ابھی سرما نے دستک بھی نہیں دی کہ بجلی ناپید ہورہی ہے جس سے عوام کو گوناگوں مشکلات کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔ گزشتہ روزمحکمہ بجلی نے جونیا کٹوتی شیڈول مشتہر کیا ،اُس میں اعلانیہ طور کہاگیاکہ میٹر یافتہ علاقوں میں روزانہ ساڑھے4 گھنٹے بجلی نہیں رہے گی جبکہ غیر میٹر یافتہ علاقوں میں یومیہ کٹوتی8گھنٹوں کی ہوگی۔ گزشتہ برس کے کٹوتی شیڈول میں بھی میٹریافتہ علاقوں میں کٹوتی کا دورنیہ ساڑھے چار گھنٹے جبکہ غیر میٹر یافتہ علاقوں میں اس کو کم و بیش نو گھنٹے تک پہنچایاگیاتھا۔یہ تو سرکاری شیڈول کے احوال ہیں۔زمینی صورتحال یہ ہے کہ جہاں میٹر والے علاقوں میں ان ساڑھے چارگھنٹوں کے علاوہ غیر اعلانیہ طور کم ازکم مزید3سے 5گھنٹوںکی کٹوتی ہورہی ہے وہیں بغیر میٹر والے علاقوں میں بجلی سپلائی کی صورتحال یہ ہے کہ پتہ ہی نہیں چل رہا ہے کہ یہ کب آتی ہے اور کب چلی جاتی ہے اور یوں عملی طور ان علاقوں میں15سے لیکر18گھنٹوں تک بجلی کٹوتی ہورہی ہے۔نئے کٹوتی شیڈول کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ خصوصی طور صبح اور شام کے اوقات کو نشانہ بنایا گیا ہے اور نئے شیڈول کے مطابق دو نوں زمروں میں صبح 2 گھنٹے بجلی گل رہنی تھی جبکہ شام کے اوقات میںبھی یہی حال رہناتھا تاہم زمینی صورتحال یہ ہے کہ صبح اور شام کے اوقات میں ہی کٹوتی اعلان شدہ وقت سے دوگنا کی جارہی ہے۔جہاں تک عقل و فہم کا تقاضا ہے تو یہ ایسے اوقات ہیں جب صارفین کو بجلی کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔شام کے وقت بجلی کا استعمال تو ویسے بھی عام ہے لیکن جب سردی کا موسم ہو تو صبح اور شام کے اوقات پر بجلی کی ضرورت اور زیادہ شدت کے ساتھ محسوس کی جاتی ہے۔اب اگر اس شیڈول پر بھی عملدرآمد ہوتا تو بجلی کبھی کبھار درشن دیتی لیکن اس کے برعکس غیر اعلانیہ طور اس سے دوگنی کٹوتی کی جاتی ہے اور یوں عملی طور لوگوں کو اندھیروں میں دھکیل دیاگیا ہے۔ بالآخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے ہم محکمہ بجلی کے عزائم کو بھانپتے ہوئے مسلسل قارئین کو خبر دار کررہے تھے کہ بجلی سپلائی کے حوالے سے ہمیں اچھی خبریں سننے کو نہیں ملیں گی اور اب بالکل ویسا ہی ہوا۔محکمہ بجلی نے حسب روایت اس بے تحاشا کٹوتی کیلئے وہی عذر پیش کیا ،جو وہ ہرسال پیش کرتے آرہے ہیں ،یعنی طلب اور سپلائی میں وسیع خلیج ہے اور اس خلیج کو پاٹنے کیلئے کٹوتی ناگزیر بن چکی ہے۔محکمہ کا استدلال ہے کہ اس وقت طلب 25سو میگاواٹ بجلی کی ہے اور دستیاب بجلی اس سے کہیں کم ہے جس کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ ناگزیر بن چکی ہے۔ محکمہ کا کہنا ہے کہ بجلی کی خریداری اور حاصل شدہ آمدن کے درمیان وسیع تفاوت کی وجہ سے سرکار کو سالانہ6 ہزار کروڑ روپے کا خسارہ اٹھانا پڑرہا ہے۔غور طلب ہے کہ طلب اور سپلائی میں موجود اس خلیج کوپاٹنے کیلئے کٹوتی شیڈول میں غیر میٹر یافتہ صارفین کو نشانہ بنایا گیا ہے جہاں پہلے سے ہی کٹوتی شیڈول پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوتا تھا۔7لاکھ سے زائد بجلی صارفین میں سے 80فیصد کے قریب صارفین ایسے ہیں جو میٹریافتہ زمرے میں نہیں آرہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ سپلائی اور ڈیمانڈ کے درمیان موجود خلیج کو پُر کرنے کیلئے انہی80 فیصد صارفین کو قربانی کا بکرا بنایا جائے گا۔ صارفین ،جو میٹر یا ایگریمنٹ کے تحت باضابطہ فیس اداکررہے ہیں ،ان کا حق بنتا ہے کہ انہیں بوقت ضرورت وافر مقدار میں بجلی فراہم کی جائے اور سرما سے زیادہ صارفین کو بجلی کی سب سے زیادہ ضرورت کب پڑ سکتی ہے۔مانا کہ بجلی کی چوری بھی ہوتی ہے تاہم وہ بجلی کہاں سے آتی ہے جو خاص الخاص افراد کیلئے چوبیسوں گھنٹے چالو رہتی ہے۔کٹوتی شیڈول تو صرف عام لوگوں کیلئے ہے جبکہ وی آئی پی لائنیں ہمہ وقت چالو رہتی ہیںاور یوں کٹوتی شیڈول کے شکار صرف عام صارفین ہی بن جاتے ہیں جنہیں ارباب اختیار سرما کے کٹھن موسم میں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔بجلی بحران کیلئے خود محکمہ بجلی بھی کم ذمہ دار نہیںہے۔جہاں تک بجلی کے ترسیلی نظام کا تعلق ہے تو یہ حقیقت بھی کسی سے چھپی نہیں ہے کہ جموںوکشمیر کو صرف ناقص ترسیلی شعبہ کی وجہ سے سالانہ کروڑ وںروپے کے خسارے سے دوچار ہونا پڑرہا ہے۔سروے کے مطابق بجلی کی ترسیل کے دوران بوسیدہ اور ناقص ترسیلی نظام کی وجہ سے اس وقت بھی55فیصد سے زائد بجلی ضائع ہورہی ہے۔مشاہدے میں ا?یا ہے کہ دیہی علاقوں میں جہاں بجلی ٹرانسفارمر انتہائی خستہ حالت میں ہوتے ہیں وہیں بجلی کھمبے اور ترسیلی لائنیں اس قدر بوسیدہ ہوتی ہیں کہ ہر وقت حادثہ کا احتمال رہنے کے علاوہ بجلی بھی مسلسل ضائع ہوتی رہتی ہے۔ایسے میں بجلی خسارے اور بجلی بحران کیلئے اکیلے صارفین کو ذمہ دار ٹھہرانا جائز نہیں ہے۔ اس ضمن میں جہاں محکمہ میں موجود افرادی قوت کو جوابدہ بنانا ناگزیر بن چکا ہے وہیں محکمہ کی مشینری اور ترسیلی نظام کو اپ گریڈ کرنا ضروری ہے۔جب بجلی شعبہ کی زبوں حالی کیلئے خود محکمہ ذمہ دار ہے تو محض بجلی چوری کا بہانہ بنا کر صارفین کو بجلی سے محروم نہیں رکھا جاسکتا۔ محکمہ بجلی کے حکام کو اپنے گریبان میں جھانک کر پہلے اپنی خامیوں کو سدھارنا چاہئے،اس کے بعد ہی صارفین کو مورد الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے۔صارفین پر الزام لگانے کی بجائے محکمہ بجلی کے حکام کو چاہئے کہ وہ اپنے محکمہ کامکمل پوسٹ مارٹم کریں۔
223