ہوائی کرایہ

گذشتہ دنوں کیرالہ سے آئے ہوئے سیاحوں کی ایک جمعیت نے بتایا کہ وہ گرمائی ایام میں وادی کی سیاحت پر آنا چاہتے تھے تاکہ وہ یہاں کے باغات، رنگ برنگے پھولوں اور سرسبز میدانوں او رمرغزاروں سے لطف اندوز ہوسکیں اور یہاں کے جھرنوں، ندیوں، نالوں، چشموں اور جھیلوں کے بلوریں پانیوں کو دیکھ سکیں محسوس کرسکیں اور گرم ماحول میں مختلف سیاحتی مقامات کی سیر کرسکیں اور خاص طور پر پہلگام میں نالہ لدر کے اس شور مچاتے ہوئے پانی کو بہتا ہوا دیکھ سکیں جس کے سرور سے خود بخود نیند آجاتی ہے لیکن اِس وقت نہ تو آبشار کہیں نظر آتے ہیں نہ باغوں میںرنگ برنگے پھول بلکہ ہر طرف سوکھے درخت جن پر ایک بھی پتہ نہیں ہوتا ہے ۔نالہ لدر خاموش، جھیل ڈل اور ولر کی مرتعش سطح پر قبرستان کی سی خاموشی چھائی رہتی ہے لیکن بقول ان کے وہ موسم بہار میں اسلئے یہاں کی سیر پر نہیں آسکتے ہیں کیونکہ وہ ہوائی کرایہ ادا نہیں کرسکتے ہیں جو دہلی سے سرینگر تک بیس پچیس ہزار ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس سے کم کرایہ پر سوئیزر لینڈ کی سیر کرسکتے ہیں ۔ایک طرف مرکزی حکومت اور مقامی ایل جی انتظامیہ جموں کشمیر میں سیاحت کو بڑھاوا دینے کے لئے بڑے پیمانے پر اقدامات اٹھارہی ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ بعض عناصر اس سارے معاملے کو سبو تاژ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان عناصر میں کئی اہم ادارے بھی شامل ہیںجو کشمیر کی سیاحت کو وسعت دینے کیلئے اہم کردار کی حیثیت رکھتے ہیں ان میں خاص طور پر ہوائی کمپنیاں شامل ہیں جو اب من مانے طریقے پر ہوائی کرایہ کی شرحوں میں اضافہ کرکے سیاحوں کو اس خطہ جنت سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔لیکن کشمیر کشمیر ہے ایسی قدرتی خوبصورتی دنیا بھر میں کہیں نہیں مل سکتی ہے ۔جب سیاح کشمیر آنا چاہتے ہیں لیکن صرف ہوائی کرایہ کی بڑھتی ہوئی شرحوں کی وجہ سے یہاں نہیں آسکتے ہیں تو معاملے کو سلجھانے کیلئے مرکزی وزارت شہری ہوابازی کو آگے آنا چاہئے اور ایسی ہوائی کمپنیوں کی سرزنش کرنی چاہئے جو اس وقت بیجا طور پر ہوائی کرایہ کی شرحوں میں اضافہ کرکے یہاں کے ٹورسٹ سیزن کو سبو تاژ کررہی ہیں جب یہاں کا سیاحتی سیزن عروج پر ہوتاہے ۔حکومت اگر چاہے گی تو ہوائی کرایہ کی شرحوں میں اضافہ کرنے والی کمپنیوں کے خلاف سخت کاروائی کرسکتی ہے۔ ٹریفک حکام دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ چوبیس گھنٹے سرینگر جموں شاہراہ کی نگرانی کرتے رہتے ہیں اسلئے ان کو بھی اس جانب اقدام اٹھانا چاہئے اور یہ دیکھنا چاہئے کہ کہیں سواریوں سے حد سے زیادہ کرایہ وصول تو نہیں کیا جارہا ہے ۔؟ہوسکتاہے کہ کبھی کبھار کرایہ کی شرحوں میں اضافہ ناگزیر بن جاتا ہے اس وقت بھی ہوائی کمپنیوں کو مناسب طور پر کرایہ کی شرحوں میں اضافہ کرناچاہئے ۔بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت سرینگر سے جموں تک کا پرائیویٹ ٹرانسپورٹروں نے حد سے زیادہ کرایہ وصول کرنا شروع کردیا ہے اسلئے اس پر بھی بھی نظر گذر رکھنے کی ضرورت ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں