100

طلبا کے اند ر انتخابی خواندگی

ابوالکلام انصاری
اسسٹنٹ ٹیچر، فیض احمد فیض اردو ہائی اسکول
مغربی بنگال، ہندوستان

انتخابی خواندگی:۔ انتخابی خواندگی وہ علم وہنر ہے جس کے ذریعہ ایک شہری بالخصوص نوجوان و وٹر اپنی حق رائے دہی کی ذمہ داری کو بخوبی نبھا سکتا ہے اور ایک قابل قائد ؍ نمائندہ کا انتخاب کر کے ملک کو ملت کا بھلا کر سکتا ہے۔ انہیں باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت ہند کا معتبر تعلیمی ادارہ NCERT (نیشنل کاؤنسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ)درجہ ششم (vi) تا درجہ دواز دہم (xii) تک کے نصابی کتابوں میں انتخابی خواندگی کے مواد کو شامل کرنے جا رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ تمام کالج و یونیور سیٹیوں میں بھی اسکی شمولیت کو لازم کیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا اور وزرات تعلیم، حکومت ہند کے۲نومبر ۲۰۲۳کے دستخط شدہ (MOU) باہمی مفاہمت کے ذریعہ انتخابی خواندگی کے مواد کو درسی نصاب میں شامل کیا جارہا ہے۔ تمام ریاستی حکومتوں کو بھی اسے اپنانے کے مشورے دیئے گئے ہیں۔
درسی نصاب میں انتخابی خواندگی کی شمولیت کے اغراض و مقاصد:۔
۱) ووٹر ایجوکیشن فراہم کرنا:۔ ایک نوجوان ووٹر کو کب، کیسے اور کہاں ووٹ ڈالنا ہے اسکی پوری واقفیت فراہم کرنا۔
۲) طلبا کو اپنی زندگی کا پہلا ووٹ ڈالنے کے لائق بنانا :۔ اس خواندگی کے ذریعہ طلبا کے اندر اپنی حق رائے دہی (ووٹ ڈالنے) کے تئی بیدار کرنا۔
۳) حق رائے دہی کے تئی بے حسی کو ختم کرنا:۔ طلبا کے اندر سے اپنی حق رائے دہی کے تئی بے حسی کو ختم کر کے اسے اس معاملے میں حساس بنانا تا کہ وہ اپنی ذمہ داری کو بخوبی نبھا سکے۔
۴) ووٹنگ میں زیادہ سے زیادہ شرکت:۔ انتخابی خواندگی نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے ووٹر ووٹنگ میں شرکت نہیں کرتے ہیں۔ جس کی عمدہ مثال 2019 کا لوک سبھا انتخاب ہے جس میں 67% ووٹر نے ہی شرکت کی۔ اس کمی کو دور کرنے کی غرض سے اور زیادہ سے زیادہ شرکت کو یقینی بنانے کے لئے Greater Participation for a stronger Democracy کے اعلان کے ساتھ انتخابی خواندگی کی شمولیت کو لازم کیا جارہا ہے۔
۵) جمہوریت کی تعلیم کو عام کرنا:۔ طلبا کے اندر جمہوریت کے تئی بیداری لانے اور ملک میںمضبوط جمہوریت کے قیام کے خاطر انتخابی خواندگی کو نصاب میں شامل کیا جا رہا ہے۔
تعلیم گاہوں میں انتخابی خواندگی پر مبنی سرگرمیاں:۔
۱) NCERT کے درجہ ششم (vi)تا درجہ دواز دہم (xii) کی نصابی کتابوں میں انتخابی خواندگی کے مواد کو شامل کرنا۔
۲) ملک کے تمام اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے درسی اور غیر درسی مشاغل میں انتخابی خواندگی کے مواد کو شامل کرنا۔
۳) تعلیمی اداروں میں Electoral Literacy Club (ELCs) کا قیام
۴) سکنڈری اسکول میں Democracy room کا قیام جس میں صرف انتخابی خواندگی کی تعلیم فراہم کی جائیگی۔
۵) الیکشن کمیشن کے Systematic Voters Education & Electoral Participation (SVEEP) مہم کو تمام اسکولوں اور کالجوں میں فروغ دینا ۔
۶) 18 سال سے زائد عمر کے طلبا کو بہ آسانی Voter Id فراہم کرنا۔
۷) تعلیمی اداروں میں مختلف طرح کے انتخابی خواندگی بیداری پروگرام کا انعقاد کرنا۔
۸) اساتذہ کو متعلقہ مواد کی تربیت دینا۔
۹) تعلیم بالغاں کے ساتھ ووٹر ایجوکیشن و انتخابی خواندگی کا انضمام کرنا۔
انتخابی خواندگی میں اساتذہ کا کردار:۔
۱) انتخابی خواندگی کی تربیت حاصل کرنا۔
۲) سینئر سیکنڈری کے طلباء کے لئے اسکولوں میں ایک Democracy Room قائم کرنا۔
۳) اسکولوں، کالجوں اور یونیورسیٹیوں میںسال بھر انتخابی خواندگی کے مختلف طرح کے سرگرمیوں کا انعقاد کرنا۔
۴) جمہوریت کی تعلیم (Democracy Education) طلباء کو فراہم کرنا۔
۵) ایسا نظام قائم کرنا جس میں Democracy Education Voter Education اور Electoral Literacy کا انضمام ہو سکے۔
انتخابی خواندگی کا پس منظر:۔ حکومت ہند نے اپنے شہریوں کے اندر انتخابی بیداری لانے کے لئے جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہے۔ ان ہی کے بنیاد پر موجودہ Electoral Literacy کا پروگرام تعلیمی اداروں میں شامل کیا جارہا ہے۔
۱) (SVEEP) Systematic Voters Education and Electoral Participation :۔ سال 2009ء میں اس مہم کی شروعات الیکشن کمیشن آف انڈیا نے کیا تھا جس کے مندرجہ ذیل مقاصد ہیں:۔
الف) انتخابی عمل کے تئی لوگوں میں بیداری
ب) انتخاب میں شہریوں کے شرکت میں اضافہ کرنا۔
ج) انتخاب میں جمہو ری شرکت کو تقویت بخشنا۔
"Greater Participation for a stronger Democracy” اور "No Voters to be left behind” جیسے نعروں کے ساتھ اس مہم کی شروعات کی گئی تھی۔ سال 2019ء کے لوک سبھا کے انتخاب میں 67% ووٹروں نے حصہ لیا تھا۔ 2029 ء لوک سبھا انتخاب میں ووٹروں کی شرکت میں مزید اضافہ ہو،اس کے لئے یہ مہم آج بھی کام کررہی ہے۔ روایتی میڈیا کے شانہ بہ شانہ ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعہ بھی اسکے پروگراموں کی تشہیر کی جاتی ہے۔
۲) (ELC) Electoral Literacy Club :۔ اس کا آغاز الیکشن کمیشن آف انڈیا نے 8 ویں قومی یومِ ووٹرس (8th National Voter’s Day) کے موقع پر 25 جنوری 2018ء میںکیا تھا۔ یہ اسکول و کالج کے طلبا جن کی عمر 14 سے 21 سا ل کے درمیان ہے یعنی درجہ نہم سے گریجویشن تک کے طلبا کے لئے شروع کیا گیا تھا۔ اس کے مقاصد مندرجہ ذیل ہیں:۔
الف) مختلف سرگرمیوں کے ذریعہ طلبا کو حق رائے دہی (Voting Rights) کے بارے میں آگاہ کرنا۔
ب) طلبا کو Voter List میں اپنا نام درج کرانے کے طریقوں سے آگاہ کرنا۔
ج) طلبا کو ممکنہ با اختیار ووٹر بنانا۔
اسلام میں انتخابی خواندگی کی تعلیمات:۔ اسلام میں انتخابی خواندگی کے متعلق جو تعلیمات دی گئی ہے وہ یہ ہیں کہ اسلام میں بھی جمہوریت کو پسند فرمایا گیا ہے۔بادشاہیت، ڈیکٹیٹر شیپ کو اسلام میں نا پسند فرمایا گیا ہے ۔ اس لئے حکومت کے نمائندوں کو انتخاب کے ذریعہ چننے کو اسلام میں بھی پسند فرمایا گیا ہے۔ عوام اپنے نمائندہ کا انتخاب جمہوری طرز پر کرے جس میں مندرجہ ذیل باتوں کا خیار رکھنا ضروری ہے اور یہی باتیں آج کے طلبا کو بھی انتخاب میں یعنی حق رائے دہی (voting) کے دوران ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
ووٹ کی شرعی حیثیت:۔ ووٹ (Vote) انگریزی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا عربی متبادل انتخاب اور تصویت ہے۔ جبکہ اس کا اردو متبادل نمائندہ چننا یا حق رائے دہی ہے۔ شرعی نقطہ نظر سے ووٹ کے متعدد حیثیتیںہیں۔
الف) شہادت:۔ شہادت کا مفہو م ہے عینی مشاہدہ یا بصیرت کی بنیاد پر کسی چیز کے بر حق ہونے کا گواہی دینا۔ ووٹرووٹنگ یا حق رائے دہی کے استعمال کے وقت یہ سمجھتا ہے کہ فلاںامیدوار اس عہدہ کے لائق ہے، وہ دیانت داری کے ساتھ اپنے کام کو انجام دے سکتا ہے۔ وہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ یہ امیدوار اس مقصد کے لئے موزوں ہے لہذا اس کو ووٹ دیکر اسکا انتخاب کرتا ہے۔
ب) سفارش:۔ ووٹ کی ایک حیثیت سفارش کی بھی ہے۔ ووٹر کسی متعین امیدوار کے سلسہ میں متعلقہ اتھارٹی سے یہ سفارش کرتا ہے کہ وہ MP یا MLA بننے کے لائق ہے لہذا میں اس کے انتخاب کی سفارش کرتا ہوں۔
ج) وکالت:۔ وکالت کا مفہوم ہے کسی مخصوص کام کے لئے کسی انسان کو اپنا نمائندہ چننا۔
شہادت، سفارش، وکالت جیسی ووٹ کی شرعی حیثیتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے طلبا کو یا کسی بھی ووٹر کو اپنے لئے نمائندہ کا اتخاب کرنا چاہیے۔ اگر وہ نمائندہ اپنی خدمات کو صحیح طرح سے انجام دیا تو اس کے خیر کے ثو اب میں ووٹر کا بھی حصہ ہوگا ورنہ ووٹر بھی غلط انتخاب کے بنیاد پر گناہ گار ہوگا ۔ اس لئے ایک نمائندہ کے انتخاب میں چند صفات کا خاص دھیان رکھنا بہت ضروری ہے یعنی جس کے اندر یہ صفات پائی جائے اس کا اتخاب کیا جائے۔
۱) ایمانداری و دیانت داری ۲) صداقت و امانت ۳) تعلیمی بصیرت ۴) انصاف پسندی ۵) مساوات ۶) انسان نوازی ۷) بھائی چارگی ۸) امن پسندی ۹) ترقی پسندی
مندرجہ بالا صفات سے مالا مال نمائندوں کو ہی اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے انتخاب کرنا چاہئے۔ اپنے نمائندے کا انتخاب کرنا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اس کو غیر ذمہ دارانہ طریقے سے بغیر غور و فکر کئے، بے تو جہی کے ساتھ استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ورنہ انتخاب کے سلسلے میں مندرجہ بالا اسلامی آداب کو بالائے طاق رکھنے کی بنا پر گناہ گار بھی ہونا ہوگا۔ بہت غور و فکر کر کے زیادہ صفات والے نمائندے کا انتخاب کرنا ضروری ہے تا کہ قوم و ملت کی فلا ح و بہبود ہو سکے اور امن قائم ہو سکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں