شمائلہ مومناتی بنت شوکت علی
گنج مرادآباد، اناؤ
مسلم خواتین اور حجاب ایک ایسا موضوع ہے جس کی ضرورت دور حاضر میں شدید سے اشد ہوتی جا رہی ہے۔ البتہ جب ہم اپنے گردوپیش کا طائرانہ جائزہ لیتے ہیں تو گزرتے وقت کے ساتھ اس کا فقدان ہوتا جا رہا ہے الا ماشاء اللہ گنتی کی خواتین کے۔
حجاب کے تعلق سے قرآن یوں گویا ہوتا ہے:۔
ترجمہ : اے نبی! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتیں سے کہہ دو کہ وه اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں(1) اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہو جایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی(2) اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے. (سورۃ الاحزاب:۵۹)
اس آیت میں نبی پاک جناب محمد الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب فرماکر رب ذوالجلال نے ازواج مطہرات ، بنات طاہرات ، اور تمام مؤمن عورتوں کو پردہ کا حکم فرمایا ہے۔
ہٹنے نہ دینا پردے کو اے پردہ نشیں
تیری ذرا سی غلطی قیامت ڈھا سکتی ہے
پردہ علامت ہے عورت کے وقار کا، حیاء کا ، پاکبازی کا ، نسوانیت کا اور اعلیٰ اخلاق و کردار کا۔ اس کو کسی قسم کی ’’قید‘‘ سے منسوب کرنا بالکل غلط ہے۔ دین اسلام عورت کی عزت و آبرو کا تحفظ چاہتا ہے ۔
پھولوں میں گلاب اچھا لگتا ہے
اسلام کی شہزادی پر حجاب اچھا لگتا ہے
اے بنات حوا! حجاب آپ کی شناخت چھپاتا نہیں بلکہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ باعزت خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک مسلمان خاتون ہیں۔
اگر ہم تاریخ اسلامی کا بنظر غائر جائزہ لیتے ہیں چاہے وہ ماضی قریب ہو یا پھر ماضی بعید، تمام خواتین باپردہ ملیں گی۔ چاہے وہ ازواج مطہرات ہوں ، بناتے طاہرات ہوں ، صحابیات ہوں، یا پھر تابعیات۔ سبھی پردہ سے معمور رہیں اور ان کے عظیم الشان کارناموں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ ان کو ہر میدان میں سرخروئی حاصل ہوئی ہے۔ چاہے وہ میدان جنگ ہو ، گھڑ سواری ہو ، علمی میدان ہو یا عملی ، طبی میدان ہو یا گھریلو زندگی ، تعلیمی زندگی ہو یا درس و تدریس۔ الغرض کوئی بھی میدان ہو ان کا حجاب کسی بھی میدان میں ان کے لئے رکاوٹ نہیں بنا، مگر آج ہماری زندگیاں عمل سے خالی ہیں، ہماری سوچ کا پیمانہ بہت تنگ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم عمل کی لائن سے کھڑے نہیں ہو پاتے ، اسی لئے پستی ہمارا مقدر ہو کر رہ گئی۔
کیسے ہوگی اب اس فرض کی پاسداری
عمل سے دور ہو گئی بنت حوا بے چاری
تقدس ہوا پامال بے حجابی کے دور میں
روک اسے نہ پائے چار دیواری
بہنو! بنت حوا کی بلندیوں کا راز حجاب میں ہی مضمر ہے اور ہم اسی کو اپنی زندگی کی افتاد و پرواز میں رکاوٹ سمجھتے ہیں اور مغربیت کی طرف بھاگے چلے جا رہے ہیں۔ ہمارے محدود ذہن مغربیت کے شکنجے میں جکڑے جا چکے ہیں۔
لہذا اب ضرورت بلکہ اشد ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس محدود سوچ اور مغربیت کے شکنجے سے خود کو نکالیں اور ماضی کے اوراق کو پلٹیں، صحابیات کی زندگی کو اپنا آئیڈیل بنائیں۔ پھر دیکھیں کس طرح منزل ہماری قدم بوسی کرتی ہے۔ ان شاءاللہ العزیز
چشم باطل سے لڑ گیا پردہ
خار حق بن کے گڑ گیا پردہ
کیا وہ پردے کی اہمیت سمجھیں
جن کی عقلوں پہ پڑ گیا پردہ
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عورت کا پردہ کرنا شہید کے خون سے افضل ہے۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ یمن کی ایک لڑکی جس نے نوبل پرائز جیتا صحافی نے اس عظیم لڑکی سے سوال کیا آپ حجاب کیوں پہنتی ہیں ؟ جب کہ آپ باشعور بھی ہو اور اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی ہے۔
اس لڑ کی نے نہایت خوبصورتی سے جواب دے کر صحافی کو شرمندہ کر دیا۔
لڑکی نے جواب دیا آغازکائنات میں انسان برہنہ تھا جب شعور ملا تو اس نے لباس زیب تن کرنا شروع کر دیا۔
عزیز بہنو! حجاب صرف ایک پردہ نہیں، سیکولرازم، لبرل ازم اور لادینیت کے خوابوں کا کفن بھی ہے!
باحیاء عورت کا وجود معاشرے میں عزت ہی عزت ہے۔
والدین کے لئے باعث فخر، بھائیوں کے لئے باعث عزت، شوہر کے لئے دنیا کا قیمتی سرمایہ، اولاد کے عمدہ نمونہ۔
دعا ہے کہ رب تعالیٰ بشمولیت میرے تمام مسلم بہنوں کو حیا کے زیور سے آراستہ و پیراستہ فرمائے ۔ آمین ثم آمین
عورت کو حیا کی چادر دی
غیرت کا غازہ بھی بخشا
شیشوں میں نزاکت پیدا کی
کردار کے جوہر چمکائے