226

اقصیٰ کے آنسو

مفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب

قسط: (03)

مسجد اقصیٰ کے نام ۔۔۔! (حصہ دوم)

سکون میں چھپا طوفان:

جس طرح طوفان کی آمد سے قبل سمندر کی سطح پُرسکون ہوتی ہے، اسی طرح کچھ عرصے سے فلسطین پر قابض یہودیوں کی طرف سے کوئی بڑی کارروائی نہ ہونا اس جانکاہ حادثے کا پیش خیمہ تھی جو گزشتہ سے پیوستہ جمعہ کو مسجد اقصیٰ میں پیش آیا۔ اس واقعہ نے کاروبارِ زندگی میں مگن اہل اسلام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور امت مسلمہ کو بتا دیا ہے کہ مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی داد رسی اور مسجد اقصیٰ کی بازیابی زبانی مذاکرات یا کلامی مباحثات سے نہیں جہاد کے ذریعے، شہادت کے راستے سے ہوگی۔ اس کے لیے امریکہ کی طرف دیکھنے سے کوئی فائدہ ہوگا نہ بیان بازی یا مطالبات سے کچھ حاصل ہوسکتا ہے، بلکہ اپنی قوت بازو پر بھروسہ کرنے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی صلاحیت حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

یہودیوں کے لیے کیسے ممکن ہوا کہ وہ 22 ہزار مسلمانوں کے مجمع میں گھس جائیں اور ان کے سروں پر گولیاں برسا کر انہیں مسجد خالی کرنے پر مجبور کریں؟ کیا صرف اس لئے نہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کو نہتے ہونے پر مجبور کر رکھا ہے اور خود ان کی فوج ہر طرح کے اسلحے سے لیس اور ان کا ہر شہری تربیت یافتہ ہے، فلسطینی مسلمانوں میں شوقِ شہادت کی کمی نہیں، لیکن ان کی جو قیادت عالمی برادری کے سامنے ان کا مقدمہ لڑ رہی ہے، وہ انتہائی نا اہل، جذبہ جہاد سے محروم اور غیر مخلص ہے، اُس نے یہودیوں کے تسلط کا راز جاننے اور اس کے خاتمے کے حقیقی اسباب کو اپنانے اور اس کے لیے فلسطینی مسلمانوں کو تیار کرنے کی بجائے نام نہاد اتھارٹی قائم کرکے مذاکرات اور بات چیت کی جو ریت ڈال رکھی ہے، اس نے مسلمانوں کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے اور کافروں​ کو بھی اپنے ہاتھ مضبوط کرنے کا موقع فراہم کیا ہے، فلسطینی عوام اور ان کی وہ تنظیمیں جو علماء وقت اور جذبہ جہاد رکھنے والے رہنماؤں کی سرپرستی میں کام کررہی ہے، اسباب و وسائل نہیں رکھتی، اسلام کے صاحب دل لوگوں سے اس کے رابطے نہیں، اور یوں فلسطینی مسلمان بے بس و لاچار اور بے یارو مددگار، یہودیوں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں اور خدا کی مبغوض و ملعون اور انبیائے کرام کی گستاخ یہودی قوم روز بروز اپنے مکروہ منصوبوں کی طرف پیش قدمی کر رہی ہے۔

آخر اس قدر بے توجہی کیوں؟

اس مرتبہ یہودیوں نے جو جارحانہ رویہ اختیار کیا ہے، وہ ان کے عزائم اور مستقبل کے منصوبوں کا صاف پتہ دے رہا ہے، انہوں نے نہ صرف یہ کہ مسجد اقصیٰ کے اندر بے تحاشا اور اندھا دھند گولیاں چلائیں، بلکہ بعد میں گن شپ ہیلی کاپٹروں میں بیٹھ کر مسلمانوں کے گھروں پر راکٹ فائر کئے اور ٹینکوں کو سڑکوں پر لاکر نہتی شہری آبادی پر براہ راست گولہ باری کے ذریعے ان کے احتجاج کو دبانے کی کوشش کی، ان کے رویے میں یہ شدت کسی بڑے حادثے کا پیش خیمہ معلوم ہوتی ہے۔

یہودیوں نے خاموشی کے اس عرصے میں زیر زمین تیاری کی، رد عمل کی شدت کا اندازہ لگایا، عالم اسلام کی ارضِ مقدس فلسطین سے بے رخی اور فلسطینیوں کی حالت زار سے بے توجہی​ کا مشاہدہ کیا اور پھر اچانک تشدد کی یہ سفاکانہ لہر برپا کردی، اس کی جو تفصیلات اب تک سامنے آئیں ہیں اور جس طرح نوجوانوں کو قریب سے فائرنگ​ کرکے بے دردی سے شہید کیا گیا ہے، خواتین کی جو آہ و فریاد اور فلسطینیوں کی لاچاری کے جو مناظر دیکھنے کو ملے ہیں، ان سے سینہ شق ہو جاتا ہے، جگر لہو لہو ہوا جاتا ہے، دل انتقام کی آگ سے آتش فشاں کی طرح بھڑکتا ہے۔

اے مسلمانو! خدا کے واسطے ذرا سوچو! اب باقی کیا رہ گیا ہے؟ بابری مسجد کا زخم مندمل نہ ہوا تھا کہ مسجدِ اقصیٰ پر وار ہونے لگا ہے، اب تو جہاد پر آ جاؤ، جہاد کی تربیت حاصل کرو، اس کے لیے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دو، اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کو پہنچو، ان بے بسوں کی فریاد رسی کرو، خدا نے جس کو جو دے رکھا ہے آج وقت ہے کہ وہ اس کو ان بے سہارا مظلوموں کی مدد کیلئے استعمال کرکے اپنی تجارت کا سامان کرے، دنیا بھر کے یہودی اسرائیل کو اپنا مقصود و مطلوب قرار دے کر اس کے لیے وہ سب کچھ کرتے ہیں جو کوئی انسان اپنے مقصد کی خاطر کرسکتا ہے، جبکہ ان کی کوششوں پر ذلت ورسوائی کی غیبی مہر لگی ہوئی ہے، تو مسلمان خدا کی رحمت کے حصول سے مایوس اور اپنے انجام کی فکر سے اتنے بیزار کیوں ہوگئے کہ وہ فلسطین اور اس کے باسیوں کو یکسر فراموش کر بیٹھے ہیں؟؟

حکمرانوں کی عدم دلچسپی:

اس حوالے سے سب سے زیادہ ذمہ داری مسلمان حکمرانوں کی بنتی ہے، عوام تو مظاہرہ اور احتجاج کے سوا کیا کر سکتے ہیں؟ اگر کسی کی بات میں وزن ہے یا کوئی فلسطینی مسلمانوں کے لیے مؤثر کردار ادا کرسکتا ہے تو وہ حکمران ہیں، لیکن وائے افسوس! وہ صاف دیکھ رہے ہیں کہ اسرائیل جبر و ستم کی حدوں سے گزر گیا ہے اور اب حکمرانوں کی طرف سے مؤثر آواز اٹھائے بغیر اس کو لگام دینی مشکل ہے، لیکن اس کے باوجود وہ امریکا کے خوف سے اس بارے میں کچھ نہیں کہتے کہ کہیں دنیا کی واحد سپر پاور اپنے پالے ہوئے جنگلی سور کے خلاف بولنے پر ناراض ہو کر ان کے اقتدار کے خلاف سازشیں نہ کرنا شروع کردے، لیکن قسم خدائے بزرگ و برتر کی! اس سنگین ظلم پر خاموشی اتنا سخت گناہ اور خدا تعالی کی ایسی شدید ناراضگی کا سبب ہے کہ امریکا آپ کے اقتدار کا حامی ہو یا مخالف، اس بے حسی کے جرم پر قدرت کی گرفت دنیا میں ہی ہو کر رہےگی اور امریکا کی مخالفت سے خدا کی پناہ پکڑی جاسکتی ہے، لیکن اللہ تعالٰی کی ناراضگی سے بچنے کے لیے کوئی جائے پناہ بھی نہیں ملے گی۔

انجامِ گلستاں:

اس وقت مسلم امہ ایسے انتشار کا شکار ہے اور مسلمان عوام ایسے بے بس ہو چکے ہیں کہ اتنے بڑے واقعے پر چند ایک بیانات اور مطالبات کے علاوہ کوئی قابل ذکر رد عمل سامنے نہیں آیا، دوسری طرف تمام بڑی بڑی غیر مسلم طاقتیں اسرائیل کے ساتھ ہیں اور اس کو اتنا مضبوط کرچکی ہیں کہ نہتے فلسطینی مسلمان تو کجا، کوئی عرب یا غیر عرب ملک اس کے خلاف کوئی مضبوط قدم نہیں اٹھا سکتا، سب مذاکرات پر زور دیتے ہیں اور ان کی کامیابی کی تمنا کرتے ہیں، لیکن آج تک اس سے قبل دنیا میں کسی حقدار کو اس کا حق بات چیت سے نہیں ملا، یہود جیسی مکار قوم مسلمانوں کو اگر ان کا حق زبانی کلامی کوشش سے دے دے تو اسرائیل کے قیام کی ضرورت ہی کیا تھی؟

فلسطینی مسلمانوں نے ہمت نہیں ہاری، وہ جدید ترین اسلحے کا مقابلہ غُلیل سے کر رہے ہیں اور ایک ہتھیار ان کے پاس ایسا ہے جو اس وقت کام دیتا ہے جب سارے ہتھیار ناکام ہو جائیں، یعنی ”فدائی حملہ” سو اس وقت فدائی حملے ان کا سب سے بڑا ہتھیار ہیں، مسجدِ اقصی اگر وہ واپس نہیں لے سکتے تو اس کے لیے جان تو دے سکتے ہیں، سو وہ دے رہے ہیں، لیکن فلسطین سے باہر دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ صورتحال یونہی رہی تو انجام گلستاں کیا ہوگا؟ فلسطینی مسلمانوں کو اس مشکل وقت میں ہی چھوڑ دیا گیا تو دنیا بھر میں جہاں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور ان کے خلاف دشمنان اسلام تباہ کن یلغار کے لیے پر تولے بیٹھے ہیں، ان کے تحفظ کی کیا ضمانت رہ جائے؟

اے ایوبی کے فرزندو !

کاش ! آج کوئی سلطان صلاح الدین ایوبی نہیں جوتاریخ موڑ سکے، لیکن اس کی وجہ یہ نہیں کہ مسلم امہ بانجھ ہوچکی ہے، آج بھی سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کے جانشین پیدا ہو سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ مسلم نوجوانوں میں لہو لعب کو رواج دینے کی بجائے مقاصد عالیہ کے حصول کی فکر پیدا کی جائے، انہیں فسق وفجور کے رجحانات سے بچاکر جہاد کے ذوق اور شہادت کے شوق سے آشنا کیا جائے، ان میں فحاشی وبے راہ روی کے جراثیم کے پھیلاؤ کی روک تھام کرکے ایثار و تقویٰ کا جوہر پیدا کیاجائے، بخدا! آج ایوبی کے کتنے فرزند ہیں جو اس کے جانشین بن سکتے ہیں، لیکن انہیں مردار دنیا کا طالب اور عیش پرستی کا دلدادہ بنا دیا گیا ہے، کتنے ہی مسلم نوجوان ایسے ہیں جو اپنے وقت اور صلاحیتوں کو صحیح مصرف میں استعمال کریں تو مسجد اقصٰی کی جنت گم گشتہ مسلمانوں کو واپس دلاسکتے ہیں، لیکن انہیں عزت وشہادت کے راستے سے ہٹا کر بے مقصد کھیل و تفریح اور فضول مشغولیات میں لگا دیا گیا ہے-

اے ایوبی کے فرزندو! اپنے مقام اور ذمہ داریوں کو پہچانو! مسجدِ اقصیٰ کی سوگوار فضاء سےآنے والی صداؤں کو سنو اور بدبخت یہودیوں کو ان کے آخری انجام تک پہنچانے کے لیے کمر بستہ ہوجاؤ، ورنہ جیسے یہ دنیا ہم پر تنگ کردی گئی ہے، کل قبر بھی ایسی تنگ نہ ہوجائے کہ زمین ہماری لاشوں کو قبول کرنے سے انکار کر دے –

مسجد اقصٰی! تجھے عزت بخشنے والے کی قسم! تیرے بیٹے تجھے واگزار کرانے کے لیے جان کی بازی لگاکر رہیں گے، اگر تجھ تک نہ پہنچ سکے تو تیرے گرد اپنے خون اور جسموں سے ایسی باڑ ضرور تعمیر کردیں گے جو تیرے دشمنوں کو تجھ تک نہ پہنچنے دے گی- ان شاء اللہ

(جاری)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں