179

افسانہ: گند کے کیڑے

فاضل شفیع بٹ
اکنگام انت ناگ

صارم کے گھر کافی چہل پہل ہے۔ شام کا وقت ہے اور ہوا میں تھوڑی تھوڑی خنکی بھی ہے۔ گھر میں شادی کا ماحول ہے اور سارا گھر رنگ برنگی روشنیوں سے سج گیا ہے۔ پکوان کی ہلکی ہلکی خوشبو آنی شروع ہو گئی ہے۔ آج صارم کی بڑی بیٹی نصرت کی مہندی رات ہے۔ دیر رات تک دور دور سے رشتہ داروں کے آنے کا سلسلہ جاری رہا۔ خواتین جوش و خروش سے گیت گانے میں مصروف ہیں اور مرد روایتی گیتوں سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ اس پورے سماں کو اپنے اپنے موبائل فونوں میں قید کر رہے ہیں۔ بہت سالوں بعد آپس میں اتنے رشتہ داروں کا ایک ساتھ ملن ہوا ہے۔ کچھ رشتہ دار ایک دوسرے کو جاننے سے قاصر ہیں کیونکہ پہلی بار تعارف ہو رہا ہے اور اس لئے بھی کہ اب رشتہ داروں کے گھر آنے جانے کا رواج ختم ہو چکا ہے۔ اب رشتہ دار کسی غم یا خوشی کے موقعے پر ہی ایک دوسرے سے ملاقی ہوتے ہیں۔ محبتوں کا زمانہ بیت چکا ہے۔
شامی بھی شادی میں آیا ہوا ہے۔ جو مجید کا دور کا رشتہ دار ہے اور مجید ہی کے قصبے میں ایک کالونی میں رہتا ہے۔ شامی پیشے سے ایک شکاری ہے۔ وہ جانوروں کا شکار تو نہیں بلکہ کم سن اور باکرہ لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر اپنے جال میں پھانسنے کا خوب فن رکھتا ہے اور کمسن لڑکیوں کو دیکھ کر اس پر ایک طرح کی دیوانگی چھا جاتی ہے۔ وہ گدھ کی طرح حرام پر پلنے والا ایک انسان ہے۔ جس طرح گدھ کی سرشت میں مردہ جانوروں کے جسم سے اپنا پیٹ پالنا ہے، ٹھیک اسی طرح شامی شادی کے حلال رشتے سے بھاگ کر حرام اور ناجائز تعلقات کا رسیا ہوچکا ہے۔
سارے رشتہ دار اکٹھے ہوئے ہیں اور آپس میں جان پہچان کرنے میں مصروف ہیں۔ دلہن نصرت کا چچا مجید اور اس کے دور کا رشتہ دار شامی آپس میں باتیں کر رہے ہیں۔ شامی اپنے بچپن میں کبھی کبھار مجید کے گھر آتا جاتا تھا۔ دونوں کا فون وغیرہ پر رابطہ رہتا تھا۔ وہ بہت سالوں سے ایک دوسرے سے گھر میں نہیں ملے تھے۔ شامی مجید سے باتیں کرنے میں محو تھا۔ اس کی نظریں حسبِ عادت شکار کی متلاشی تھیں۔ وہ ہر سمت اپنی نظریں دوڑا رہا تھا۔ اسی اثناء میں مجید کی کمسن بیٹی عالیہ جس کی عمر پندرہ برس کے قریب رہی ہوگی، اپنے پاپا کو بلانے کی غرض سے دوڑتی ہوئی آئی۔
” پاپا، پاپا۔۔!! ممی آپ کو بلا رہی ہیں۔ ” عالیہ نے اپنے باپ مجید سے مخاطب ہو کر بولا۔
عالیہ معصوم ہونے کے ساتھ ساتھ بہت خوبصورت تھی۔ اس کی آنکھوں میں ایک مقناطیسی کشش تھی۔ عالیہ پر نظر پڑتے ہی شامی کی تلاش اپنی تکمیل کو پہنچی اور اس کے اندر کا شیطان پھر سے زندہ ہوگیا۔
شامی عالیہ کو اپنے جال میں پھانسنے کے لیے بے چین ہو گیا۔ موقع ملتے ہی شامی نے عالیہ کو بلا لیا اور اس کے ساتھ اِدھر اْدھر کی باتیں کرنے لگا۔ اپنے والد کا قریبی دوست جان کر اور اس کی عمر کو مد نظر رکھ کر عالیہ کے دل و دماغ میں شامی کو لے کر کوئی شک و شبہ پیدا ہونے کی گنجائش نہ تھی۔ عالیہ نے بھی قدرے معصومیت سے شامی انکل کے ہر سوال کا جواب دیا۔ اس رات شامی محض عالیہ کا بھروسہ جیتنے میں کامیاب رہا۔
اگلے دن دوپہر کا وقت ہے۔ شامی کے گھر والے شادی کی تقریب میں محو ہیں اور اس موقعے کا فائدہ اٹھا کر شامی عالیہ کو کتاب دینے کے بہانے اپنے گھر پر لانے میں کامیاب ہوا۔ عالیہ کے ہاتھ میں کتاب تھما کر شامی پر اچانک دیوانگی طاری ہو گئی۔ اس کا جسم کانپنے لگا۔ اس نے معصوم عالیہ کو گلے سے لگایا اور اسے بے تحاشہ چومنے لگا، جیسے ایک بھوکا پیاسا گدھ مردہ جسم میں اپنی چونچ پیوست کر رہا ہو۔ اچانک شامی کے بدلتے برتاؤ سے عالیہ چونک گئی، اس کا وجود تھرتھرانے لگا۔ وہ شامی کی اس بے ہودہ حرکت سے بالکل نا آشنا تھی۔ عالیہ نے زور زور سے چلانا شروع کر دیا۔ عالیہ کی چیخوں سے گھر کے در و دیوار لرز اٹھے لیکن کمسن اور لاچار عالیہ شامی کے وحشیانہ چنگل سے خود کو آزاد نہ کر سکی اور شامی نے ایک معصوم کی عزت تار تار کی۔ اور ایک لٹی پٹی بچی کو دھمکاکر خود ایک وحشی اور خونخوار جانور کی طرح وہیں اپنے گھر میں دھم سادھے پڑا رہا، بالکل اسی طرح جس طرح ایک جنگلی کتا مردار کھاکر بے سدھ ہوجاتا ہے۔
عالیہ کی دنیا لٹ چکی تھی۔ وہ مشکل سے خود پر قابو پاکر شادی کے گھر واپس آئی۔ اس چھوٹی بچی کی سمجھ میں بھی نہیں آرہا تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ وہ مسلسل روئے جا رہی تھی جس کی وجہ سے اس کی آنکھیں سرخ اور متورم تھیں۔ وہ ایک درندے کا شکار ہو چکی تھی۔ عالیہ نے اپنے والد سے سارا واقعہ بیان کیا کہ کس طرح شامی نے اس کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا۔ مجید کے پیروں تلے سے زمین سرک گئی۔ وہ کچھ بولنے کی حالت میں نہ رہا۔ وہ اپنی لخت جگر بیٹی کو گلے سے لگاتے ہوئے زار و قطار رونے لگا۔ مجید شامی کے اس روپ سے بے خبر تھا کیونکہ شامی کو قصبے میں لوگ ایک معتبر شخصیت کی حیثیت سے جانتے تھے۔
اپنی بیٹی کی عزت برقرار رکھنے کے لیے مجید نے پولیس میں شکایت درج کرانا مناسب نہ سمجھا اور اندر ہی اندر ایک ٹھنڈی نہ ہونے والی آگ میں جلنے لگا۔ شادی کا سارا مزہ کرکرا ہوگیا اور اس دوران عالیہ کی ماں کئی دفعہ بے ہوش ہوگئی اور اسی بات کا بہانہ بناکر مجید کا سارا خاندان اپنے گھر واپس آیا۔
مجید کی رگوں میں خون بڑی تیزی سے گردش کر نے لگا اور دوپہر کے وقت پسینے میں شرابور مجید سیدھے شامی کے گھر کی طرف دوڑا۔ مجید نے بنا کچھ بولے شامی کے منہ پر زوردار تھپڑ رسید کیے۔ شامی کی ناک سے خون بہنے لگا۔ شامی نے گردن جھکا ئے ہوئے مجید کے سامنے اپنے گناہ کا اعتراف کیا۔ شامی اپنے کیے پہ پچھتا رہا تھا کیونکہ حرام کھانے کے بعد اس پر دیوانگی اور شیطنت کے دورے آنا بند ہو جاتے تھے۔ شامی زار و قطار رو رہا تھا۔ اس کو اپنی غلطی کا پورا احساس تھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب امڈ آیا اور مجید سے مخاطب ہو کر کہنے لگا:
"مجید میں نے تمہاری کمسن بیٹی کے ساتھ جو وحشیانہ حرکت کی ہے، وہ معاف کرنے کے قابل ہرگز نہیں ہے۔ آپ چاہو تو میری زندگی ختم کر دو، مجھے موت کی سزا منظور ہے۔ پتا نہیں میرے اندر جیسے کوئی شیطانی طاقت ہے جو مجھے بالکل اندھا کردیتی ہے اور میں صحیح اور غلط کی پہچان کھو دیتا ہوں۔ چھوٹی چھوٹی اور خوبصورت سجی سنوری جوانی کی دہلیز پہ کھڑی لڑکیوں کو دیکھ کر میں جیسے پاگل ہوجاتا ہوں۔ میں مسجد کی پہلی صف میں نماز پڑھتا ہوں۔ صدقہ خیرات بھی مسلسل ادا کرتا ہوں لیکن پتہ نہیں کیوں میرے جسم کو حرام کھانے کی عادت ہو گئی ہے۔ میرے جسم کے اندر ایسا خون ہے جو کسی کمسن لڑکی کو دیکھ کر ابلنا شروع ہوتا ہے۔ جس طرح گدھ کسی مردہ جسم کو دیکھ کر راحت کی سانس لیتا ہے، ٹھیک اسی طرح کم سن لڑکیوں کو اپنے قرب میں لا کر مجھے سکون ملتا ہے۔ مجید۔۔۔۔!! آپ کو یہ بات سن کر ضرور حیرانی ہوگی کہ میں نے یہ حرکت کئی معصوم لڑکیوں کے ساتھ کئی دفعہ کی ہے۔ جب کئی ماہ تک مجھے شکار کی تلاش میں ناکامی ہوتی ہے تو میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے اور پھر کوئی تمیز نہیں رہتی۔
معصوم اور باکرہ لڑکیوں پر میری نگاہ پڑتے ہی میرے دل سے خوف خدا غائب ہو جاتا ہے۔ میں حرام کے پنجرے میں قید ایک زہریلے اور گندے پنچھی کی طرح اپنی زندگی بسر کر رہا ہوں۔ میں نے بارہا اپنے وجود میں جھانکنے کی کوشش کی لیکن ہر بار مجھے شکستگی کا سامنا کرنا پڑا۔ حرام کھانے کی لت میرے روح پر قابض ہے۔ میں گنہگار ہوں مجید، اب بس موت کا فرشتہ ہی مجھے اس چنگل سے آزاد کر سکتا ہے۔ موت کے بعد انسان کے احساسات،آرزو، سب مٹی میں مل جاتے ہیں۔ مجید آپ مجھے مار ڈالو۔مجھے اس دلدل سے آزاد کر دو مجید۔۔! شامی گڑگڑا کر مجید کے سامنے اپنی موت کی بھیک مانگنے لگا۔
مجید یہ سارا ماجرہ سن کر اچانک چونک گیا۔ اس کو وہ دن یاد آگیا جب اس نے اپنے دوست کی معصوم بیٹی کے ساتھ زبردستی کی تھی۔ اس کے وجود میں ایک کھلبلی ہونے لگی۔ وہ اپنے آپ سوچنے لگا کہ مجھ میں اور شامی میں کوئی فرق نہیں۔
مجید کے خون میں بھی حرام کا کیڑا پل رہا تھا فرق صرف اتنا تھا کہ شامی کو حرام کھانے کی لت لگ چکی تھی اور مجید کے جسم میں وہ کیڑا کبھی کبھار ہی حرکت میں آجاتا تھا۔
"کیا یہ محض مکافاتِ عمل ہے یا کوئی اتفاق” مجید گہری سوچ میں ڈوب گیا اور شامی کو اپنی حالت پر چھوڑ کر سیدھے گھر جاکر اپنی بیٹی کے
پاس آ کر اسے معافی مانگنے لگا۔ مجید شرمسار تھا۔ اس کے گناہوں کی سزا اس کی بیٹی کو بھگتنا پڑی۔ مجید کی بیٹی اور اس کی بیوی حیران تھیں کہ مجید اپنی بیٹی سے کس بات کی معافی مانگ رہا ہے۔ مگر سارے کا سارا گھرایک گہرے صدمے سے گذرا تھا، اس لئے کسی کو کچھ بھی نہیں سوجھ رہا تھا۔
مجید نے اعادہ کیا کہ وہ اس حرام کے کیڑے کو اپنے خون سے نکالنے کے لیے سچے دین کی پیروی کرے گا۔ وہ کسی مردار گدھ کی طرح اپنی زندگی بسر کرنا ترک کردے گا اور ایک مخلص انسان کی حیثیت سے آگے کی زندگی صرف کرے گا۔
شامی اپنی نس کاٹ کر خون بہنے کی وجہ سے ہسپتال میں بے ہوش پڑا ہوا ہے۔ اور عین ممکن ہے کہ شامی کے خون سے وہ گندا کیڑا باہر نکل آئے یا موت ہمیشہ کے لیے ایک درندے کے بدن سے اس گندے کیڑے کو باہر نکالے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں