غازی سہیل خان ؍ بارہمولہ
نام کتاب :۔گردِ شبِ خیال(افسانے)
مصنف:۔فاضل شفیع بٹ
طبع اول :۔2024
صفحات :۔ 148 ؍قیمت :۔350
ناشر :۔ جی ۔این ۔کے پبلی کیشنز( نئی دلی ۔ جموں کشمیر)
مبصر :۔ غازی سہیل خان ؍ بارہمولہ
’’گردِ شبِ خیال‘‘ وادی کشمیر کے اُبھرتے ہوئے افسانہ نگار فاضل شفیع بٹ کا ایک افسانوی مجموعہ ہے ۔چند دنوں سے اسے پڑھ رہا تھا اور معلوم بھی نہیں چلا کہ کب ختم کر دی ،ہر ایک افسانے کو پڑھنے کے بعد اگلے افسانے کو پڑھنے کی چاہ بڑ ھ جاتی ہے۔کتاب میں سارے افسانوں کا تعلق ہماری زندگی کے ساتھ ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے سماج میں ایسے واقعات کو دیکھ اور پڑھ کے یہ افسانے لکھے گئے ہیں ۔ایسے سمجھ لیجئے ہمارے سماج کو ایک آئینہ دیکھانے کی بھر پور کوشش کی گئی ہے ۔افسانہ نگار نے ایسی کہانیوں کو پیش کیا ہے آپ سمجھ لیں جو ہمارے گھر اور محلے میں ایسے واقعات روز رونما ہوتے ہیں یا قارئین میں سے ہر کوئی اس قسم کے واقعات اور حادثات سے کسی نہ کسی طرح متاثراور جُڑا ہوا ہوتا ہے ۔
کتاب 148؍صفحات اور 25؍افسانوں پر مشتمل ہے ۔انتساب کے بعد افسانہ نگار پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ ’’افسانے چونکہ قلم کار کے تخیل سے جنم لیتے ہیں اور سماج میں پنپتے تلخ حالات و واقعات کا پردہ فاش کرتے ہیں ۔میں نے بطور افسانہ نگار زندگی کے سچے واقعات کو افسانوی رنگ بخشنے کی ایک کوشش کی ہے اور اس کوشش میں ،میں کس حد تک کامیاب رہا ہوں اس کا فیصلہ میرے قارئین پر منحصر ہے ۔‘‘ تاثرات معراج زرگر صاحب نے لکھے ہیں جنہیں مصنف موصوف اپنا استاد بھی مانتے ہیں لکھتے ہیں کہ ’’تقریباً دو ڈھائی سال قبل فاضل شفیع کی ایک غزل فیس بُک پہ نظر سے گزری تو بے ساختہ مسینجر پہ غزل نہ لکھنے کا مشورہ دیابات چیت کا سلسلہ بڑھا تو معلوم ہوا کہ فاضل نثر بھی لکھتا ہے۔ ایک دو مضامین یا ایک افسانہ پڑھ کر اتنا مگر یقین ہوا کہ بندہ لکھ سکتا ہے، کیونکہ فاضل کی تحریروں میں ایک روانی اور زبان پر حسب استطاعت دسترس تھی ۔فاضل نے اپنے سچے پن، ادب کی دنیا میں نو آ موزی اور علمی کم مائیگی کا برملا اعتراف کیا، جو آج کل کی انا پرست، مکار، واہ واہی اور گھمنڈ سے لیس نام و نمود کے بالکل برعکس تھا۔ یہ بات ایک سچے ادیب کے لئے ایک زیور اور کامیابی کی کنجی ہے ۔‘‘
میں معراج زرگر صاحب کے اس اقتباس کے زیادہ تر حصے سے اتفاق رکھتا ہوں۔ مصنف موصوف جب بھی کبھی نوک قلم کے لئے اپنی تحایر ارسال کرتے تو میرے ساتھ مشورہ بھی کرتے بلکہ اپنی تحایر پر بھی اکثر مجھ سے رائے بھی مانگتے تھے مجموعی طور مصنف موصوف کے اندر لکھنے سیکھنے اور پڑھنے سے جنون کی حد تک لگائو ہے ۔بچیس افسانوں پر مشتمل کتاب میں ہر افسانے کا عنوان اپنے اندر معنی کا ایک سمندر سموئے ہوئے ہے۔ عنوان کو دیکھتے ہی قاری کو اپنے جادوئی اثر میں لے لیتا ہے ۔ایک افسانہ ’’کفران نعمت ‘‘جس میں بیٹیوں کی پیدایش میں چند والدین کو ناگواری اور کفران نعمت کا احساس ستانے لگتا ہے اور لڑکے کی چاہ میں پتا نہیں کیا سے کیا کرنا پڑتا ہے، اسی افسانے میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’کہاں تھے آپ مما بول رہی تھی کہ آپ کسی پیر بابا کے پاس بیٹا لانے گئے تھے ۔کیا آپ کو مجھ سے پیار نہیں ہے؟ بابا میں آپ کا بیٹا ہوں ۔مجھے اس گھر میں ہی رہنا ہے۔ مجھے بھائی نہیں چاہئے۔ اگر اس گھر میں بھائی آیا تو پھر آپ مجھ سے پیار نہیں کریں گے۔ بابا۔۔۔۔ میں آپ کا ہر حکم ماننے کو تیار ہوں۔ میں آج سے موبائل فون بھی ہاتھ میں نہیں لوں گی۔ مجھے آپ اور مما سے بے حد پیار ہے ۔خدیجہ کی آواز میں رقت تھی ۔‘‘یہ بولتے بولتے خدیجہ کی آنکھ لگ چُکی تھی۔ وہ اپنے بابا کی گود میں سو گئی۔ (صفحہ ۲۸) ایک اور عنوان ’’ٹریلر‘‘ کے تحت کہانی ہے جس میں انسان کو غفلت سے نکل کے انسان کو اس دنیا کے ساتھ آخرت کی تیاری بھی کرنی چاہئے تاکہ وہاں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچا جا سکے۔ ’’ذبیحہ ‘‘نام کے ایک افسانے میں انسانوں کی دیکھا دیکھی اور ریا کاری میں جانوروں کو قربان کیا جاتا ہے ،وہیں کہانی میں یہ بھی سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ عبادت اور قربانی کے نام پر ہمارے معاشرے میں چند لوگ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی میں بڑے بڑے جانور قرضہ اُٹھا کے قربان کرتے ہیں ۔اسی طرح سے ’’ بازرگان مرک ‘‘میں ہمارے سماج کے صحت کے شعبے کا حال اور چند ڈاکٹروں کی خود غرضی سے انسانوں کو علاج کے نام پر کیسے قتل کرنے سے بھی گُریزنہیں کیا جاتا ۔اور بھی بہترین افسانے با معنی عنواین کے ساتھ کتاب میں شامل ہیں مثلا ً بنجر پور کا قبرستان، رینگتا جہنم، شبِ خون، رستے ناسور، منحوس چرخہ ،طلسی کانگڑی، کالی کوکھ کا دُکھ وغیرہ۔ اسی طرح سے آخر پر ایک افسانہ ’’ ناکردہ گناہ‘‘ عنوان کے تحت شامل ہے جس میں موبائل فون کی وجہ سے کس طرح فرحین نام کے ایک کردار کو اپنی زندگی کا ہی خاتمہ کرنا پڑا۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’ریحان موبائل فون کے ساتھ کیا کر رہا تھا اس بات سے فرحین بالکل بے خبر تھی۔اس نے الماری میں نئے کپڑوں کا جوڑا نکالا اور کپڑے بدلنے لگی ۔ریحان اپنی ماں کی فیس بُک آئی ڈی دیکھ رہا تھا اور فون پہ مختلف طریقوں سے لطف اندوز ہوتے ہوتے انجانے میں فیس بُک لائیو پر ننھے ریحان کی انگلی چلی گئی۔ کمرے کا سماں سارا جہاں اپنی نظروں سے دیکھ رہا تھا اور کچھ ہی منٹوں میں یہ ویڈیو وائرل ہوئی۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ فرحین کا یہ ویڈیو دیکھ چُکے تھے اور فرحین اس بات سے بالکل بے خبر ۔‘‘ (صفحہ 154)
مجموعی طور کتاب میں ہمارے سماج و معاشرے آئے روز تلخ ترین حالات و واقعات کا پردہ فاش کر دیا ہے ۔ایسا لگتا ہے یہ ہم میں سے ہر ایک کی کہانی ہے جنہیں فاضل شفیع بٹ نے افسانوں کے ذریعے ہمیں خوب آئینہ دیکھایا ہے افسانوں میں روانی اور واقعات کا ربط و تسلسل پایا جاتا ہے کرداروں کو سمجھنا آسان ہے یعنی وہ انسان جو تھوڑی بہت اُردو جانتا ہو اُس کے لئے یہ افسانے پڑھنے اور سمجھنے بالکل آسان ہیں ویسے زبان بھی عام فہم ہی استعمال ہوئی ہے۔ ابھی مصنف موصوف کی یہ پہلی کوشش ہے اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پہلی کوشش میں کامیابی حاصل کی ہے یہ کوشش مصنف کے لئے ڈرایئونگ فورس کا کردار ادا کر سکتی۔ ضرورت ہے مزید اپنے قلم سے ہمارے سماج کے ایسے واقعات کو قلم بند کر کے اصلاح کی یہ کوشش جاری رکھنی ہے۔ کتاب ہارڈ باونڈ میں ہے سرورق خوبصورت ہے کتاب کے بیک کور پر صنف موصوف کی معصوم سی تصویر اور معراج زرگر صاحب کی تقریظ ہے۔ کتاب میں چند املا کی غلطیاں ہیں جنہیں دور کیا جا سکتا ہے تاہم پیش لفظ میں مصنف نے چند اخبارات کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے موصوف کی تحاریر کو جگہ دی ہے چونکہ نوکِ قلم نے روز اول سے ہی موصوف کی تحاریر کو اولیت سے ویب سائٹ پر شایع کیا جاتا ہے تاہم راقم کو حیرانی ہوئی کہ نوکِ قلم کا ذکر نہیں شاید یہ ادراہ ابھی اتنا بڑا نہیں یا ذہن سے بات نکل ہو گئی ہے ۔ واللہ اعلم ۔بہر حال کتاب میں ہمارے سماج کی مرض کی خوب نشاندہی کی ہے اور میں چاہوں گا کہ ہر کسی کو چاہئے کہ اس کتاب کو پڑھنے کی کوشش کرے ۔کتاب کی قیمت ذرا زیادہ معلوم ہوتی ہے تاہم مجھے یقین ہے یہ رعایتی دام پر دستاب ہوگی۔ کتاب کو جی این کے پبلی کیشنز نے خوبصورت گیٹ اپ کے ساتھ شایع کیا ہے کتاب کو آپ گھر بیٹھے مذکورہ موبائل نمبر پر کال کر کے حاصل کر سکتے ہیں :9971444589