84

گنڈ براٹھ سوپور جھڑپ میں لشکر کے تین کمانڈر ازجان

12گھنٹے تک جاری رہنے والی جھڑپ میںمطلوب کمانڈر مدثر پنڈت اور ایک پاکستانی بھی شامل


سوپور کے مضافا تی گاﺅں گنڈ براٹھ میں فوج اور جنگجوﺅں کے درمیان 12گھنٹے کی خونین معرکہ آرائی پیر کی دوپہر کو اختتام پذیر ہوئی اور اس میں لشکر کے مطلوب کمانڈر مدثر پنڈت سمیت 3جنگجو مارے گئے جن میں ایک غیر ملکی بھی شامل تھا۔جھڑپ کے دوران فوج کاایک اہلکار بھی زخمی ہوا۔ڈی جی پولیس دلباغ سنگھ نے جھڑپ کے دوران جنگجوﺅں کی ہلاکت کو ایک بڑی کامیابی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ مدثر پنڈت پچھلے دوسال سے سوپور علاقے میں سرگرم تھا اور اس کے خلاف 18ایف آئی آر درج تھے اور وہ پولیس کے 3 اہلکاروں، 2 کونسلروں اور دو عام شہریوں کی ہلاکتوں میں ملوث تھا۔سٹیٹ نیوز سروس نمائندے کے مطابق سوپور کے گنڈ براٹھ نامی گاﺅں کے تانترے محلہ میں اتوار کو رات کے ساڑھے 10بجے کے قریب ایک جھڑپ شروع ہوئی جب پولیس ،CRPFاور فوج نے گاﺅں میں جنگجوﺅں کی موجودگی سے متعلق ایک مصدقہ اطلاع ملنے پر گھیرے میں لے لیا۔نمائندے نے پولیس ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ جھڑپ رات دیر گئے تک جاری رہی جس کے بعد اندھیراچھا جانے کی وجہ سے صبح تک اس کو بند کردیا گیا۔علی الصبح فورسز کی کاروائی دوبارہ شروع ہوئی جس دوران گھیرے میں لئے گئے تینوں ملی ٹینٹوں کو مارا گیا جن کی شناخت مدثر پنڈت ، اسرار عرف عبداللہ اور خورشید میر کے طور ہوئی ہے۔اسرا ر عرف عبداللہ کے بارے میں پولیس نے بتایاکہ وہ پاکستان کا رہنے والا تھا اور دونوں مدثر پنڈت کے قریبی ساتھی تھے جنہوں نے پورے علاقے میں خوف ودہشت کی لہر پیدا کردی تھی۔ڈی جی پولیس دلباغ سنگھ نے ا س کاروائی کو بڑی کامیابی سے تعبیر کرتے ہوئے فوج،پولیس اورCRPFکو مبارکباد پیش کی ہے۔کلو فورس کے جی او سی ایچ ایس سہائے اور آئی جی پی کشمیروجے کمار کے ساتھ سرینگر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دلباغ سنگھ نے کہا کہ سوپور جھڑپ میں مارے گئے تینوں جنگجو اعلیٰ کمانڈر تھے اور کافی عرصے سے مطلوب تھے۔انہوں نے کہا کہ یہ تینوں ملی ٹینسی سے وابستہ کئی ایک واردات میں ملوث تھے۔ڈی جی پی کے مطابق لشکر کمانڈر مدثر پنڈت کے کئی کوڈ نام تھے جن میں عمر ،معاذ اور مدثر عام تھے۔انہوں نے کہا کہ مدثر 2019کے جون مہینے میں لشکر طیبہ کے ساتھ وابستہ ہوا اور اس کے خلاف 18ایف آئی آر درج تھے۔ڈی جی پی کے مطابق سوپور کے علاقے میں مہلوک کمانڈر نے تین سرپنچوں،دو سابق جنگجوﺅں اور حریت کے دو کارکنوں کو مار دیا تھا۔اس کے علاوہ جھڑپ کے دوران مارے گئے خورشید میر کے خلاف بھی 6ایف آئی آر درج تھے اور وہ بھی کئی ایک کاروائیوں میں ملوث تھا ۔ایک سوال کے جواب میں ڈی جی پی نے کہا کہ تینوں مہلوک کمانڈر 12جون کو سوپور قصبے میں ہوئے حملے میں ملوث تھے جس میں 2پولیس اہلکار اور دو عام شہری مارے گئے۔اس کے علاوہ تینوں سوپور قصبے میں اس سال مئی کے مہینے میں دو میونسپل کونسلروں اور ایک پولیس اہلکار کی ہلاکت میں بھی ملوث تھے۔ڈی جی پی نے اس بات کو ماننے سے انکار کیاکہ وادی میں غیر ملکی ملی ٹینٹ موجود نہیں ہیں۔انہوں نے تسلیم کیا کہ کنٹرول لائن پر جاری جنگ بندی کی وجہ سے دراندازی میں کمی ہوئی ہے۔تاہم انہوں نے ساتھ ہی کہا کہ اس کے باوجود وادی میں غیر ملکی جنگجو موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ کپوارہ کے علاوہ جموں کے سرحدی اضلاع میں ہتھیار چھیننے کے واقعات پیش آئے ہیں۔اس موقعہ پر کلو فورس کے جی او سی ایچ ایس سہائے نے کہا کہ تشدد کے سلسلے کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ ملی ٹینسی کا ساتھ نہ دیں۔انہوں نے مقامی ملی ٹینٹوں سے بھی اپیل کی کہ وہ تشدد کا راستہ ترک کریں بصورت دیگر انہیں بھی موت کا ہی شکار ہونا ہے۔انہوں نے کہا کہ جھڑپ کے دوران کسی قسم کا مالی نقصان نہیں ہوا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں