316

کشمیر میں یتیم بچوں کو سہارے کی ضرورت

ڈاکٹر محی الدین زورؔ کشمیری

لبوں کے سائے میں جلتے ہیں دشتِ کرب و بلا
کسی کی آنکھ میں عکسِ فرات ہو تو چلیں
(حامدی کاشمیری)

ہم اپنے چند عزیز طلبہ کے گمراہ دلی سے ممبئی ایک تعلیمی دورے پر جار ہے تھے۔ ہمارے پاس ہی ریل گاڑی میں ایک نو بیاہتا جوڑا بھی بیٹھا ہوا تھا۔ چونکہ یہ چالیس کے قریب گھنٹوں کا سفر ہے، اس لئے آس پاس بیٹھے ہوئے لوگوں سے بات چیت کرنا ضروری بنتا ہے۔ کچھ گھنٹوں کے سفر کے دوران ہی میں نے اس بات کا مشاہدہ کیا کہ یہ دونوں میاں بیوی بہت ہی شریف خاندان کے لگتے ہیں۔ لڑکی نے ایک اُردو ڈائجسٹ ”پاکیزہ آنچل“ پڑھنا شروع کیا ، تو میں نے بھی سوچا کہ یہ ان سے بات چھیڑنے کا ایک حسین بہانا ہے۔
اچھا بہن آپ اُردو بھی پڑھ سکتی ہیں؟
ہاں بھائی صاحب!
آپ کہاں سے ہیں؟
میں تو پرانی دلی سے ہوں اور یہ میرے ہسبنڈ ممبئی کے ہیں۔
آداب بھائی جان! ہم لوگ کشمیری ہیں اور بھابی جان کے واسطے آپ سے اُردو کا رشتہ نکلا ہے!
تو اس طرح ہمارا اور ان کا اب رسمی تعارف ہوا۔
اس لڑکے نے مجھے بتایا کہ میں ایک کرسچن ہوں اور بچپن میں ہی میرے والدین گزر گئے۔ بھائی بہن نہیں تھے، رشتے دار دُور دُور اور کچھ ملک سے باہر آباد ہیں۔ میرے پاس باپ کا کچھ اثاثہ تھا۔ کچھ بینک اور پالیسیوں کی صورت میں اور ایک معمولی سا فلیٹ۔۔ والد کی موت کے بعد مجھے کرسچن ٹرسٹ نے اپنی نگرانی میں لے لیا۔ہماری اچھی طرح پرورش کروائی۔ بورڈنگ میں میری پڑھائی ہوئی۔ پھر ایم بی اے بھی کروایا۔ تو اس طرح میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازم بھی ہوا۔ حسن اتفاق سے (جہاں میں کام کرتا ہوں) مجھے ایک دوست ملا ،وہ بھی کرسچن ہے۔ اس نے اپنی چچیری بہن سے میری شادی کروادی۔ یعنی آج سے پندرہ دن پہلے میری شادی اس لڑکی کے ساتھ دلی میں ہوئی۔ تو شادی کے بعد پندرہ دن، میں نے اپنے سسرال میں ہی گزارے۔ اس کے بعد اب ہم اپنے گھر ممبئی جا رہے ہیں۔ یہ سامان وغیرہ ہم دلی سے ہی لائے ہیں۔
والدین کے مرنے کا غم انہیں تھا، لیکن ان کی اچھی پرورش میں پھر کوئی بھی رکاوٹ نہیں آئی تھی۔ اس کے بعد لڑکی بھی اسے اپنے مزاج کے مطابق ہی مل گئی تھی جیسے کہ ہم نے پھر سفر کے دوران ان دونوں کا حسن سلوک دیکھا تھا۔
اب ہم آتے ہیں اپنے کشمیر پر، جہاں گھر گھر موت نے ننگا ناچ کھیلا اور ہمارے ہر محلے میں آپ کو یتیم اور بے کس بچے کسمپرسی کی حالت میں ملیں گے۔! پہلے اس قسم کی ایک مثال دیکھئے: میرے ایک جگری دوست مبشر ڈار ایک دور میں بہت ہی پریشان حال تھے۔ مصیبت پہ مصیبت۔ اس دوران انہیں کسی سے دھمکی بھی ملی کہ ہم لوگ آکر آپ پر حملہ کریں گے۔ وہ ان دنوں جہاں کام کرتے تھے وہاں ایک مصیبت زدہ خاتون بھی کام کرتی تھی۔ وہ اس لئے کیونکہ ان کے شوہر کو بندوق برداروں نے مارڈالا تھا۔۔۔ وہاں موجود سھی لوگوں میں صرف اسی خاتون نے مبشر ڈار کی پرابلم کو سمجھا اور وہ اس کے ساتھ نہ صرف ہمدردی کرنے لگی بلکہ اسے کہنے لگی کہ دنیا میں جینا ہے تو ہمت سے کام لے لو اور جب تک میں زندہ ہوں تب تک آپ کو کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا ہے۔ تو اس طرح پھر سب کچھ ٹھیک ہی ہوا۔ کسی نے مبشر ڈار کے پاس آنے کی کوئی غلطی نہیں کی۔ کچھ ہی مہینے بیت گئے کہ اس نڈر خاتون کو بھی اس کے شوہر کی طرح بڑی بے رحمی سے مار ڈالا گیا۔۔۔! وقت پہئے کی طرح چلتا رہا اور مبشر ڈار تحصیلدار بن کے کشمیر کے دوسرے خطے کے دور دراز علاقوں میں بھیجے گئے۔۔۔ پھر وہ وقت بھی آگیا کہ مبشر ڈار کو اسی علاقے میں تعینات کیا گیا جہاں وہ بیوہ عورت رہتی تھی۔ انہوں نے نمبردار کو بلا لیا اور ان سے پوچھا:
یہاں وہ عورت رہتی تھی جس کے شوہر کو پہلے مارا گیا تھا اور اس کے بعد اس بے چاری کو بھی۔۔۔ اس کے بچے بھی تھے۔۔۔ ان کو میرے پاس لاو¿۔۔ مجھ سے جتنا بھی ہو سکے گا میں ان کی مدد کروں گا۔۔۔
نمبر دار : کیا کہوں صاحب۔ اس کے مرنے کے بعد اس کے ایک بچے نے خود کشی کرلی تھی۔۔۔ کیونکہ ہماری سوسائٹی نے ان پر لیبل ہی کچھ ایسا لگایا تھا ، سسر ساس نے اس بے چاری کو پہلے ہی اپنے گھر سے (بچوں سمیت) نکال دیا تھا۔ مذہب کا کچھ سہارا لیکر بتایا کہ جب میرے گھر میں میرا اپنا بچہ نہیں رہا تو تم لوگوں سے میرا اب کیا رشتہ رہا! پھر کیسے وہ اس سماج میں زندگی گزارتے ۔ ان کا ایک اور بیٹا بھی تھا۔ اپنوں نے انہیں گلے نہیں لگایا۔ نہ کوئی تنظیم یا ٹرسٹ وغیرہ ان کی مدد کے لئے سامنے آیا۔ پھر پتہ نہیں اس کا دوسرا بیٹا کہاں چلا گیا۔ وہ شاید ڈرائیوروں سے پتہ چلے گاکیونکہ کچھ برسوں تک وہ ان ہی کے ساتھ کام کرتا تھا۔ تو اس طرح مبشر ڈار بھی اپنی محسن بہن کے کھوئے ہوئے بیٹے کو کہاں سے ڈھونڈ پاتا۔ ان کے ہاتھ میں اتنا کچھ تھا نہیں۔ بس اس نے سوچا تھا اگر وہ اسی قصبے میں ہوتے، تو کم از کم ان کی پراپرٹی وغیرہ کو انہیں واپس دلاتا۔ اب جبکہ ہماری بنیاد ہی ٹھیک نہیں ہے تو چھت کیسے سنبھل پائے گا۔
جس طرح زندگی کے مختلف شعبوں میں ہماری سرکاری پلاننگ اکثر و بیشتر فیل ہو جاتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح سرکا نے یہاں کے یتیموں اور بے سہارا لوگوں کے لئے جو اقدامات اٹھائے ہیں ہماری اپنی نا سمجھی اور خلوص کی کمی کی وجہ سے ایسی اسکیمیں بھی کار گر ثابت نہی ہو رہی ہیں، جس کا حال ہم نے یوں دیکھا ہے: خانصاحب بڈگام کشمیر میں نئے قائم شدہ کالج میں میری ڈیوٹی لگی۔ تو وہاں ہمیں سرکاری یتیم خانے کا نصف حصہ کالج کا کام کاج چلانے کے لئے دے دیا گیا۔ پھر ہم نے وہاں کن کن مشکلات کا سامنا کیا، وہ ایک الگ موضوع میرے کسی دوسرے مضمون کا ضرور بنے گا۔ فی الحال ہم یہاں یتیموں کی بات کرتے ہیں، ان کی نگہداشت کے لئے صرف ایک کُک تھا۔ دوسرا ملازم کبھی کبھار وہاں آتا جاتا تھا۔ پاس ہی سوشل ویلفیر کا آفس بھی تھا۔ وہاں کے ملازم دن میں آتے تھے اور بچوں کا کھانا کھاتے تھے، جس طرح ہمارے اسکول ماسٹر بچوں کے مڈ ڈے میل پر پہلے خود جھپٹتے تھے۔ ان بچوں کی تعلیم و تربیت کا وہاں کوئی بھی انتظام ہم نے نہیں دیکھا۔ خالی ایک کُک انہیں کھانا دے دیتا یا پھر ان کی اخلاقی و دیگر تربیت کرتا۔؟
یہ بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس پر سرکار یا متعلقہ محکمہ نے کبھی سوچا ہی نہیں ہوگا۔ اب اس تصویر کا ایک اور عجیب و غریب رُخ دیکھئے۔ ایک روز وہاں آرمی والوں کی ایک جماعت آگئی اور انہوں نے ”آپریشن گُڈ وِل“ کے تحت انہیں بہت سارا سامان دے دیا۔ جیسے ٹی وی، فریج، گیس واشنگ مشین وغیرہ وغیرہ۔ میں بھی وہاں گیا اور آرمی کے نوجوان آفیسر سے کچھ سوالات پوچھنے لگا۔
(۱) سر آپ کو یہ سارا سامان ضلع انتظامیہ یا کم از کم ضلع سوشل ویلفیر آفیسر کی موجودگی میں دے دینا چاہئے او اس سارے سامان کا رسید ان سے لے لینا چاہئے اور اپنے سامنے رجسٹریوں میں اس کا باضابطہ اندراج بھی کروانا چاہئے۔ جس طریقے سے آپ نے یہ سامان انہیں دے دیا، کیا پتہ کل یہ لوگ اس کو اپنے استعمال کے لئے گھر لے جائیں گے۔ انہوں نے میری بات مان لی اور اس کو درج کرواکے نقل کاپی ضلع آفیسر کو بھی بھیج دی۔
(۲) دوسری بات میں نے انہیں یہ کہی کہ آپ نے ان یتیم بچوں کو جو سامان دے دیا وہ دسارا لکشری آئٹموں میں آتا ہے۔ یہ یتیم خانہ ان کا مستقل گھر نہیں ہے۔ میٹرک کے ساتھ ہی انہیں یہاں سے نکالا جاتا ہے۔ انہیں ان چیزوں کی عادت پڑ جائے گی پھر انہیں دو وقت کا کھانا نہیںملے گا۔ کتنا بہتر یہ ہوتا کہ اگر آپ ان کی پڑھائی اور Skill Development کا کچھ بندو بست کراتے۔ یہ سارا پیسہ ان کے اچھے ٹیوشن، کمپیوٹر کورس، یا کسی Skill کورس، ان کے آنے جانے، ان کے ہیلتھ چیک اپ، ان کی اخلاقی تربیت کے لئے (صبح یا شام ان کے پاس ایک استاد آجاتا) خرچ ہو جاتا تو اسی کو ہم ”گُڈ ول“ مانتے۔۔۔؟
صاحبو!
میں نے اوپر تین حقیقی کہانیاں بیان کیں۔ یوں تو میں فکشن نگار ہوں، مگر یہاں ان کہانیوں کو حقیقت کے ہی رنگ میں اس لئے پیش کیا گیا ہے، تاکہ آپ لوگوں کو میرا موضوع سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آجائے گی۔ پھر بھی میں کچھ باتوں کی خود وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔
یتیم ہونا یا زندگی میں کسی طرح کے حالات سے دوچار ہونا ایک فطری بات ہے، لیکن ان حالات سے لڑنے کے لئے ہمیں سامان خود پیدا کر لینا چاہئے۔ اس لئے سب سے پہلے میں نے ممبئی کے ایک لڑکے کی روئیداد پیش کی۔ واقعی اقبال نے کہا ہے کہ ”خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے“۔ اگر آج زندگی میں معاشی، تعلیمی سیکورٹی کے لئے اچھی اچھی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں اور پھر یتیم بے سہارا یا اس قسم کے دیگر لوگوں کے لئے اچھی اچھی سوسائٹیاں اور ادارے بنائے جاتے ہیں، جو واقعی اپنے کام کے اچھے نتائج پیش کرتے ہیں ہم کیوں انہیں ٹیڑھی نظروں سے دیکھتے ہیں!
دوسری کہانی کشمیر کی وہ تلخ حقیقت بیان کرتی ہے جس میں یہاں ہزاروں بے گناہ کچھ اپنوں کے ہاتھوں اور کچھ غیروں کے ہاتھوں مارے گئے۔ پھر ان کی فیملیز کے ساتھ کیا کیا ہوا وہ بھی الگ ایک طویل داستاں ہے۔ یتیم بچوں کے لئے مختلف اسکیمیں بنائی گئی مگر ان کے دور رس نتائج برآمد ثابت نہ ہوسکے۔ سرکاری یا عوامی سطح پر جو کچھ دے دیا گیا وہ مستحق افراد تک نہیں پہنچ سکا۔ کپواڑہ کے ثناءاللہ بٹ مقتول کی نوکری بڈگام کے دوسرے ثناءاللہ بٹ نامی شخص (جو کہ زندہ ہے) کی بیٹی کو دے دی گئی۔ اسی طرح پاکستان، بنگلہ دیش، ایران، عرب و دیگر مسلم ممالک میں کشمیر کے شہیدوں کے بچوں کے لئے ان کے پروفیشنل کالجوں میں نشستیں مختص رکھی گئی۔ لیکن وہ بچے یہاں در در کی ٹھوکریں کھاتے رہے اور ان کی جگہ ہمارے حریت والوں نے اپنے بچوں کو وہاں بھیجا، اتنا ہی نہیں ان میڈیکل انجینئرنگ سیٹوں کی یہاں باضابطہ خرید و فروخت بھی ہوئی۔؟
آخری کہانی میں ہم نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ سرکار ہر کام کے لئے پیسہ تو خوب دیتی ہے لیکن ان کی پالیسی کو ٹھیک طرح سے چلانے والے کارندے موجود نہیں ہوتے ہیں، وہی یا تو ان روپیوں سے اپنے گھر بھرتے ہیںیا پھر عوام کے لئے غلط طریقے سے اس کا استعمال کرتے ہیں۔
کشمیر میں پچھلے کئی سالوں کے نامساعد حالات کی وجہ سے یا پھر دوسرے کئی آفات سماوی کی وجہ سے یا فطری اموات حادثوں کی وجہ سے یتیموں اور بے سہارا لوگوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔ ہمارے یہاں یتیم خانے اور دیگر اداروں کی کمی نہیں ہے اور سبھی لوگ ماشاءاللہ اچھا خاصا کام بھی کرر ہے ہیں۔ کیوں نہ ہم ان کا بھرپور تعاون کرلیں تاکہ ہمارے یہ بچے کل زندگی میں پریشان نہ ہوں۔ جس طرح ہم اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے فکر مند رہتے ہیں ٹھیک اسی طرح اپنی قوم کے تمام بچوں کی بھی فکر کرلیں اور اس حدیث پر عمل پیرا ہوں گے کہ جس شخص نے ایک یتیم بچے کے سر پر ہاتھ رکھا، روز محشر میں اس کو اتنے ثواب ملیں گے جتنے کہ اس بچے کے سر پر بال ہوں گے!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں