147

2سال کے دوران سپریم کورٹ میں دائر پیٹشن پر شنوائی نہ ہونا قابل افسوس

1947کا الحاق عارضی تھا نہ مخصوص نسل کیلئے

دفعہ 370 ختم کئے جانے سے مرکز کے تئیں میرا نقطہ نظر بدل گیا ہےعمر عبداللہ


سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے جموں وکشمیر کی خصوصی آئینی پوزیشن ختم کرنے کو غیر آئینی اور جموں وکشمیر کے عوام کے ساتھ کئے گئے وعدوں کی صریح خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے کے بعد سے مرکز کے تئیں ان کا نقطہ نظر بدل گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ مرکز میں اداروں کے کام کاج پر اعتماد کا بہت بڑا فقدان ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ دفعہ 370کو جان بوجھ کر ختم کردیا گیا جبکہ 2 سال کے دوران سپریم کورٹ میں بھی اس حوالے سے دائر کی گئی عرضی پر کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ ایس این ایس کے مطابق عمر عبداللہ نے اپنی خانہ نظر بندی کے 234دن مکمل ہونے کے بعد پہلی بار قومی سطح کی ایک نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ 1947میں جن مخصوص حالات کے دوران جموں وکشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق ہوا تھا وہ عارضی نہیں تھا اور نہ دفعہ 370کی خصوصی پوزیشن مخصوص نسل کیلئے مخصوص تھی۔عمر عبداللہ نے سوالیہ انداز میں کہا کہ 1947میں ہمیں نہیں بتایا گیا تھا کہ جموں وکشمیر کو دفعہ 370اور 35-Aکے تحت دی جانے والی خصوصی پوزیشن عارضی ہے اور ایک مخصوص مدت کیلئے رعایتاً دی جارہی ہے۔؟انہوں نے کہا کہ دفعہ 370کو وقتاً فوقتاً کمزور کیا گیا اور پھر 5اگست 2019کو جس غیر آئینی طور ا س کو ختم کردیا گیا ،اس نے مرکز کے تئیں ان کے نقطہ نظر کو بدل دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اب اداروں کے اوپر سے بھی اعتماد اٹھنے لگا ہے کیونکہ اعتما دکا فقدان وسیع تر ہوگیا ہے۔سابق وزیر اعلیٰ کے مطابق دفعہ 370ختم کئے جانے کے بعدہم نے سپریم کورٹ میں اس کے خلاف رٹ پٹیشن دائر کی لیکن 2سال گزرنے پر بھی اس پرکبھی سماعت نہیں ہوئی۔انہوں نے کہا کہ ہم یہ الزام نہیں لگا سکتے کہ کووڈ۔19کی وجہ سے عدالتوں کا کام کاج نہیں ہوا۔کیونکہ ایسا کہنا بھی حقیقت کے برعکس ہے۔عمر عبداللہ کے مطابق دفعہ 370میں مردوں اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے کچھ خامیاں اور نقائص ضرور تھے ،لیکن ان کو ٹھیک کرنے کی گنجائش تھی اور میں خود اس کیلئے تیار تھا۔بجائے اس کے کہ 35-Aکو ختم کیا جاتا ،مرکز کو ان ہی خامیوں کو دورکرنے پر زور دینا چاہئے تھا۔جموں وکشمیر کیلئے مکمل ریاستی درجے کی بحالی کی ضرورت اجاگر کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ اس کی توثیق اقوام متحدہ کی استصواب رائے کے تناظر میں ہوجانی چاہئے۔پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ مجھے پاکستان کے ساتھ بات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بھارت کے ساتھ بات چیت کیلئے ماحول سازگار بنانا چاہئے۔عمر عبداللہ نے کہا کہ وہ اس بات کے حق میں نہیں ہیں کہ جموں وکشمیر پاکستان کے ساتھ ہو ۔دفعہ 370ختم کئے جانے سے 3روز قبل اپوزیشن کی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ہوئی میٹنگ کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب پر عمر عبداللہ نے کہا کہ اس حوالے سے نریندر مودی سے جواب مانگا جانا چاہئے کہ اس میٹنگ میں کیا ہوا؟۔کشمیری پنڈتوں کی گھر واپسی کے بارے میں عمر عبداللہ نے کہا کہ وہ ان کے حقوق کا احترام کرتاہے لیکن کیا وہ پچھلے 2سال کے دوران واپس لوٹ آئے؟حالانکہ بھارتی میڈیا کا دعویٰ تھا کہ پنڈتوں کی گھر واپسی میں دفعہ 370رکاوٹ بنا ہوا ہے۔اس لئے اگراب دفعہ 370نہیں ہے تومائیگرنٹ پنڈت گھروں کو کیوں نہیں لوٹ آتے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ 5اگست 2019کو پارلیمنٹ کا استعمال کرتے ہوئے جو غیر آئینی قدم اٹھایا گیا وہ واپس لیا جانا چاہئے او رجموں وکشمیر کا مکمل ریاستی درجہ بحال ہوجا نا چاہئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں