115

ملک کا دفاع افغان سیکیورٹی فورسز پر منحصر ہے، امریکا

جہاں طالبان کی جانب سے سرحدی علاقوں اور تجارتی راہداریوں سمیت افغانستان کے چھٹے صوبائی دارالحکومت پر قبضہ کرلیا گیا ہے وہیں امریکا کا کہنا ہے کہ ملک کا دفاع کرنے کا انحصار افغان سیکیورٹی فورسز پر ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ افغانستان میں امریکی فوجی مشن 31 اگست کو ختم ہو جائے گا، افغان عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا چاہئے، امریکیوں کی دوسری نسل کو 20 سالہ جنگ کے لیے نہیں بھیجیں گے۔

امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ افغانستان کے لیے امریکی سفیر زلمے خلیل زاد قطر روانہ ہو گئے ہیں جہاں وہ طالبان پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ اپنی فوجی کارروائی بند کریں اور سیاسی حل کے لیے مذاکرات کریں۔

محکمہ خارجہ نے کہا کہ تین روز کے دوران ہونے والی بات چیت میں حکومتوں اور دیگر تنظیموں کے نمائندے ‘تشدد میں کمی اور جنگ بندی اور طاقت کے ذریعے مسلط حکومت کو تسلیم نہ کرنے کے عزم’ پر زور دیں گے۔

واضح رہے کہ 2001 میں اپنے اقتدار کے خاتمے کے بعد افغان طالبان اپنی حکومت کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے لڑ رہے ہیں اور انہوں نے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغان حکومت کو شکست دینے کے لیے اپنی مہم تیز کر دی ہے۔

گزشتہ روز انہوں نے شمالی صوبے سمنگان کے دارالحکومت ایبک پر قبضہ کر لیا۔

ایبک میں قانون ساز ضیاالدین ضیا نے کہا تھا کہ ‘ابھی طالبان پولیس ہیڈ کوارٹر اور صوبائی گورنر کے کمپاؤنڈ پر قبضہ کرنے کے لیے افغان فورسز کے ساتھ لڑ رہے ہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘دارالحکومت کے کئی حصے طالبان کے قبضے میں جاچکے ہیں’۔

طالبان جنگجوؤں نے رواں ہفتے میں تین صوبائی دارالحکومتوں، جنوبی صوبہ نمروز میں زرنج، اسی نام کے شمالی صوبے سر پل اور شمال مشرقی صوبہ تخار میں تالوقان پر قبضہ حاصل کیا۔

وہ پہلے ہی شمالی صوبائی دارالحکومت قندوز اور صوبہ ہلمند کے دارالحکومت لشکر گاہ کو حاصل کرچکے ہیں۔

علاوہ ازیں پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ امریکا کو اس رجحان پر گہری تشویش ہے تاہم افغان سیکیورٹی فورسز باغی گروپ سے لڑنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

کربی نے کہا کہ ‘یہ ان کی افواج ہیں، یہ ان کے صوبائی دارالحکومت ہیں، یہ ان کے لوگ ہیں جن کا دفاع کرنا ہے اور یہ قیادت پر منحصر ہے کہ وہ اس صورتحال سے کیسے نمٹتی ہے’۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ اگر افغان فوج لڑ نہ سکی تو امریکی فوج کیا کرے گی، اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ‘زیادہ کچھ نہیں’۔

امریکی عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جہاں فوج نے رواں سال کے شروع میں جو بائیڈن کو خبردار کیا تھا کہ فوجیوں کے انخلا کے ساتھ صوبائی دارالحکومت کا کنٹرول نکل جائے گا لیکن وہ ابھی تک حیران ہیں کہ ان میں سے چند کو طالبان نے کتنی تیزی سے حاصل کیا ہے۔

ایک عہدیدار نے بتایا کہ افغان فورسز نے کسی قسم کی مدد نہیں مانگی جب قندوز پر قبضہ کیا جا رہا تھا۔

امریکا، طالبان معاہدہ بوسیدہ ہے، برطانوی وزیر دفاع

حال ہی میں طالبان کی جانب سے کی گئی کارروائیوں میں اضافے کے بعد افغانستان کے مزید علاقوں پر قبضے نے غیر ملکی افواج کے انخلا پر سوالات کھڑے کردیے ہیں۔

برطانوی وزیر دفاع بین والیس نے ڈیلی میل کو بتایا کہ گزشتہ سال امریکا اور طالبان کے درمیان طے پانے والا معاہدہ ایک ‘بوسیدہ معاہدہ‘ تھا۔

واشنگٹن نے گزشتہ سال سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں طے پانے والے معاہدے سے دستبرداری پر اتفاق کیا تھا۔

بین والیس نے کہا کہ ان کی حکومت نے نیٹو کے چند اتحادیوں سے کہا تھا کہ وہ امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں اپنی فوجیں رکھیں لیکن حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘چند نے کہا کہ وہ متفق ہیں لیکن ان کی پارلیمنٹ متفق نہیں تھیں، یہ بہت جلد واضح ہو گیا کہ امریکا کے بغیر یہ آپشنز ختم ہو گئے تھے’۔

جرمنی کے وزیر دفاع نے طالبان کے قندوز پر قبضے کے بعد اپنے فوجیوں کی افغانستان میں واپسی کے مطالبات کو مسترد کردیا جہاں جرمن فوجی ایک دہائی سے تعینات تھے۔

افغان کمانڈوز نے قندوز پر قبضہ کرنے والے طالبان جنگجوؤں کو شکست دینے کی کوشش میں جوابی حملہ شروع کیا تھا۔

افغانستان کے مغرب میں ایران کے ساتھ سرحد کے قریب سیکیورٹی حکام نے بتایا کہ ہرات کے مضافات میں شدید لڑائی جاری ہے۔

ہرات زونل ہسپتال کے سربراہ عارف جلالی نے بتایا کہ گزشتہ 11 دنوں میں 36 افراد ہلاک اور 220 زخمی ہوئے ہیں، زخمیوں میں نصف سے زیادہ عام شہری تھے۔

یونیسیف نے کہا کہ گزشتہ 72 گھنٹوں کے دوران جنوبی صوبے قندھار میں 20 بچے ہلاک اور 130 بچے زخمی ہوئے۔

افغانستان میں یونیسیف کے نمائندے نے کہا کہ ‘مظالم دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں’۔

متاثرہ علاقوں سے افغان افراد کی نقل مکانی

صوبہ قندوز میں بہت سے مایوس خاندان، جن میں چند چھوٹے بچے اور حاملہ خواتین بھی شامل ہیں، نے اپنے گھروں کو چھوڑ کر 315 کلومیٹر جنوب میں واقع کابل میں تحفظ کی اُمید کے ساتھ پہنچے۔

ایک انجینئر غلام رسول نے اپنے خاندان کو دارالحکومت پہنچانے کے لیے ایک بس کرائے پر لینے کی کوشش کی کیونکہ اس کے آبائی شہر کی گلیوں میں گولیوں کی آواز گونج رہی تھی۔

غلام رسول نے رائٹرز کو بتایا کہ ‘شاید ہم کابل تک پیدل چلنے پر مجبور ہوں تاہم ہمیں یقین نہیں ہے کہ ہمیں راستے میں مارا جا سکتا ہے، زمینی جھڑپیں 10 منٹ کے لیے بھی نہیں رک رہیں’۔

اس نے اور کئی دیگر افراد اور ایک سیکیورٹی اہلکار نے بتایا کہ افغان کمانڈوز نے قندوز سے باغیوں کا صفایا کرنے کے لیے آپریشن شروع کردیا ہے۔

اتوار کو الجزیرہ ٹی وی سے بات کرتے ہوئے طالبان کے ترجمان محمد نعیم وردک نے امریکا کو خبردار کیا کہ وہ حکومتی فورسز کی مدد کے لیے مزید مداخلت کے خلاف ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں