الطاف جمیل شاہ
سوپور کشمیر
( ماضی کے تحفظ میں ہی مستقبل کی نوید سحر پوشیدہ ہے )
وادی کشمیر کا نام لیتے ہی حسین و دلکش نظاروں کا تصور ابھرتا ہے وادی کشمیر اپنے حسن و خوبصورتی کے لئے پوری دنیا میں معروف ہے اس کے کہسار اونچے پہاڑوں کا دراز سلسلہ پانی کے چشمے معروف دریا وار جھیل جو پانی کے ذخائر سے اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں وادی کے حسن و رعنائیوں کے درمیان اس کے مکین بھی کافی جاذب نظر اور مختلف تہذیبِی و ثقافتی روایات کے امین و پاسدار ہیں اس خطئہ ارضی کہ تاریخ بڑی پرانی ہے خیر
اسلام کی آمد
پوری دنیا پیغمبر اسلام محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین سے سیراب ہورہی تھی داعیان اسلام مختلف ممالک کے اسفار کرتے دعوت دیں کے اغراض و مقاصد کے لئے جس کو جہاں کی اور اللہ نے چاہا پہنچا دیا یہ دعوتی فریضہ انجام دینے کے لئے ہمارے ان پاکیزہ صفات سے مزین روحانی کمالات اور علمی رموز و نکات کے پیکر انتہائی قسم پرسی اور تنگ دستی کے باوجود قریہ قریہ شہر شہر جاتے وادی کشمیر گرچہ اس وقت بھی عالمی سطح پر معروف تھی جس کے اسباب مختلف تھے پر دین اسلام کی مبارک تعلیمات اس کے گلستانوں سے کافی دور تھی کہ اک پاکیزہ روحانی شخصیت عبدالرحمن بلبل شاہ ؒ نے اس وادی کشمیر کے ظلمت کدے میں صدائے لا الہ الا اللہ بلند کی کافی عرصہ بیت گیا کہ ایران کے معروف علاقے ہمدان سے اک بزرگ نے رخت سفر باندھ لیا اور دعوت دین کے جذبہ سے سرشار انسانی زندگیوں کو منور کرنے وادی کشمیر وارد ہوئے یہ ان کا پہلا سفر تھا وادی کشمیر کے سادہ مزاج لوگوں نے یہاں کے حسن و رعنائیوں نے داعی اسلام کو خاصا متاثر کیا نتیجہ یہ کہ انہوں نے وادی کشمیر کو اپنی دعوت و اصلاح کا ہدف بنالیا اور مسلسل کوشاں رہے کہ اس خوبصورت وادی میں اللہ کے بندوں کو اللہ سے جوڑا جائے اس پر حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ یوں تعارفی خاکہ پیش کرتے ہیں
میر سید علی ہمدانی رحمہ اللہ کی غیرت
” حضرت امیر کبیر میر سید علی ہمدانی قدس سرۂ عارف باللہ تھے، ولی کامل تھے، عاشق خدا تھے، عاشق رسول تھے، خداشناس، دین کے مزاج آشنا اور نبّاض تھے، اس لئے آپ کو دین کے بارے میں غیرت بھی ایسی تھی کہ لاکھوں، کروڑوں آدمیوں میں ایسی نہیں ہوتی، انہوں نے سنا کہ کشمیر ایک طویل و عریض وادی ہے، وہاں کے لوگ خدا سے نا آشنا ہیں، وہاں خدا کی ذات کے سوا، خالق کائنات کے سوا، وحدہ لاشریک کے سوا بہت سی چیزیں پوجی جارہی ہیں، اصنام کی پرستش ہوتی ہے، کچھ چیزیں زمین کے اندر ہیں، کچھ زمین کے اوپر ہیں، کچھ کھڑی ہیں، کچھ لیٹی ہیں، لوگوں نے جس میں ذرا سی طاقت دیکھی ، نفع و نقصان پہنچانے کی صلاحیت بھی، کوئی خصوصی امتیاز دیکھا، ذرا سا حسن و جمال دیکھا، اسی کے سامنے جھک گئے ، میرا خیال ہے کہ اگر وہ یہاں نہ آتے تو شاید خدا اور اس کا رسول ان کا دامن گیر نہ ہوتا، اس لئے کہ وہ جہاں رہتے تھے، وہاں سے لے کر اس وادی کشمیر تک بڑے بڑے دین کے روحانی مراکز تھے، جہاں ہزاروں عالم، سیکڑوں مدرسے اور خانقاہیں تھیں، لیکن عالی ہمت یہ نہیں دیکھتے کہ تنہا ہم پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے یانہیں؟ وہ اس فریضہ کو اپنا زاتی فریضہ سمجھ لیتے ہیں ،ہزار کوئی ان کو روکے، ان کے راستہ پر ہزار کوئی رکاوٹیں کھڑی کر دے، پہاڑ ان کے راستہ میں حائل ہوں، دریا سدِ راہ ہوں، وہ کسی کی بھی پروا نہیں کرتے ،
سید علی ہمدانی نے صاف محسوس کیا کہ میں عند الله جواب دہ ہوں، میدان حشر سامنے ہے، عرشِ خداوندی موجود ہے، اس کے سایہ رحمت میں انبیاء و اولیاء کھڑے ہیں، اور وہاں سے سوال ہوتا ہے کہ سید علی ! تم کو علم تھا کہ میری پیدا کی ہوئی زمین کے ایک خطہ میں غیر اللہ کی پرستش ہورہی ہے، غیر اللہ کے سامنے دست سوال دراز کئے جارہے ہیں، دامن مراد پھیلائے جارہے ہیں تم نے ان کو کیسے برداشت کیا؟ میر سید علی ہمدانی کے سامنے تو یہ منظر تھا، اگر ساری دنیا کے علماء وحکماء جمع ہو کر سمجھاتے کہ حضرت! آپ سے سوال نہیں ہوگا لیکن وہ کہتے کہ نہیں! مجھ ہی سے یہ سوال ہوگا، میری غیرت یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ اللہ کی لمبی چوڑی زمین کے ایک چھوٹے سے خطے میں بھی غیراللہ کی پرستش ہو، غیر اللہ سے خوف و رجاء کا معاملہ ہو، انسانوں کو (خواہ زندہ ہوں، خواہ مردہ) قسمت کا بنانے اور بگاڑنے والا سمجھا جاتا ہو، اولاد اور رزق دینے والا باور کیا جاتا ہو، ان کو ہر وقت اور ہر جگہ حاضر وناظر جانتے ہوں، اگر مجھے معلوم ہوگیا کہ قطب شمالی میں یا قطب جنوبی میں یا ہمالہ کی بلند و سبز چوٹی پر ایک تنفس بھی ایسا ہے، جو غیراللہ کی پرستش کررہا ہے، غیراللہ کو نافع وضار سمجھتا ہے، غیر اللہ کو اس کائنات پر حکومت کرنے والا سمجھتا ہے، تو میرا فرض ہے کہ میں وہاں پہنچوں اور اللہ کا پیغام پہنچاؤں۔“( اسلام کے تین بنیادی عقائد / صفحہ 49،50 )
آپ کا دعوتی اسلوب
آپ کی تعلیمات قرآن’ حدیث اور صحابہ کرام کی سیرت کا آئینہ ہیں – آپ نے علمی مضامین میں تحقیق و تفحص سے کام لیا ہے – آپ پہلے قرآن و حدیث سے رجوع کرتے ہیں- آپ نے اختلافی و فروعی’ الہیانی و کلامی مباحث سے تعرض نہیں کیا ہے – مختصرا یہ کہ آپ کی دعوت و تصانیف اسلامی علم وادب اور ثقافت و فکر کا ایک نہایت ہی گرانقدر سرمایہ ہیں- ان میں ایسے حقائق و معارف پیش کئے گئے ہیں کہ جس کی حقانیت اور افادیت واضح ہے –ان میں صالح ذوق رکھنے والے سالک راہ حق کیلئے نقوش ہدایت و رشد کا وافر ذخیرہ موجود ہے- ان کی معروف کتاب ذخیرۃ الملوک ‘ اور وظائف پر مشتمل اوراد فتحیہ ‘ وغیرہ ان کتب کے مطالعہ سے یہ بات بھی عیاں ہوجاتی ہے کہ داعی اسلام صرف درویش خدا مست نہ تھے نہ ہی وہ کوئی فقیر قسم کے انسان تھے ان کا تبحر علمی اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ اپنے زمانے کے جہاں صاحب تصوف و خانقاہی مزاج کے اعلی پائے کے صوفی بزرگ تھے وہیں وہ جبال العلم کے منصب پر بھی فائز تھے جس کا سب سے بڑا ثبوت ان کی علمی خدمات ہیں انہوں نے اپنی دعوت کو صرف زبان سے بیان نہیں کیا بلکہ رشحات قلمی سے اوراق کے دفاتر سجائے اور بندگان خدا کی وہ اصلاحی کاوشیں انجام دیں کہ وادی کشمیر کا اکثریتی طبقہ اہل ایمان کا ہوگیا اور اب یہاں سے صدائے لا الہ الا اللہ کا ترانہ پوری وادی میں گونجنے لگا یہ ان کہ خداداد محنت کا ثمر ہے کہ آج وادی کے اطراف و اکناف میں اسلام کے ماننے والے موجود ہیں یہیں پر اکتفاء نہیں ہوا دوران سفر امیر کبیر حضرت شاہ ہمدانؒ نے اسلام کی نمایاں خدمات انجام دیں۔ آپ اٹھویں صدی ہجری کے ایک کامل عارف اور تیزبین مبلغ تھے۔ ہمدان سے کشمیر تک بجز امیر تیمور تمام بادشاہ و امراء ان کے معتقد و عقیدت مند تھے۔
شاہ ہمدان نے صرف تبلیغ اسلام پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ کشمیری مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور تعلیم و تربیت کے ضمن میں بھی ٹھوس خدمات انجام دی ہیں۔ کشمیر کی صنعتوں کو ان کی سفارش سے سرکاری سرپرستی حاصل ہوئی اور نیم مردہ صنعتیں دوبارہ نشوو نما پانے لگیں۔ انہوں نے وادی میں وسط ایشیا اور ایران کے ماہر اور تجربہ کار کاریگروں، فن کاروں اور دست کاروں کی ایک بڑی تعداد لا کر آباد کی جنہوں نے علوم و فنون میں عوام کی رہنمائی کی اور وادی میں پشمینہ سازی، قالین بافی، شال بافی، جالک دوزی، سوزن کاری، جلد سازی،چاندی اور تانبے کے ظروف، لکڑی پر نقش سازی، چکن دوزی اور کاغذ سازی کو رواج دیا۔ علم و ادب اور فن خطاطی کی ترویج وسرپرستی کے ساتھ ساتھ کشمیر میں کاغذ سازی کی صنعت کا تعارف بھی سیّد علی ہمدانی اور ان کے دیگر رفقا کی کشمیر میں آمد کے ساتھ ہی شروع ہوئی۔ انہوں نے مذہبی و ثقافتی میدان میں علی ہمدانی کو کشمیر کے مفصل حالات سے آگاہ کیا۔ مرکزی ایشیا اور کشمیر کے روحانی روابط کا سب سے بڑا ذریعہ میر سید علی ہمدانی ہی ہیں۔ وہ ایک عظیم داعی اسلام تھے۔ اور مختلف اسلامی ممالک کی سیر و سیاحت سے جو سماجی تہذیبی روایات کے پاکیزہ اثرات ان کی شخصیت پر غالب تھے وہ تمام سماجی تہزیبی ثقافتی روایات کشمیر کے معاشرے میں سرایت ہوتے گئے ہوں یہاں کا ثقافتی اور سماجی افکار و نظریات اسلامی دنیا کا عکس بنتا گیا
شاہ ہمدان رحمۃ اللہ علیہ ایک کثیر الجہت ہستی تھے۔ وہ ایک مبلغ تھے تو ساتھ ہی سماجی و فلاحی شخصیت بھی۔ انہوں نے کشمیر میں اسلام شناسی اور تبلیغ دین کا نیا انداز سکھلایا، دین مبین میں داخل ہونے والوں کے ایمان و عقائد کو مضبوط کیا۔ انہوں نے ان کی کردار سازی میں اہم کردار ادا کیا۔ ساتھ ہی انہوں نے اسلام کو ایک منظم نظام حیات کے طور پر ثابت کیا۔
مساجد و خانقاہوں کی تعمیر
کشمیر میں جناب امیر کبیر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک نہایت ہی منظم انداز میں اسلام کی تبلیغ شروع کردی۔ ان کے پیروکاروں نے علاقے کے اہم گزرگاہوں اور مقامات پر مساجد کی تعمیر میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کا بھرپور ساتھ دیا۔ ان مشہور مساجد میں دریائے جہلم کے کنارے واقعہ خانقاہ معلی ، درگاہ شاہ ہمدان سری نگر و دیگر شامل ہیں۔
آپؒ نے ہمیشہ کیلئے کشمیر میں پڑاؤ نہیں ڈالا بلکہ مختلف اور مناسب مواقع پر اس علاقے کا دورہ فرماتے رہے ۔ آپؒ نے اپنے تمام مریدین کو مساجد میں ائمہ جمعہ و جماعت کی ذمہ داریاں دے کر وہاں سکونت پذیر کردیا اور خود تمام معاملات کی نگرانی فرماتے رہے ۔ ان کی تعمیر کردہ خانقاہیں فن تعمیر کی شاہکار ہیں ، دیواروں میں لکڑیوں کا استعمال ، کھڑکیوں ، دروازوں اور روشندانوں میں لکڑی پر تزئین و آرائش کا انتہائی حسین فن آٹھویں صدی ہجری میں فن نقش نگاری کے عروج کو ظاہر کرتا ہے ۔ یہ مساجد و خانقاہیں یہاں کے عوام کے لئے دینی تربیت گاہیں بھی تھیں اور مختلف مواقع کی مناسبت سے یہاں ذکر و اذکار کی مجالس بھی ہوا کرتی تھی ان سے منسوب کئی مساجد و خانقاہیں اب بھی اہل بصیرت کو اپنے سحر میں گرفتار کرلیتی ہیں جہاں کے نقش و نگار سے زیادہ روحانی تسکین میسر رہتی ہے ہمیشہ یہ خانقاہیں یہ مساجد یا ان کی یادگاریں ہمارے لئے تسکین قلب و جگر ہیں۔
آج کا دن
آج ۶ ذی الحج جو کہ ان کہ وفات کے دن سے معروف ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دہانی کراتے ہے جس تہذیب و ثقافت سے تم اب اپنی بقاء و سلامتی کا نام بنائے ہوئے ہو وہ سب امیر کبیر حضرت میر سید علی ہمدانی رحمہ اللہ کی لائی ہوئی ہے اللہ نہ کرے گر ہم نے اپنی کوتاہ طبیعت کے سبب سے اپنے اس مرشد و رہنما کی خدمات کو باقی رکھنے کے لئے کوشش نہ کی ۔ تو یاد رکھیں ہماری تہذیب و ثقافت اپنی موت آپ ہی مر جائے گئی ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلکی افراط و تفریط سے بلند ہوکر داعی اسلام کی خدمات کو عوام تک خاص کر اپنی نسل نو تک پہنچانے ہمارا دینی فریضہ بھی ہے اور اپنے تہذیبی و ثقافتی روایات کی بقاء کا ضامن بھی اس سلسلے میں کئی ادارے کام کر رہے ہیں جن کی کاوشیں لائق تحسین ہیں
شاہمدان اکیڈمی سینٹر جموں و کشمیر
اس سینٹر کی بنیاد آج سے ٹھیک ایک سال پہلے فروری ۲۰۲۱ میں برزلہ باغات سرینگر میں رکھی گی بنیاد پڑھنے کے ساتھ ہی یہ ادارہ متحرک ہوا اپنے کام کے لئے جس کا بنیادی ہدف یہی ہے کہ بانی اسلام کی تعلیمات ان کے نظریات ان کا شخصی خاکہ ان کی تصانیف کو اپنی نسل نو تک منتقل کیا جائے اس سلسلے میں اکیڈمی نے اس ایک سال کی قلیل مدت میں چار بڑے سیمنار مختلف جگہوں پر کئے اس کے علاوہ ایک تحریری مسابقہ کا بھی انعقاد ہوا جس میں کئی اہل قلم نے اپنی نگارشات پیش کی اب ان نگارشات کو کتابی شکل دینے کیلئے ادارہ کوشاں ہے اس کے علاوہ کشمیر میں معروف اور چنیدہ شخصیات سے ملاقاتیں انفرادی طور پر کی اور مسلسل اس کوشش میں مصروف ہے کہ نسل نو اپنے آباء کی نسبت پر فخر محسوس کرے جس کے لئے لازم ہے کہ نسل نو کو ان کا تعارف کرایا جائے ہم دل سے اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہمارے اسلاف میں وادی کشمیر میں جو امام کی حیثیت رکھتے ہیں انہیں کو امیر کبیر میر سید علی ہمدانی ؒ کہتے ہیں آئے ہم سب مل کر ان کی تعلیمات کی نشرو اشاعت میں اپنا حصہ ڈال دیں کیوں کہ تاریخ ان اقوام کو فراموش کردیتی ہے اور انہیں اپنے اوراق میں باغی و خائن کے نام سے ہی یاد کرتی ہے جو اپنے ماضی کو دھندلا کرکے اپنے مستقبل کی اور دوڑ لگائے رکھتے ہیں پر ہمارے لئے درس اسلامی یہی ہے کہ ماضی کے تحفظ میں ہی مستقبل کی بقاء پوشیدہ ہے