45

بس۔۔۔ میں ’ ٹرمپ ‘ ہوں!

رشید پروین ؔسوپور

دنیا کی تاریخ میں کسی بھی نئے صدر کی حلف بر داری کا انتظار اتنا شدید نہیں رہا جتنا کہ ٹرمپ کی حلف برداری کا رہا، جو کہ ۲۰ جنوری کو اختتام پذیر ہوگئی۔ دراصل ایک طرح سے دنیا کی سیاسی چولیں ہی ہل کر رہ گئی تھیں اور تمام دنیا کے چھوٹے بڑے ممالک کو یہ پریشانی اور سراسیمگی بھی رہی کہ ٹرمپ کیا کرنے جارہا ہے اور آگے دنیا کا سیاسی منظر نامہ کیا ہوگا ؟ اس بار ایسا کیا ہواکیونکہ اب تک کم وبیش ۴۵ صدور امریکہ میں آئے بھی اور گئے بھی لیکن یہ تلاطم خیزی اور سیاسی ارتعاش پہلی بار دنیا نے دیکھا اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اپنی جگہ پر معقول اور مناسب بھی ہے اور ابھی آگے بھی کچھ مدت تک اس ارتعاش کا جاری رہنا فطری ہی لگتا ہے ۔
اب ٹرمپ نے جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہے کہ آتے ہی سینکڑوں فرمان ایسے جاری کئے ہیں کہ بہت سارے ممالک کی چولیں ہل کر گئی ہیں اور بہت سارے ممالک ٹرمپ کے ان اقدامات پر انتہائی سنجیدگی سے غور و فکر کر رہے ہیں لیکن فی الوقت وہ ان اقدامات کو بغیر کسی چوں و چرا کے قبول بھی کر رہے ہیں اور ان اقدامات کو عملی جامہ پہنانے میں اپنی خدمات بھی پیش کر رہے ہیں ،غیر ملکیوں کی شہریت اور دوسرے ممالک کے لاکھوں شہریوں کی بات جو یہاں غیر قانونی طریقے پر رہائش پذیر ہیں ،پر کریک ڈاون جاری ہے ۔ دوسرے درجنوں احکامات جن پر فوری عمل ہورہا ہے سے ظاہر ہے کہ ٹرمپ۔ ٹرمپ ہیں۔۔۔ اس لئے ساری مشینری کی سانسیں بظاہرپھولی ہوئی ہیں۔ یہ ٹرمپ کا ، یا اس کی سیمآبی طبیعت کا اثر ہے یا امریکی قوت کا کرشمہ اور دبدبہ ہے؟ ۔جو بھی ہے لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا دنیا میں اس طرح کے دبدبے اپنے، اپنے ادوار میں فرعونوں کے نہیں رہے ہیں؟ جو بہر حال آئے بھی اور گئے بھی۔ جو بھی ہے ،کیا اس با ر ٹرمپ کی یہ دہشت دنیا پر اس لئے سوار ہے کہ وہ ایک غیر یقینی سی شخصیت ہے جس کے اقدامات نہ صرف بڑی جلد بازی پر منحصر ہوتے ہیں بلکہ اپنی طاقت اور قوت کے بیان میں وہ کسی لمحے کی نہ تو دیر کرتے ہیں اور اپنے غرور کو زباں دینے میں کسی بخل سے کام لیتے ہیں۔ دنیا ٹرمپ کی نفسیات کو پہلے ہی پانچ برس کے دوران بڑی حد تک سمجھ چکی ہے اور اب جب وہ پوری طاقت کے ساتھ پھر ایک بار امریکہ کے صدر بنے ہیں توانہیں شاید کچھ کہنے کی جسارت اور ضرورت نہیں پڑتی۔ فی الحال انہوں نے بڑی تیزی سے جن اقدامات کے فرمان جاری کئے ہیں ان سے نہ صرف باہری دنیا بلکہ اس ملک کے اندر بھی تہلکہ سا مچا ہوا ہے۔
بہر حا ل ا مریکہ کی سب سے بڑی متنازعہ شخصیت امریکہ کے سب سے بڑے اور پاور فل عہدے پر دوسری بار منتخب ہوکر قصر ابیض کی مکین ہوچکی ہے۔ پہلی بار وہ ۲۰۱۷ سے ۲۰۲۱ تک قصرِ ابیض میں بحثیت صدر امریکہ رہ چکے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے خطاب میں یہ واضح پیغام دیا ہے کہ وہ ’’ جنگوں کو جاری رکھنے کے بجائے ختم کریں گے ، امن اور خوشحالی کے لئے کام کریں گے اور یہ کہ امریکہ کو ترقی اور معاشی لحاظ سے اپنی بلندیوں تک لے جائیں گے ‘‘اس کے لئے ٹرمپ نے بہت سارے ممالک کی امداد بھی بند کرنے کا اعلان کیا ہے اور غیر ضروری دوسری فنڈنگ پر بھی روک لگا ئی ہے لیکن تشویش اس پر ہے کہ ان کی سیمآبی طبیعت اورآمرانہ مزاج پر کوئی اتنا بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ۶ جنوری ۲۰۲۱ کے واقعات جو امریکی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں اور پہلی بار امریکہ کے شہریوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں ،ان کے رد عمل میں جرم و سزا ،مقدمات اور آئینی بنیادوں پر یہ باور ہوچکا تھا کہ ٹرمپ کا دور ختم ہوچکا ہے اور اب کسی بھی طرح سے ان کی واپسی ممکن ہی نہیں لیکن ٹرمپ نے اپنی تمام تر خامیوں اور منفی اقدامات کے باوجود حیرت انگیز طور پر واپسی کی ہے ، جو متحیر کن بھی ہے اور جو امریکی عوام کے اکثریتی مزاج اور سوچ و فکر کے لحاظ سے بھی متصادم ہے ، لیکن حقائق افسانوں سے بھی زیادہ عجیب وغریب ہوتے ہیں ایسا کہا جاتا ہے اور یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔ ان کے ماضی کے آئینے میں دیکھا جائے تو ان کی شخصیت حیران کُن ،طلسماتی اور افسانوی رہی ہے ان کے والد رہائشی فلیٹس کی تعمیرات کرتے تھے اور ا مریکہ میں کافی مشہور بھی تھے۔ ستر کی دہائی میں ٹرمپ نے اپنے باپ کی کنسٹرکشن کمپنی جوائن کی ا ور ۱۹۸۰ میں ایک بہت بڑے ایسٹیٹ ڈیولپر کی حیثیت سے پہچانے جانے لگے جب انہوں نے ۳۶ منزلہ کواپریٹیو کمپلیکس تعمیر کیا جس سے ٹرمپ پلازہ کے نام سے پہچان ملی، جس کی پانچویں منزل اس نے اپنے لئے اور اپنے آفس کے لئے مختص کی ۔ جو اپنی آرائش اور آسائش کے لئے مثال قرار دی گئی۔ اسی دوران انٹلانٹک شہر میں ٹرمپ نے اپنی بزنس کو نئی جہت عطا کرتے ہوئے ’کاسینو‘کھول دئے ، نیو جرسی میں ٹر مپ پلازہ ہوٹل اور کاسینو جس سے ’ٹرمپ ہراہ‘ ٹرمپ پلازہ کے نام سے جانا جانے لگا ،کافی شہرت پاگیا اور اس طرح سے ساری امریکی سٹیٹس میں ٹرمپ کو ایک کامیاب بزنس ٹائیکون کی حیثیت سے پہچان ملی۔ ۱۹۹۰میں ٹرمپ نے ایک اور ایڈونچر کرتے ہوئے اپنا ٹرمپ تاج محل تعمیر کیا ، جس سے وہ خود دنیا کا آٹھواں عجوبہ قرار دیتے ہیں۔ اب وہ کوئی ریکارڈ کر پایا کہ نہیں لیکن اس میں کوئی شک اور دو رائیں نہیں کہ یہ اپنے وقت کی مشہور و معروف تعمیر رہی۔ ان کے بغیر بے شمار بڑے بڑے کملیکس، رہائشی فلیٹس اور دوسری تعمیرات کی وجہ سے ٹرمپ کا نام آہستہ آہستہ برانڈ ہوتا گیا۔ لیکن یہ بھی حیرت انگیز بات ہے کہ ان سب بڑی بلند و بالا تعمیرات کے باوجود ٹرمپ کی آرگنائزیشن مالی مشکلات کے بھنور میں پھنس گئی۔ ۱۹۹۲ میں ہی ٹرمپ کی ایک بائیو گرافی lost tyconکے عنوان سے ما رکیٹ میں آگئی جس میں یہ جملے بڑے اہم اور بہت ساری وضاحتوں کے لئے کافی تھے ،’’ٹرمپ اپنی تمام بزنس ناکامیوں کی وجہ سے پبلک مذاق بن گیا ہے ٹرمپ نے انٹلانٹک شہر کو اپنی ناکامیوں کے لئے ذمہ دارٹھہرایا لیکن حق یہی ہے کہ قریبی جاننے والے یہ کہتے ہیں کہ ٹرمپ کے لئے کاسینو بڑے خسارے کی وجوہات بنے ،لیکن زیادہ قرین قیاس ہے کہ وہ شاید جلد بازی یا ناقص پلاننگ کی وجہ سے کوئی خاص منافع نہیں پاسکا اور پھر کمپنی کوئی ایسا لائحہ عمل ترتیب نہیں دے سکی جو اس سے کھڑا کردیتی ، اس لئے وہ bankrupt ہوئے۔ یہی وہ دور تھا جب کمپنی کے انوسٹرس او ر شیئر ہولڈرس اپنی انوسٹمنٹ کھو چکے اور وہ سارے لوگ خسارے سے دوچار ہوکر ہاتھ ہی ملتے رہ گئے۔ ان سب صد مات کے باوجود ٹرمپ اپنی کمپنی کے نام کو سر فہرست رکھنے میں کامیاب رہے۔
ٹرمپ کی شخصیت پہلو در پہلو ہے اور اس افتاد طبع اور اس کے رحجانات کا اندازہ اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ۱۹۹۶ سے ۲۰۱۵ تک اس کے پاس ’’مس یوایس اے، مس ٹین یو ایس اے اور مس یونیورس بیوٹی‘ کی نمائش اور انعقاد کے حقوق تھے۔ ۲۰۱۵ میں اس کے خلاف نسلی تفریق اور نسل پرستی کے الزامات بڑی شدت کے ساتھ لگتے رہے۔۔ کئی برسوں تک ایک فٹ بال ٹیم بھی اپنے نام سے میدان میں اتارتے رہے۔ ایک ٹیلی وژن پروگرام ’یو آر فائیرڈ‘ کو ہوسٹ کرنے لگے جس سے بہت زیادہ دیکھا جانے لگا جس کی وجہ سے امریکہ کی بڑی تعداد ٹرمپ سے متعارف ہوئی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹرمپ نے ٹیکسوں کے بارے میں کبھی درست اعداد و شمار اپنی حکومت کومہیا نہیں کئے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کی اصل پراپرٹی پر اب بھی ڈبیٹس ہورہے ہیں۔ ۲۰۱۶ میں ایک امریکی اخباری خبر کے مطابق ٹرمپ کمپنی کے خلاف ۳۵۰۰ لیگل کیسز مختلف عدالتوں میںموجود تھے اور ان سب مخمصوں کے باوجود ٹرمپ نے ۲۰۱۵ میں امریکی صدارتی انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا اور پہلی بار ۲۰۱۷ سے قصر ابیض میں بحثیت صدر کے قیام پذیر رہے۔ سب ناکامیوں اور حادثات کے باوجود دنیا کے سب سے بڑے طاقتور ملک کا طاقتور صدر بننا صلاحیت سے زیادہ اقبال مندی کی دلیل ہی کہا جاسکتا ہے۔
بہر حال اس پسِ منظر اور ٹرمپ کی تمام چالاکیوں اور ہوشیاریوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ امریکی دانشور حلقے تشویش میں بھی مبتلا ہیں اور شاید ان کا خیال ہے کہ ٹرمپ مدبرانہ اور سنجیدہ غورو فکر کے عادی نہیں لیکن بہر حال وہ پھر ایک بار نہ صرف کامیاب ہوئے ہیں بلکہ اس بار انہیں بہت زیادہ اپوزیشن کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑے گا اور اپنے فیصلے اچھی طرح سے نافزالعمل بھی کرا سکتے ہیں۔ اگر چہ انہوں نے اپنے پہلے خطاب میں چند بہتر نقاط ابھارے ہیں اور ایک روڑ میپ کے طور پر انہیں دنیا اور امریکہ کے سامنے لایا ہے، ایک بات جو وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ دنیا کے سیاسی پسِ منظر پر بڑے گہرے اثرات مرتب ہوں گے ، لیکن وہ کسی طرح مسلم دوست نہیں ہوسکتے اور وہ بھی اپنی سابقہ روایات کے مطابق اسرائیل کو عزیز از جان رکھنے میں کوئی فر گذاشت نہیں کریں گے ۔ روس اورچین کے ساتھ ٹرمپ کے کیسے تعلقات رہیں گے اور ان کے مد نظر کیا عوامل رہیں گے؟ لیکن ماضی کے صدارتی دور کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ شاید وہ اپنے اسی نعرے پر قائم رہیں گے ، یعنی ’امریکہ فسٹ‘۔ وہ آج بھی اس دوران مسلسل اس بات کو دہراتے رہیں ہیں کہ امریکی مفادات ہی میری اولین ترجیح رہیں گی اور اپنے فیصلوں کو روبہ عمل لانے میں دھمکیوں اور دھونس دباؤ سے قطعی احتراز نہیں کریں گے بلکہ یہی بات اس وقت باقی دنیا کے لئے تشویشناک ہے۔
جو بائیڈن کے دور میں ایک طرح کی انارکی رہی، مشرق وسطیٰ میں تصادم رہے اور خلیجی ریاستوں کے علاوہ پاکستان بھی جو بائیڈن کے نشانے پر رہا جہاں ایک ایسی کورپٹ اور بدعنوان ٹولے کو عوامی منڈیڈیٹ کے خلاف مسلط کیا گیا جس کی مثال اب تک کی تاریخ میں ہی نہیں۔ ایسا سوچا جارہا ہے کہ بائڈن کی انسان دشمن اور امن دشمن پالیسیاںاپنے اختتام کو پہنچ چکی ہیں اور ٹرمپ بے جا مداخلتوں اور غیر ضروری جنگوں سے پرہیز کرتے ہوئے امریکی مفادات کے لئے کام کرنے کے متمنی اور خواہشمند ہیں۔
ٹرمپ کا دوسری بار صدارتی عہدے پر براجمان ہونا جہاں اپنے آپ میں ایک انوکھی اور انہونی بات ہے وہاں ہمیں بہر حال یہ سمجھانے کے لئے بہت کافی ہے کہ انسان بھی منصوبے بناتا ہے لیکن اللہ ہی کے منصوبے کامیاب ہوتے ہیں اور اللہ ہی خیر و شر سے واقف ہوتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں