے گھر کے ماحول کو بہتر بنا سکے گی اور اپنے بچوں کی پرورش بحسن و خوبی انجام دے گی کیونکہ اولاد کے لیے پہلی استاد ماں ہی ہوتی ہے اور دوسرے نمبر پر باپ ہوتا ہے، اولاد زیادہ تر انھیں دونوں کو دیکھ کر سیکھتی ہے، اس لیے اگر ماں باپ پڑھے لکھے ہوں گے اور گھر کا ماحول بہتر ہوگا تو بچوں پر ان کی تعلیم و تربیت کا بھی اثر ہوگا۔ اس طرح وہ خاتون اپنے حلقے میں دعوت و تبلیغ کا کام احسن انداز میں میں کر سکتی ہے۔
کتنی عجیب بات ہے! ہے نا؟ کہ آج لوگ اپنے لڑکے کے لیے پڑھی لکھی لڑکی تلاش کرتے ہیں لیکن وہ اپنی لڑکی کو پڑھی، لکھی نہیں بناتے، آج وہ لوگ بھی اپنی بہو تعلیم یافتہ ڈھونڈتے ہیں جو ہمیشہ تعلیم نسواں کے خلاف رہے۔
بات در اصل یہی ہے کہ پڑھی لکھی بیوی / بہو ہر ایک کو چاہیے لیکن اس کا انتظام کوئی نہیں کرتا۔۔
کاش مسلم بیٹیاں علم حاصل کرتیں اور اعلٰیٰ دینی و دنیاوی تعلیم سے مزین ہوتیں تو معاشرہ جنت کا گہوارہ بن جاتا، دائرہ شریعت میں رکھ کر مسلم خواتین کی تعلیم پر زور دیا جاتا تو ہماری ماؤں اور بہنوں کو وہ پریشانیاں درپیش نہ ہوتیں جو آج ہو رہی ہیں کہ انھیں علاج معالجے کے لیے مرد ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا ہے جہاں ان کو حیا اور پردے کی وجہ سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اگر مسلم بیٹیاں بھی علم طب اور میڈیکل کی تعلیم حاصل کرتی تو مسلم خواتین کا پردے میں رہ کر علاج و معالجہ کرتیں …
حاصل یہ کہ ہمیں خواتین اسلام کی تعلیم و تربیت پر غور کرنا چاہیے اور ان کی تعلیم و تربیت کا بہترین انتظام کرنا چاہیے تاکہ وہ ہر آنے والی گھڑی کو بہتر بنا سکیں اور معاشرے کی اصلاح اور ساتھ ساتھ معاشرے کی ضرورتوں کو پورا کر سکیں۔
_ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں