ڈاکٹر محی الدین زورؔکشمیری
It is a truth universally acknowledged, that a single man in possession of good forture, must be in want of a wife (Jan, Austen-Pride and Prejudice)
موسم سرما شروع ہونے والا تھا۔ کشمیر کے شال فروش ودیگر لوگ اس وادی سے باہر کچھ تجارت کی غرض اور کچھ دیگر مختلف کاموں کی خاطر جانے میں مصروف تھے۔ مجھے بھی اپنے والد کا علاج کروانے کے لئے پی جی آئی چندی گڑھ جانا تھا اور اس سفر کے سلسلے میں سب سے پہلے میں بڈگام ریلوے اسٹیشن اپنے بیمار باپ کے ہمراہ پہنچ گیا۔ ہمیں بارہمولہ سے بانہال جانے والی صبح کی ٹرین کا انتظار تھا۔ میں نے سوچا کیوں نہ کچھ دیر کے لئے دھوپ میں بیٹھا جائے۔ اسی اثناءمیں میری نظر ایک شخص پر پڑی، جو ایک آنکھ سے تھوڑا سا بھینگا تھا۔ اس کے ساتھ اس کی تین خوبصورت ننھی منّی بیٹیاں اور بیوی بھی تھی۔ وہ سارے اچھے لباس میں ملبوس تھے اور بہت خوش بھی، شاید اس لئے کہ ایک تو وہ اپنے گھر یو پی یا بہار جا رہے تھے اور اس لئے کہ ان کے باپ نے شاید ان کے لئے بہت سارا سامان وغیرہ بھی خرید لیا تھا، جیسا کہ مجھے ان کے لباس یا ان کے ساتھ جو بیگس وغیرہ تھے اس بات کا صاف پتہ چلا۔!
میں دیر تک ان کی طرف اس لئے متوجہ ہوا کیونکہ میں نے اس شخص میں ایک صحیح شوہر اور باپ کا روپ دیکھا۔ جس انداز سے وہ اپنے عیال کے ساتھ بات کرتا تھا، یا ان کے لباس وغیرہ کا خیال رکھا تھا اس سے مجھے پتہ چلا کہ واقعی وہ شخص اپنے اہل عیال کی پرورش کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتاہوگا۔ میں کچھ دیر کے لئے اس بات پر غور کرتا رہا کہ اس شخص کو میں کہیں جانتا بھی ہوں پھر مجھے یاد آیا کہ یہ شخص بس اسٹینڈ میں بھُنے ہوئے مٹر بیچتا ہے۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ شادی بیاہ تو ضروری ہے، مگر پہلے ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ کہیں ہم اس شخص کے حوالے تو اپنی بہن یا بیٹی کو نہیں کر رہے ہیں جو کل اپنے عیال کی کفالت کرنے میں نا اہل تو ثابت نہیں ہوگا! کیونکہ آج کل کے دور میں مہنگائی ہے۔ جو شخص خودکما نہیں سکتا ہے اسے شادی کرنے کا حق کس نے دے دیا ہے۔ اور شادی کے بعد رسومات بد کو چھوڑ کر کم از کم اپنی بیوی کو تو پالنا ہی ہوگا۔!
ایک انسان جس قدر اپنے آپ کو مہذب، بڑا خاندانی اور تعلیم یافتہ سمجھتا ہے، ٹھیک اسی قدر اس کی حرکتیں بھی عجیب غریب، اینٹی سوشل اور کہیں کہیں غیر مہذب بھی ہوتی ہیں۔ ایک شخص پیشے سے ڈاکٹر ہیں، ان کے ہاں بھی دو تین بیٹیاں پیدا ہوئی ہیں اور اولاد نرینہ سے وہ محروم ہیں۔ ڈاکٹری میں ان کا کام ہے مریض کو دیکھتے ہی ڈرانا، بھائی آپ کو وہ مہلک بیماری ہے، آپ کی جان خطرے میں ہے۔ اس لئے فی الفور وہاں جاکر ٹیسٹ کرالو اور پورا تھیلہ نقلی دوائیوں کی اس کے ہاتھ میں تھما دیا اور اس طرح فیس وغیرہ کو لے کر دوچار گاندھی نشان والے نوٹ ، مریض سے ہنستے ہنستے لے ہی لیتا ہے۔ ایک بات میں نے انہیں بڑے تاو¿ سے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ نے اس شخص کو جنت میں جانے کی بشارت دے دی، جو اپنی تین بیٹیوں کی پرورش کرے گا۔ ارے دوسروں کو بےوقوف بنانے والے انسانی قصائی وہ حدیث آپ جیسے لوگوں کے لئے نہیں بتائی گئی جو دوسروں کو ٹھگ کر اپنے لئے دولت کمالیں گے۔ وہ حدیث شریف اُس ناتواں شخص کے لئے بیان کی گئی ہے، جو جلستی دھوپ میں محنت سے حلال کی کمائی کرکے اپنی بیٹیوں کو پال کر ان کی اچھی خاصی تربیت بھی کرے گا۔یہ ایک ڈاکٹرکا قصور نہیں بلکہ یہاں ہر کوئی شخص مذہب کو اپنے لئے اسی طرح استعمال کرتا ہے۔ ہمارے سماج میں ایسے بھی کئی لوگ ہیں، جو شادی بیاہ کرکے اپنے گھر اور بیوی بچوں کی فگر ہی نہیں کرتے ہیں اور گھر سے باہر رہ کر وہ کیا کیا گل کھلاتے ہیں، خود موج مستی کرتے ہیں اور گھر میں ان کی بیوی یا بچے ایک ایک کوڑی کے لئے ترستے رہتے ہیں۔ یا ایسے بھی لوگ ہیں جو اس قدر مست یا بے ہمت ہوتے ہیں، کہ مصیبت کی گھڑی میں وہ اپنے گھر کے کام نہیں آتے ہیں اور دوسروں کی بھلائی کا وہ لوگ کیا سوچیں گے؟
ایک مسٹنڈا پتہ نہیں دن بھر اپنے آپ پر کتنا خرچ کرتا ہوگااور کتنے یار دوستوں سے ملتا ہوگا، جب اس کی مونچھ داڑھی نکلی تو ایک شریف النفس شخص کی بیٹی کو ورغلا کر بھگا لے گیا۔ وہ کام کے سلسلے میں کہیں پر ٹک نہیں سکتا ہے، کیونکہ یہاں بھی بے ایمانی کرتا ہے اور وہاں دس بار چوری کرکے پکڑا گیا۔ اس لئے اب اس کو کون کام پر رکھ سکتا ہے ؟ ایسے لوگ اکثر ماں کے دُلارے ہوتے ہیں۔ کسی اور کو پیارے کیونکر ہو سکتے ہیں، البتہ کام کے دُلارے ہر جگہ اور ہر کسی کو پیارے لگتے ہیں۔
تو ہم بات کر رہے ہیں اس مسٹنڈے کے ہاں اب ایک معصوم سا بچہ بھی پیدا ہوا تو رحم کھاکر ایک فیکٹری والے نے سوچا کہ چلو ان کے بچے کی خاطر ان کو اب کام پر رکھ ہی لیں گے۔ ان ہی دنوں وادی میں بقول چند کشمیری لیڈروں کے summer unrest شروع ہوا۔ ان حالات میں ایسے بے کار لوگوں کا کام ہوتا ہے دن بھر اِدھر ُادھر کی خبریں لانا اور بڑی بڑی طاقتوں کو گرانے کے شیخ چلی کے خواب دیکھنا۔ کسی کی کیا مجال کہ وہ ان اشخاص کے منہ لگے، تو یہ لوگ پتہ نہیں اس کی کیا حالت کریں گے۔ اس بیچ میں ان کا نوزائد بچہ سخت بیمار ہوا، تو گھر والوں نے انہیں بتایا کہ بچہ بیمار ہے، اس کو کسی طرح شہر کے بچوں کے اسپتال میں علاج کروانے کے لئے لے جاو¿۔ مگر مسٹر مسٹنڈا ہے کہ کچھ مانتا ہی نہیں اور کہتا ہے کہ کشمیر جل رہا ہے اور تم لوگوں کو بچے کی فکر پڑی ہے۔ کون ان حالات میں شہر جا سکتا ہے، سب کچھ تو بند پڑا ہے۔ وہاں ہم لوگ مارے جائیں گے، کرفیو لگا ہوا ہے نہ گاڑی ہے اور نہ کچھ۔۔۔ غرض کہ یہ اس کے حیلے بہانے تھے۔ باقی کچھ بھی نہیں تھا۔ کشمیر میں حالات کتنے بھی خراب کیوں نہ ہوں، ایسے کاموں کے لئے کبھی کسی کی کوئی روک تھام نہیں تھی۔ گاڑی ہو یا نہ ہو ایک باہمت شخص اپنے والدین کو شرون کمار کی طرح کاندھے پر اُٹھاسکتا ہے۔!
اسے کہتے ہیں گھر کی بے فکری۔۔ سگریٹ اور اپنی عیاشیوں کے لئے پیسے ہیں مگر اپنے بچے کے لئے جیب خالی ہے، دوسروں سے لڑنے کے لئے طاقت ہے مگر اپنے بچے کو کاندھے پر اُٹھاکر اسپتال لے جانے کے لئے ہمت نہیں ہے۔! اور اس طرح ان کا بچہ اس دنیا کی کوئی بھی بہار دیکھ نہیں سکا اور اللہ نے اس کو واپس اپنے پاس بلا لیا!
اب یہاں نصیحت ہے ہماری پیاری بیٹیوں کے لئے کہ وہ کسی بھی سر پھرے کے جال میں کبھی نہ آئیں کیونکہ شادی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ ہوتا ہے۔ اس کو لینے کے سلسلے میں جلدی نہ کریں اور چونکہ ہر کوئی شخص عمر کے ایک ایسے دور سے گذر جاتا ہے جہاں جوانی کے گرم خون کی وجہ سے اسے آگے پیچھے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا ہے۔ تو اس نازک period میں ایسا اہم فیصلہ خود لینا کہیں آگے بہت ہی خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لئے یہ عرصہ اپنی پڑھائی یا کسی تربیت میں لگایئے تاکہ مستقبل میں آپ کا روزگار کچھ اچھا بنے اور اس کے بعد جب شادی کا معاملہ آئے گا تو اس کے لئے پورا ایک ٹیم ورک کیجئے۔ اکیلے ایسے فیصلے نہیں لئے جا سکتے ہیں!
ایک اور ساجن بال والے سر پھرے نے ایک اچھے خاصے گھرانے میں شادی کرلی۔ لڑکی بہت ہی شریف النفس تھی۔ لڑکا کوئی خاص کام کاج نہیں کرتا تھا، البتہ ان کے عجیب طرح کے شوق تھے۔ دن بھر اپنے بالوں کو سنوارنا، دوستوں سے ملنا اور کرکٹ کھیلنا وغیرہ وغیرہ۔ ان باتوںمیں اُلجھ کر انہیں اپنے گھر گرہستی کی فکر کیسے ہو سکتی ہے۔ اس لئے گھر والوں نے انہیں علاحدہ اپنا گھر بسانے کے لئے کہا ۔ ان کا مقصد تھا کہ شاید یہ اس بہانے اپنے گھر کی طرف کچھ توجہ دے گا اور کسی کام کے ساتھ دل لگائے گا۔ مگر اس نے ایسا ہی کیا جیسا کہ اس کی کیٹاگری کے لوگ کرتے ہیں۔ معمولی سے ٹین شیڈ میں وہ رہنے لگا اور اس انتظار میں تھا کہ کب مجھے سرکارکی طرف سے آئی وائی اے اسکیم کا کمرہ ملے گا۔ سرکاری کمرہ ملنا بھی آسان نہیں ہے اور یہ وقت اور پیسہ بھی مانگتا ہے۔ اس کی بیوی حاملہ تھی، مگر چونکہ وہ بہت شرمیلی تھی، اس لئے ہر کسی کے سامنے اپنی بات نہیں کہتی تھی۔ ادھر ان ہی دنوں ورلڈ کپ کا سیزن تھا اور ہندوستان پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ تھا اور ہمارا ساجن کرکٹ فین دن بھر اسی خوشی میں تھا کہ کب پاکستان میچ جیتے گا اور وہ خوشی سے پٹاخیں پھوڑے گا۔ جو کشمیریوں کی برسوں سے ایک روایت بھی رہی ہے۔۔۔؟
ادھر ساجن بھائی کے گھر میں تیل نمک بھی نہیں تھا اور اسی دوران اس کی بیوی درد زہ میں مبتلا ہوگئی۔ چونکہ وہ لوگ محلے سے کچھ دوری کے فاصلے پر ایک شیڈ میں رہتے تھے، اس لئے وہاں گاو¿ں کی برادری کے لوگوں کا آنا جانا بھی نہیں ہوتا رہتا تھا۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ جب صاحب خانہ ہی اکثر گھر سے باہر یاروں دوستوں کے ساتھ در بہ در پھرتا رہتا ہے، تو اس حالت میں بھی وہ اپنی بیوی کے پاس کیسے ٹک پاتا۔ اس کی بیوی چیختی چلاتی رہی مگر ان کے پاس کوئی نہیں آیا۔ تو اس طرح اس معصوم لڑکی نے اپنی ایڑیاں رگڑتے رگڑتے جان دے دی اور وہ منحوس کرکٹ میچ کی کمنٹری سُن سُن کر اُچھلتا رہا۔۔۔۔۔؟
میرے دوستو! یہ کہانیاں یہاں بیان کرنے کا میرا یہ مقصد ہے کہ ایک انسان کی عمر کا ایک کروشل پیرڈ ہوتا ہے، 15 سے25 سال کی عمر کا۔ اگر اس عمر میں اس نے کچھ سیکھا اور وہ کسی کام کے لائق بنا تو آگے بڑھ کر وہ اپنی زندگی میں کچھ کر سکتا ہے۔ خاص کر زندگی settle ہونے کے بعد ہی شادی کا فیصلہ لے لینا چاہئے۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ نا اہل مرد کی زندگی میں جو عورت آجاتی ہے اس کی زندگی مرد سے زیادہ اجیرن بن جاتی ہے۔ اس کے بعد ان کے گناہوں کی سزا ان کے بچوں کو مل جاتی ہے، اس لئے اس گناہ سے بچنے
کی ہمیشہ کوشش کیجئے۔۔۔