”اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو،اللہ کے رسول کی اطاعت کرو اور تم میں سے جو صاحب اختیار ہیں، ان کی اطاعت کرو اور اگر تم میں اختلاف ہو تو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف لوٹ آو، اگر تم اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی تمہارے لئے بہتر ہے ،“(سورةالنساء۵۹) صاف اور واضح پیغام یہ ملتا ہے کہ اسلام منقسم وفاداری کو مسترد کرتا ہے، آدھا تیتر اور آدھا بٹیر والا معاملہ کسی بھی صورت نظام شریعت میں قبول نہیں ، اس لئے اس بات کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں کہ اللہ کو خالق و مالک کائنات بھی تسلیم کرے اور ریاست کو اعلیٰ ترین مختار بھی تسلیم کرے، ظاہر ہے کہ اعلیٰ ترین اختیار اللہ ہی کا ہے نہ کہ کسی اور کا،، ”کہہ دو میری نماز، میری قربانی، اور میرا مرنا جینا سب اللہ ہی کے لئے ہے جو دونوں جہانوں کا خالق و مالک ہے “(سورةالانعام ۱۶۲)۔
تاریخی طور پر جائزہ لیا جائے تو یورپ نے اسلامی ریاست کا یہ تصور ہی ختم کردیا اور اس کا بھی اہتمام کیا کہ کبھی اور کسی ملک میں اسلامی ریاست اور اس کا تصور بحال ہی نہ ہو ،، ایک طویل مدت سے کہیں کہیں کوششوں کے باوجود اسلامی ریاست بحال نہیں ہوپارہی اس کی وجوہات یہ ہیں کہ حجاز پر تسلط کی حامل سعودی حکومت کبھی خلافت کو بحال نہیں ہونے دے گی اور کہیں اور سے خلافت بحال کرنے کی کوشش حرمین شریف تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے ناکام ہی ہوگی۔ عصری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ سعودی حکومت نے ہمیشہ اور ہر وقت ان تحریکوں کو کچلنے اور دبانے میں اپنا زور دار کردار ادا کیا جو اسلامی نظام حیات کی بات کررہی تھیں اخوان المسلمون اورماضی قریب میں عرب امارات میں اسلامی تحریکیں جنہیں عرب بہارکے نام سے موسوم کیا گیا ‘ان تحریکوں کو ختم کرنے کے لئے اور بادشاہی اور غیر اسلامی نظام کو مسلمانوں کے سروں پر مسلط رکھنے کے لئے سعودی حکومت نے ان تحریکوںاور ان کے رہبروں کو کچلنے میں پیٹرول ڈالرس کی ندیاں بہادیں۔
اصل معاملہ یہ ہے کہ یورپ نے خلافت کو کئی وجوہات کی بِنا پر اپنی راہ کا کانٹا سمجھا اور اس بات کا تہیہ کیا کہ اب کہیں اور زمین کے کسی بھی خطے میں خلافت کانظام قائم نہیں ہونے دینا ہے ، اور اس کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں تھا کہ یہودیوں کو ارض مقدس میں اور پھر سعودی سر زمین پر بسایا جائے اور تمام عالم اور انسانیت کو لادینی، سیکولر اور خدا بیزار شرک و فتنہ فساد میں مبتلا کیا جائے ۔
تاریخ بتاتی ہے کہ خلافت کا خاتمہ ترکی کے لئے سیکولر ترکی پر منتج ہوا اور اسلام کے قلب سے (حجازمقدس میں) سعودی عرب کی مطلق العنان ریاست ابھر کر سامنے آئی، ۱۹۱۶ میں برطانوی حکومت اور عبدالعزیزابن سعود کے درمیان معاہدہ ہوا اور برطانوی حکومت کو اس کی قیمت صرف ۵۰۰۰ برطانوی پاونڈ استرلنگ فی ماہ ادا کرنے پڑے اور دوسری طرف شریف مکہ جو ترکی کے گورنر تھے کے ساتھ بھی معاہدہ کیا جس سے ترکی حکومت سے بغاوت کرنے پر ۷ملین پاونڈ اسٹر لنگ ر قم ادا کی گئی، جس نے برطانیہ کو اپنے عزائم میں کامیاب کردیا، یہ سب نئی مملکتیں اسلام کے پردوں میں بادشاہت اور اندرون خانہ سیکولر خدوخال رکھتی تھی کیونکہ یہ ریاست سودی اور دوسرے معاشرتی قوانین کے ستونوں پر کھڑی تھیں اور اب یہ پوشیدہ خدوخال محمد بن سلیمان کے عہد میںپوری طرح واضح اور عیان ہوکر سامنے آرہے ہیں جس میں اسرائیل کے ساتھ نہ صرف مفاہمت شامل ہے بلکہ اسرائیلیوں کو سعودی عربیہ میں باضابطہ شہریت دینے کی باتیں تک ہورہی ہیں اور یہ دور اس لحاظ سے بھی عالم اسلام کے لئے المیہ سے کم نہیں کہ وہ ساری چیزیں حلال ٹھہرائی جارہی ہیں جن کا اسلام کے ساتھ دور کا واسطہ بھی نہیں،ماڈر نائزیشن کے نام پر شراب خانے، تفریح گھر،سینما، مغرب ہی کے انداز کا مخلوط نظام حیات وغیرہ اور ہر شعبے میں یورپی تقلید، یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ اپنے آپ کو حرمین شریف کے خادمین کہنے والے حکمراں ”اسلام کے ساتھ کس قدر ہم آہنگی اور انسیت رکھتے ہیں؟ ،،
اسلامی نظام حیات کے خدوخال نظام خلافت پر مبنی ہوتے ہیں، خلافت موروثی نہیں ہوتی، اس کا اعلان حضرت امام حسین ؓنے میدان کربلا میں اپنا اور اپنے سارے گھرانے کے سر کٹواکر کیا ، خلیفہ کا کام نظام اسلام قائم کرنا اور ساری رعایا کے لئے انصاف و عدل قائم کرنا ہے ، عدلیہ حاکم ا ور حکومت سے آزاد ہوتی ہے اور کسی بھی وقت خلیفةالوقت کو بھی کسی بھی معمولی آدمی کی شکایت پر کٹہرے میں جوابدہی کے لئے کھڑا ہونا پڑتا ہے،، یہ اسلامی ریاست کا تصور ہے اور ان ہی خطوط پر قرونِ اولیٰ کی اسلامی ریاستیں قائم تھیں ،عصر حاضر میں دنیا کاکوئی مسلم اکثریتی ملک اس کسوٹی پر پورا نہیں اترتا بشمول پاکستان کے۔
اب حا لیہ تبلیغی جماعت سے متعلق سعودی فیصلے سے اگرچہ مسلم دنیا متحیر ہے لیکن غیر مسلم بھی اس فیصلے پر اپنی حیرت کا اظہار کر رہے ہیں کیونکہ جہاں تک تبلیغی جماعت کا تعلق ہے ا ن کی دینی خدمات سے متعلق اسلامی ممالک اور مسلمانوں کے اندر بھی کئی نقطہ نظر سامنے آتے رہے ہیں ، اور دنیا کی کسی بھی غیر مسلم سرکار نے تبلیغی جماعت پر کوئی پابندی نہیں کی ہے اور دیکھا جائے تو بہت ساری سرکاریں اور ممالک اس جماعت کے لئے کئی طرح کی سہولیات بھی بہم رکھتی ہیں، کیونکہ ایک بہت بڑی جماعت مسلمانوں میں ایسی ہے جو سمجھتی ہے کہ تبلیغی جماعت زمینی سطح پر مسجدوں ، جنت و جہنم اور محلہ وار گشت تک محدود ہوکر دنیا کے انقلا بات، سائنس و ٹیکنالوجی کے پس منظر میں اسلامی مملکتوں کے تقاضے، کفر کی سازشوں اور بین الاقوامی اسلام دشمن اور مسلم دشمن منصوبوں پر نہ تو کبھی بات کرتی ہے اور نہ انہیں سمجھنے اور مستقبل کے لئے ان کے اثرات ہی کے بارے میں زباں کھولتی ہے، عظمت خان نے کئی برس مذہبی جماعتوں سے متعلق معلومات بہم پہنچائی ہیں ، ان کا خیال ہے کہ تبلیغی جماعت کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں رکھتی ،یہ لوگ سیاست میں ملوث نہیں ہوتے، بظاہر اسلام کی بات کرتے ہیں جس میں لوگوں کو کلمہ ، نماز اور عربی میں دعائیں یاد کراتے اور قرآن سکھاتے ہیں، ایک طرح سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ جماعت دین اور سیاست کو الگ الگ خانوں میں رکھتی ہے ، اور اپنے معاشرے یا سماج میں ابھرتے مسائل سے مکمل دوریاں بنا کر مست مولا قلندروں کی طرح اپنے مراقبوں میں مگن رہتی ہے ، اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ یہ جماعت دنیاکے کئی ممالک میں اب خاصی بڑی تعداد میں موجود ہے، کیونکہ یہ شہادت گاہ الفت میں قدم رکھنے کے قائل ہی نہیں، اس لئے ہر ریاست یہ اچھی طرح سمجھتی اور مانتی ہے کہ یہ لوگ کسی بھی طرح نہ تو سیکولر ممالک کے لئے خطرات کے موجب ہیں اور نہ مسلم بادشاہتوں کے لئے ہی وجہ پریشانی ہے ، ان حالات اور حقائق کے پس منظر میں سعودی فرمانروا کا اس جماعت پر پابندی بے شک حیران کن بھی ہے اور تعجب خیز بھی۔
اخوان اور جماعت اسلامی جیسی تنظیمیں جو دین اور سیاست کو ایک ہی سکے کے دورخ مانتی ہیں اور اس بات کا برملا ایجنڈا رکھتی ہیں کہ( دین سیاست سے جدا ہوتو رہ جاتی ہے چنگیزی ) کے لئے بیر اور پابندیاں سمجھ میں آنے والی باتیں ہیں لیکن سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا فیڈ بیک یا نظریہ تبلیغی جماعت کے متعلق کیا ہے یہ اس پر پابندی عائد کرنے سے واضح ہے، یہ دلچسپ بات ہے کہ بہت پہلے سے تبلیغی جماعت کو جس سے سعودی عربیہ میں ’احباب‘ کے نام پر چلایا جارہا سرکاری سطح پر موافق تنظیموں میں شمار نہیں۔اس کی وجوہات سیوخ سید کے خیال میں اس طرح سے ہیں، سیوخ لکھتے ہیں کہ ” احباب “یعنی تبلیغی جماعت میں بے شمار لوگ سعودی فرمانروا کے شدید مخالف ہیں،تبلیغی جماعت پر پابندی کی یہ بھی ایک وجہ ہے کہ سعودی عربیہ میں اسلام کی تشریح، اسلامی قوانیں و دعوت اور تبلیغ جیسے سارے معاملات کے حقوق سرکاریعنی سعودی شاہوں کے نام محفوظ ہیں ، اور سرکاری اداروں کے بغیر اور شاہوں کی منظوری کے بغیر اور کوئی تشریح ، یا فتویٰ کہیں سے منصہ شہود پر آنے ہی نہیں دیا جاتا ، اخوان اور ان کے لٹریچر پر بھی یہ قدغنیں عائد ہیں، سعودی شاہوں کا فیڈ بیک یہ بھی ہے کہ اس جماعت میں دہشت گرد بھی پیدا ہوتے ہیں ،، یہ سراسر جھوٹ اور بہتان ہے کیونکہ تبلیغی جماعت کے بغیر کچھ تنظیمیں اگرچہ جہد مسلسل کی باتیں کرتی ہیںاور شمشیر و سناں کو ہی بقول علامہ اولین سمجھ کر اس کے بعد طاو¿س و رباب کی بات کرتی ہیں لیکن تبلیغی جماعت میں ایسا کچھ نہیں۔
ان سب باتوں کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سعودی شاہوں نے جو اصلاحات کے نام پر ماڈرنائزیشن شروع کی ہے جو یورپ کی اندھی تقلید کے سوا کچھ نہیں، وہ ان نام نہاد اصلاحات کو بڑی تیزی اور جلدی سے پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتی ہے اور سمجھتی ہے کہ راستے میں بے ضرر اسلامی تنظیموں کو بھی اخوان، جماعت اسلامی اور دوسری اس جیسی تنظیموں کے دائر ے میں رکھ کر ہی اپنے عزائم کی تکمیل آسان اور سہل ہوسکتی ہے تاکہ کسی بھی موڈ پر کہیں سے بھی کوئی ایسی صدائے بازگشت نہ سنائی دے جو محمد بن سلمان کے ارادوں پر کوئی باندھ باندھنے میں معاون ہوسکتی ہو۔۔۔
311