ناہید طاہر
ریاض،سعودی عرب
آسمان سیاہ چادر تانے خوفناک انداز میں بجلیوں کی چمک اور بادلوں کی کڑک لیے لرزتا ہوا ،ماحول پر دہشت ناک کیفیت طاری کر رکھا تھا ۔ ان ہی ہولناک اندھیروں سے لُطف اندوز ہوتے ہوئے کچھ ناگ اپنی بِلوں سے باہر نکل آئے۔ ماحول نے انھیں بدمست کر رکھا تھا اور وہ تَرَنگ میں تِھرکنے لگے ۔ان کی شَریانوں میں خون کی رفتار تیز ہونے لگی۔وحشتیں عروج پر پہنچیں اور شیطانیت وحشی انداز اختیار کرتی چلی گئی۔
اچانک کہیں سے اڑتی ہوئی ایک ننھی سی چڑیا پھڑپھڑاتی ہوئی زمین پرآگری۔ان ناگوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔۔۔ شیطانیت سے بھرپور قہقہے فضا میں گونج اٹھے۔۔۔۔ شکار جیسے خود چل کر سامنے آگیا تھا۔
چڑیا تھی تو بہت ہی کمسِن ، معصوم لیکن ان حیوانوں کو کوئی فرق نہیں پڑا۔پڑتا بھی کیسے۔۔۔۔بھوک نے انھیں اندھا جو کردیا تھا۔ چڑیا نے سہم کر ان درندوں کو دیکھا۔ سُرخ شَرارَہ ریز آنکھیں ،چڑیا کو لگا وہ جل کر خاک ہوجائے گی۔۔۔
کپکپاتے بدن کے ساتھ اُڑنے کی نا کام کوشش کرنے لگی۔۔۔ افسوس وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکی۔معصوم بہت ہی چھوٹی اور کمزور تھی۔ خالقِ کائنات نے اس کی مکمل تخلیق تو کی تھی مگر کم عمری ایسی جیسے گیلی مٹی کا کوئی کُوزہ ہو۔۔!!
یہی سبب تھا ، وہ اپنا بچاؤ کرنے سے بالکل قاصر رہی۔۔۔۔
وحشی ناگوں نے چڑیا کو للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھا اور ایک دوسرے کو معنی خیز نظروں سے دیکھنے لگے ۔۔۔۔ پھر اُنھوں نے معصوم کو بڑی بےرحمی کے ساتھ دبوچ لیا اور مقدس عبادت گاہ کی پُر سُکُون وادیوں کی جانب بڑھ گئے۔ جہاں صرف امن کی مدھُر بانسری بجائی جاتی ہے ۔ ایک آندھی اٹھی۔۔۔بانسری کی دُھن بدل گئی۔ اب یہاں شیطانیت کا ننگا ناچ ہونے لگا تھا۔۔۔۔۔ بانسری کی طرز پر تمام ناگ مستی میں جھوم رہے تھے
چڑیا کپکپاتے وجود اور خوف ذدہ نگاہوں سے ان وحشیوں کو دیکھتی رہی۔ ناگوں نے پُھنکار بھرتے ہوئے چڑیا کو ڈس لیا۔۔۔۔
وہ معصوم درد سے بِلبِلا اٹھی اورایڑیاں رگڑتی ہوئی چلائی۔۔۔۔
افسوس۔۔۔۔ کوئی مددگار نہیں پہنچا۔ شب کی تاریکی جیسے تڑپ اٹھی اور بڑی بےبسی محسوس کرتی ہوئی سختی سے اپنی آنکھیں موند لی۔۔۔۔۔ آسمان رو رہا تھا۔۔۔ زمین اس کے آنسوؤں سے تر تھی۔۔۔۔ سرد ہوائیں لرزتی ہوئی بےچین۔۔۔۔
کبھی عرش کی جانب لہراجاتیں تو کبھی زمیں بوس ہوکر درختوں کو جڑوں سے جھنجھوڑنے لگتیں۔۔۔۔ سرسبز وشاداب پتے لرز رہے تھے فضا میں عجیب وحشتیں پھیلی ہوئیں تھیں۔ چند ہی ساعتیں گزری نہیں کہ چڑیا کا بدن لہو لہان ، چھلنی ہوگیا۔۔۔۔۔ فضا زہرآلود ہوگئی۔۔۔۔
جس مقدس عبادت گاہ میں کبھی پُر سکون خاموشیاں ۔۔۔۔۔ عبادت کے سائے تلے گنگنایا کرتی تھیں۔۔۔آج اپنے لب سی رکھے تھے۔۔۔۔
معصوم کی درد ناک چیخیں سناٹوں کا سینہ چاک کرتی دم توڑتی چلی گئیں۔ تکلیف کاسایہ موت سے قد آور ہوتا رہا ۔۔۔
اب چڑیا کا بدن مکمل نیلا پڑ چکا تھا۔۔۔ ننھے وجود کے پرخچے اڑ چکے تھے۔۔۔۔کہیں دور کھڑے موت کے فرشتے نے جھرجھری سی لی۔۔۔ نم آنکھیں لیے وہ آگے بڑھا ۔۔۔ معصوم کی تھمی ہوئی سانسوں کو اپنی مٹھی میں قید کرتا ہوا اسے اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا۔ گناہ کی چشم دید گواہ شبِ دیجور بڑی بےبسی سے سسکیاں بھرتی رہ گئی۔