انسانی بستیوں میں وحشی درندوں کی بڑھتی سرگرمیوں کے خود انسان ذمہ دار
ایس این ایس// یہ بات اب روز سننے میں آتی ہے کہ وادی کشمیر کے بیشتر رہائشی علاقوں میں وحشی جنگلی جانور کھلے عام گھومتے پھرتے نظر آتے رہتے ہے ایسے میں روز کسی نہ کسی انسان کو یہ جنگلی جانور اپنا نوالہ بناتے رہتے ہے۔ سال 2000 تک ان حادثوں کی شرح فیصد ایک بھی نہیں تھی لیکن جوں جوں جنگل سمگلروں نے جنگل پر دن دھاڈے ہاتھ ماکر درختوں کا بے دریگ صفایا شروع کیا تب انسانی بستیوں سے دور یعنی گھنے جنگلوں میں رھنے والے ایسے تمام جانوروں نے مجبوری کے عالم میں رہائشی آبادیوں کی طرف رخ کرنا شروع کیا پھر وہ زمانہ بھی آیا جب بچی کھچی ایسی زمینوں پر حق جتلاکر ناجائیز قبضہ کرنے والوں نے دوسرے انداز سے ان جانوروں کو اپنی اماجگاہیں چھوڈنے پر مجبور کردیا۔ نتیجہ یہ کہ گزشتہ بیس سالوں سے بدستور وحشی جانور آبادیوں کی طرف رخ کر کے اپنی خوراک ڈھونڈنے پر مجبور ہوگئے۔ ظاہر سی بات ہے کہ وادی کے طول وعرض میں اب جنگلی جانوروں کی طرف سےبراہ راست انسانوں پر حملہ آور ہونے کے واقعات رونما ہونے لگے ہے جیساکہ سبھی جانتے ہے کہ کشمیر اور چناب وادی میں اب عام لوگ اس وجہ سے بھی پریشانیوں میں مبتلا ہوچکے ہے۔ اکثر علاقوں میں دیکھا جاسکتا کہ وہاں کی بستیوں میں رھنے والےخوف و دہشت کے ماحول میں دن وشب گزار رہے ہیں۔ جبکہ کشمیر وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ بھی مصدقہ اطلاع پاتے ہی ان جانوروں کو پکڑھنے کیلئے کاروائی کرتا رہتا ھے۔ بڈگام ضلع کے چرارشریف تحصیل ہیڈکواٹر سے منسلک ڈھلون، رھکائی، نوہاڈ، چرارونی، سرفہ کھڈ، بٹہ پورہ، تیلسرہ، ارزن گرزن، نے بھی وادی کے قرب وجوار میں ان جانوروں کے خلاف آپریشن شروع کر دیا ہے۔ ٹوب ویل، الم کوٹ، واذہ باغ اور دوسرے متعدد مقامات کی بستیوں میں گزشتہ سات برسوں سے کبھی کبھی لیپرڈ ھ اور انکے چھوٹے چھوٹے بچے سرعام دیکھے گئے ہیں۔ تازہ خبر کے مطابق نوھاڈ چرارونی روڈ کے نزدیک یہ خبر فائیل ہونے تک دوبچوں کے ساتھ کل چار جانوروں کو دیکھا گیا تھا حالانکہ وائلڈ لائف بڈگام نے ایک ھفتہ قبل انھیں پکڑنے کے لئے دو جگہوں ہر جال بچھادیا ھے لیکن محکمے کو حادثات، اموات اور عوامی شکایات کے تناظر میں سنجدگی سے سوچ کر اور موقعے کی نزاکت بھانپتے ہوئے اپنی طرف سے قوت کے ساتھ مکمل کاروائی کرنی چاہیے تاکہ جانور بھی واپس محفوظ مقام تک پہنچ جائے اور وادی کے عوام میں موجود خوف ودشت دور ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی جانیں بھی تلف نہ ہوجائیں۔