رشید پروین ؔ سوپور
تیرے روزو شب کی اورحقیقت کیا ہے ۔۔
زمانے کی اک رو جس میں دن ہے نہ رات(اقبال ؒ)
بر صغیرکاشاید ہی کوئی بڑا اخبار ہو جو مضامین کا ایک پوارا سلسلہ ہر دسمبر کے آخر اور جنوری کی ابتدا کی پر اپنے اخبارات کی زینت نہ بنا تا ہواور یہ سلسلہ ٹھیک پچیس دسمبر سے شروع ہوکر جنوری کے پورے ہفتے تک جاری رہتا ہے ۔ الیکٹرانک میڈیا جتنے پروگرام کرتا ہے ان کا کوئی حساب نہیں، اور سوشل میڈیا پر ہماری نوجوان نسل جس گرمجوشی، لگن اور جوش و جذبے سے لا تعدادپوسٹ کرتی ہے وہ اپنی نظیر آپ ہیں اور افسوس کہ ان ساری چیزوں میں وہ بنیادی باتیں بہت ہی کم نظر آتی ہیںجنہیں ذہن نشین کرانا اس امت کے لئے ناگزیر اور اہم تھا اور ہمارے فہم و ادراک میں یہ اہم بات کہیں نظر نہیں آتی کہ در اصل وقت کی دھارا کے بہنے سے ہماری مختصر سی زندگی کا اور ایک ڈیجٹ گھٹ جاتا ہے، یا ہماری لائف لائن سے ایک سال کی کمی واقع ہوتی ہے۔ محاسبے اور جائزے سے دور ہم احمقوں کی طرح جام لنڈھانے میں مست و مدہوش رہتے ہیں ،زندگی کی لائن سے پورے ایک سال کے گھٹنے پر محاسبہ ، جائزہ اور پورے ایک سال کے اندر ہم نے کیا کیا ہے کیا کھویا ہے اور کیا پایا ہے ؟ ہم دانہ دانہ روز و شب کا شمار نہیں کرتے۔ دوسری بات یہ کہ یہ امت مسلمہ کا سال نو۔ نہیں ،بلکہ ہمارا سال نو ۔ محرم سے شروع ہوتا ہے اور یہ کہ ہمارا کلینڈر قمری ہے شمسی نہیں اور انشا اللہ وہ وقت قریب تر ہے جب ساری دنیا اس بات کو تسلیم کرے گی کہ قمری کلینڈر بہتر اور شمسی کلینڈر پر کئی پہلوؤں سے فوقیت رکھتا ہے لیکن ہمیں ابھی اس کا ادراک نہیں۔
جس طرح سے اس دور میں بے حساب قرآنی آیات جو چودہ سو برس پہلے مالک کائنات اور خالق کائنات نے اپنی عظیم کتاب میں منکشف کی تھیں اب اس دور میں سائنسی انداز فکر سے واضح ہورہی ہیں، ’’ اللہ وہ ہے جس نے سورج کو روشن بنایا،چاند کو منور فرمایا اور چاند کی منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کا شمار اور حساب معلوم کرسکو ، ‘‘ (سورہ یونس ۵) ’’ہم نے رات اور د ن کے دو نمونے بنائے پھر رات کے نمونے کو دھندلا کردیا اور دن کا نمونہ نظر آنے کے لئے روشن کر دیا تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو اور برسوں کی گنتی کا حساب معلوم کرو ‘‘ (سورہ بنی اسرائیل ۱۲ ) اور بھی کئی آیات مبارکہ میں تفصیل اور وضاحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ روزو شب کے آنے جانے کو برسوں اور مہینوں کا بہتر اور اللہ کا مقرر کردہ حساب مانا جانا چاہئے، لیکن بے دین اورخدا بیزار سائنسی ترقی کی بنیاد پرمغربی تہذیب جوآج ساری دنیا کی امامت پر فائض ہے ، اس بے دین اور خدا بیزار سائنسی اور مادی ترقی نے عزم کیا ہوا ہے کہ ہر بہتر اور انسانی اقدار کو ختم کرکے فحاشی اور خدا بے خوفی کو رواج دے کر دنیا کے امن و چین کو تباہ و برباد کردیا جائے ، انہیں چڑھتے سورج کی شان اور حسن نظر نہیں آتا ۔ان کے نزدیک وہ طلوع ہوکر دن کا اختتام نہیں کرتا ا ور نہ ڈوبتی شاموں کے حسین مناظر میں کوئی حسن نظر آتا ہے بلکہ اس کے برخلاف ان کا دن آدھی رات کو ختم ہوجاتا ہے، نئے چاند کی لاجواب اور انتہائی حسین دلکشی و نزاکت انہیں نئے مہینے کی شروعات ماننے پر رضامند نہیں کرتی بلکہ ہر مہینے کی لمبائی جو مقرر کی ہے اس میں کچھ دن تیس، کئی اکتیس تو بیچارہ فروری ۲۸ یا انتیس دن تک ہی سمٹ کر رہ جاتا ہے ۔ اسی طرح دن کے حصوں کی تقسیم بھی قدرتی نظام اوقات سے بہت مختلف رکھی ہے ۔ بہرحال اس نئے اور غیر قدرتی ماہ وسال کو ہمارے تمام نام نہاد مسلم ممالک بھی تسلیم کرتے ہیں اور ان ہی کے انداز میں اس سال نو کے موقعے پر جشن منعقد کئے جاتے ہیںجو مغربی تہذیب و تمدن کا حصہ ہیں۔
سال نو کا جشن منانا اور نئے سال کی آمد کا استقبال ، شراب و شباب کی محافل ۔ مرد وزن کے بے لگام اختلاط، بے سود آتش بازیاں اور مکمل فحاشی ا ور اخلاق سوز انجمنیں انسانیت کے لئے نہ صرف عبرت کا سامان ہیں بلکہ امت مسلمہ کی مکمل اور مسلسل روبہ زوال ہونے کی نشانیاں ہیں، اس لئے بھی کہ جب دنیا کا ہر شخص جو اس وقت زندہ ہے، سانس لے رہا ہے، کی زندگی کے میٹر سے ایک ہندسے کی کمی واقع ہو تی ہے ، ایک سال گھٹ جاتا ہے یا اس کی زندگی کے میٹرمیں جو چب فٹ ہے اس میں ۳۶۵ دنوں اور کچھ گھنٹوں کی کمی ہوتی ہے۔ ایک عام فہم بات ہے جس سے ہم صرف نظر کرکے اپنی ادنیٰ ذہنی سطح کا پردہ فاش کرتے ہیں ۔امام رازی ؒ نے کسی بزرگ کا قول نقل کیا ہے اور فرماتے ہیں کہ میںنے سورہ ’’والعصر ‘‘ کی تفہیم ہی ایک برف فروش سے پائی ہے جو اپنے سامنے برف کی ٹوکری رکھے ہوئے بازار میں آوازیں دے رہا تھا کہ ‘‘ اے لوگو مجھ پر رحم کرو میرا مال پگھلتا جارہا ہے ‘‘ حسن البنا ؒ بھی علامہ اقبال سے ’’وقت ‘‘کی ماہیت پر اتفاق کرتے تھے کہ وقت اور صحت ایسی دو نعمتیں ہیں جن کی اہمیت اور افادیت کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا اور یہ اس حدیث مبارکہ سے ماخوذ ہے جو حضرت عبداللہ بن عباس ؒسے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ’’کہ دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں لوگ غفلت میں ہیں، ایک صحت اور دوسری فراغت یعنی ’’وقت ‘‘۔ افسوس کہ سال نو کے استقبال میں ہم ان دونوں نعمتوں کا مذاق اڑاتے ہیں جو نہ صرف کفرانِ نعمت ہے بلکہ انسانی اقدار اور اپنی ذاتی زندگی دونوں کے لئے سمِ قاتل ہیں۔
احادیث مبارکہ سے واضح ہے کہ قیامت کے روز ہر شخص سے یہ سوال ضرور ہوگا کہ اس نے اپنا وقت یعنی عمر کس طرح اور کن کاموں میں گذاردی ؟ظاہر ہے کہ ہر نئے سال کے موقعے پر جو اول محرم سے شروع ہوتا ہے ہمیں اپنا اور بحیثیت مجموعی محاسبہ کرنا تھا اور آئندہ سال کے لئے فلاحی پروگرام اورعالم انسانیت کی خاطر اسلام کی ترویج کے لئے منصوبے باندھنے چاہئیں تھے لیکن ہم ’’وقت ‘‘ جیسی انمول نعمت کو خرافات کی نذر کردینے میں مسرت اور خوشی محسوس کرتے ۔ علامہ ا قبال ؒ نے اس سلسلہ روزو شب کی جو حقیقت اجاگر کی ہے اس کا انداز اور اس میں چھپے حقائق کچھ اور ہیں۔ در اصل ہماری زندگی کا ایک سال ہمارے ماضی کا حصہ بن جاتا ہے جس کی محظ چند یادیں ہی ہمارے لاشعور میں موجود رہتی ہیں ، باقی سب ماضی کے دھندلکوں میں کھو جاتا ہے۔ علامہ کے اس شعرجس سے میں نے اس مضمون کی شروعات کی ہے ۔ سے مترشح ہے کہ سلسلہ روزو شب جس سے عام طور پر لوگ زمانہ کہتے ہیں ۔کی ماہیت یہ ہے کہ وہ حقیقی زماں کی ایک روَ ہے ،جس میں دن ہیں اور نہ رات ہے ، نہ ماضی ہے ، نہ حال ہے اور نہ مستقبل۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ سلسلہ روزو شب ہی زمانے کا نام ہے لیکن اس روَ یا حقیقی زماں کی ماہیت واضح نہیں کی ہے ، کیونکہ زمانے کی حقیقت کو سمجھنا اور سمجھانا بڑا ہی پیچیدہ اور مشکل معاملہ ہے۔ اقبال بعض حکمائے مغرب کے مقابلہ میں زمانے کو حقیقی مانتے ہیں جو خارج میں موجود ہے ، جس کی منطقی تعریف ممکن نہیں لیکن ہم اس کی حقیقت کو اپنے باطن میں محسوس کرسکتے یا آسان الفاظ میں کہا جائے تو حقیقی زماں ایک طرح کی تخلیقی فعلیت ہے جس میں ماضی ہے نہ حال اور مستقبل ، بلکہ اقبال کے الفاظ میں اس کو مرور یا دورانِ خالص سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ،اس حقیقی زمانہ یعنی مرور خالص سے زماں مسلسل پیدا ہوتا ہے جس سے ہم روزو شب کہتے ہیں۔۔
نکتۂ غیب و حضور اندر دل است ۔۔ رمز ِ ایام و مرور اندر دل است ’’ زمانہ کو برا مت کہو ،کیونکہ میں خود زمانہ ہوں۔ اسی لئے شاید اہل صفہ کا یہ مسلک رہا ہے کہ ’’زمانہ در اصل وجودِ باری ہی کا نام ہے۔ مولانا رومی اور ڈاکٹر اقبال دونوں کااس بات پر اتفاق ہے کہ اگر زمانہ کی حقیقت جاننا چاہتے ہو تو عشق الہیٰ اختیار کرو کیونکہ عشق خود اصل حیات ہے ۔ یہاں زمانے کی بات چلی ہے تو مختصر معلومات کے لئے عرض ہے ’’کہ ملائکہ اور روح اس کے حضور چڑھ جاتے ہیں ایک ایسے دن میں جس کی مقدار ۵۰ ہزار سال ہے (المعارج آیت ۴) (وہ آسمانوں سے زمین تک کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے،ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال ہے، ( سورہ السجدہ ۳۲ آیت ۵، ۶) اس طرح سے اور بھی کئی جگہوں پر’’وقت ‘‘کی تفسیر اور تشریح ملتی ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وقت کا بہاؤ ، ایک جیسا نہیں اور اس سے سائنسی طور سمجھنے کے لئے شہرہ آفاق سائنسدان آئن سٹائن کی theory of general relativity کو سمجھنا ناگزیر ہوجاتا ہے جس نے تجاذب خلاء اور وقت کے درمیان تعلق پیدا کیا ہے لیکن ہم وقت کی قدرو قیمت کا اندازہ اس بات سے ضرور کر سکتے ہیں کہ ذاتِ باری نے قرآن حکیم میں بہت سارے مقامات پر وقت کی قسم کھائی ہے اور ظاہر ہے کہ قسم صرف اس چیز کی کھائی جاتی ہے جو بہت اہم اور عزیز ہو ۔ کئی مفسرین کا خیال ہے کہ جہاں جہاں قرآن میں کوئی آیت اللہ نے قسم سے شروع کی ہے یہ عندیہ دیتی ہیں کہ اس کے بعد اہم سائنسی انکشافات ہونے والے ہیں ۔۔ کبھی رات کی ،کبھی دن کی کبھی رات کے ساتھ شفق کی ،کبھی فجر کی اور دس راتوں کی ،تو کبھی روشن دن کی اور کبھی رات کے چھا جانے کی، ظاہر ہے کہ ابھی زمانہ ’’وقت‘‘کی ماہیت سائنس و ٹیکنالوجی کے دائروں سے بڑی حد تک پردوں میں ہے لیکن مومن ہر اس چیز اور بات پرایمان رکھتا ہے جو اس کتاب مبین میں آیا ہے ، اور یہی مسلم اور مسلم معاشرے کی بنیاد تھی جس سے منہدم کیا جاچکا ہے اور اس پر امت مسلمہ کو تفکر کرنے کی ان حالات میں زبردست ضرورت ہے ، تاکہ اربوں روپیہ اور زندگی کے بہترین اورتحفے کے طور ملے ہوئے لمحات کو صحیح انداز میں اللہ ہی کی رضا اور منشا کے مطابق گذارا جائے۔