84

امریکہ کرے امن کی بات اور و ہی بنے روکاوٹ بھی!!

جاوید اختر بھارتی
javedbharti508@gmail.com

یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اقوامِ متحدہ میں جنگ بندی تک کی قرارداد نامنظور ہوجاتی ہے اور ان ممالک کے ذریعے نامنظور ہوتی ہے جو پوری دنیا میں امن و امان کی بحالی کے لئے سرگرم عمل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان ممالک میں سرفہرست امریکہ ہے جو بہت زیادہ امن و سلامتی کی بات کرتاہے اور پوری دنیا کو یہ باور کرانا چاہتاہے کہ ہم امن پسند ہیں اور پوری دنیا میں امن چاہتے ہیں، ہم دہشت گردی کے خلاف ہیں ، جنگ و جدال اور قتل وغارت گری کے خلاف ہیں ، ہم پوری دنیا میں خوشحالی چاہتے ہیں لیکن یاد رہے کہ امریکہ اس راستے پر چلتاہے کہ جس راستے اور نظرئیے کا نام ہے ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دیکھانے کے اور۔ چاہے اسرائیل و فلسطین کا معاملہ ہو چاہے روس و یوکرین کا معاملہ ہو زمین کے اوپر اور آسمان کے نیچے دنیا میں کہیں بھی جنگ ہوتی ہے تو خون بہتا ہے تباہی مچتی ہے گودیاں اجڑ تی ہیں آبادیاں کھنڈرات میں تبدیل ہوتی ہیں خوف و دہشت کا ماحول ہوتاہے خاندان کے خاندان موت کے گھاٹ اُترتے ہیں لیکن جنگ بندی ہوجانے کی صورت میں یہ سارے سلسلے بند ہوجاتے ہیں۔ تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد نامنظور کیوں ہوئی اور امریکہ نے ویٹو پاور کا استعمال کیوں کیا۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ امریکہ بار بار کیوں اعلان کررہا ہے کہ ہم اسرائیل کی فوجی امداد کرتے رہیں گے جبکہ اسرائیل انسانیت کا قاتل ہے چھوٹے چھوٹے بچوں کا خون بہا رہا ہے حیوانیت اور درندگی کی ساری حدوں کو پار کررہا ہے پھر بھی امریکہ اس کی حمایت کررہا ہے، پھر کس بنیاد پر وہ امن کا داعی بنتا ہے۔ سلامتی کونسل میں اس نے امن و امان کی بحالی کی بات کی ہوتی اور جنگ بندی کے لئے پہل کی ہوتی اور جنگ بندی ہوجاتی تو غزہ میں خونریزی نہ ہوتی، ہزاروں ہزار کی تعداد میں اموات نہ ہوتی، مکانات مسمار نہ ہوتے، باپ بیٹے سے اور بیٹا باپ سے نہ بچھڑتا، ماں بیٹی سے اور بیٹی ماں سے نہ بچھڑتی ، ہزاروں گودیاں ویران نہ ہوئی ہوتی ، غزہ کی سرزمین خون سے لالہ زار نہ ہوئی ہوتی۔ لیکن امریکہ نے اسرائیل کی پیٹھ تھپتھپائی اور ظالم کی حوصلہ افزائی کی ہے اسلام اور مسلمانوں سے نفرت و دشمنی کا اظہار کیا ہے-
اب آگے یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب جنگ بندی تک کی قرارداد نامنظور ہوجائے تو آخر دنیا کیا چاہتی ہے کہ فضا میں طیارے اڑتے رہیں اور زمین پر بم گراتے رہیں ، لاشوں کے انبار لگتے رہیں، انسانیت دم توڑتی رہے، عوام بھوک و پیاس کا سامنا کرتے ہوئے تڑپ تڑپ کر مرتی رہے ؟ جنگ بندی کی قرارداد نامنظور ہونا تو ان ملکوں کے فریبی چہروں کو بھی بے نقاب کرتی ہے جو دنیا بھر میں گھوم گھوم کر امن کا جھوٹا پیغام دیتے ہیں اور جب خود عمل کرنے کی باری آتی ہے تو امن کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ اب کہا جاتا ہے کہ اسرائیل کے مقابلے مزاحمت کاروں کے اندر کافی مضبوطی ہے ان کا مقابلہ کرنا اور انہیں ختم کرنا آسان نہیں ہے بلکہ بہت مشکل ہے۔اگر امریکہ یہ بات کہتا ہے تو مسلمانوں کو خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ امریکہ نے یہ بات عراق میں بھی کہی تھی اور افغانستان میں بھی کہی تھی۔ یہ بات امریکہ اس وقت کہتا ہے جب اسے تھوڑا بہت احساس ہوجاتاہے کہ ہم جس کی مخالفت کررہےہیں وہ اب بہت حد تک کمزور ہوچکاہے یعنی اس وقت تک اس کا مقصد بھی پورا ہو جاتا ہے اور ساتھ ہی کچھ مسلمانوں کی ہمدردی بھی حاصل ہوجاتی ہے کہ آخر امریکہ نے بھی ظالم کے خلاف اور مظلوم کی ہمدردی میں لب کشائی کرہی دی۔ یاد رکھنا چاہئے کہ امریکہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو کبھی برداشت نہیں کرسکتا اور یہ بات بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حکمراں بدل جانے سے ملک کی پالیسی نہیں بدل جاتی بس اس کے نفاذ کے طریقوں میں تھوڑا انیس بیس ہوسکتا ہے۔ امریکہ کے ماضی کے تمام حکمرانوں کو دیکھیں باالخصوص جارج بش سے لے کر جوبائیڈن تک ہی دیکھ لیں کس کے اندر کون برائی تھی جو آج جوبائیڈن کے اندر نہیں ہے، سب ایک ہی راستے پر چلتے ہیں یعنی مذہب اسلام سے دشمنی اور مذہب اسلام کے ماننے والوں سے دشمنی اور مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑاکر ایک ہی ملک میں باغی ٹیم تیار کرکے ان کی لنگڑی قیادت اور لنگڑی حکومت بنواکرکے اپنے اشاروں پر نچانا یہی امریکہ کا نظریہ ہے اور یہی پالیسی ہے-
غزہ میں گذشتہ کئی مہینے سے اسرائیلی بربریت جاری ہے اسرائیل کی وحشیانہ بمباری میں 60 فیصد غزہ کھنڈرات میں تبدیل ہوچکاہے بیس ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں اور عمارتوں کے ملبے میں ہزاروں فلسطینی دفن ہوچکےہیں انسانی امداد کی قلت نے پریشان حال غزہ کی عوام کو بھوک مری کے دہانے پر کھڑا کردیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق غزہ میں حیرت انگیز طور پر غزہ کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ فلسطینی عوام 7 اکتوبر سے غزہ میں جاری اسرائیلی درندگی کی وجہ سے محصور علاقے میں ناکافی انسانی امداد کے داخلے کے چلتے بھوک سے مررہی ہے رپورٹ کے مطابق غزہ میں جو غذا کی مقدار پہنچ رہی ہے وہ انتہائی ناکافی ہے-
یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے امریکہ کے ذریعے اسرائیل کی حمایت کرنا ظلم کو بڑھاوا دینا ہے اور ظالم کی حمایت و حوصلہ افزائی کرنا ہے غزہ میں بہتے ہوئے خون میں ہاتھ رنگنے کے برابر ہے اور یہ پوری دنیا کے سامنے عیاں ہوچکا ہے کہ غزہ میں جو سفاکیت کا ننگا ناچ ناچا جارہا ہے اس میں امریکہ برابر کا شریک ہے اور دنیا کا سب سے مفلوج ادارہ اقوامِ متحدہ ہے جو صرف تشویش ، تنقید، افسوس اور زبانی ہمدردی سے کام چلاتا ہے۔ کیا اقوامِ متحدہ کے پاس ظالم کے خلاف کاروائی کرنے کا اختیار نہیں ہے؟ اگر اختیار ہے تو استعمال کیوں نہیں کیا جاتا اور اختیار نہیں ہے تو ایسے ادارے کو توڑ کیوں نہیں دیا جاتا آخر ایسے درخت سے فائدہ کیا جو پھل دے نہ سایہ دے۔ اقوامِ متحدہ کی مفلوج پالیسیوں کی ہی دین ہے کہ سپر پاور طاقتیں عالمی سطح پر مسلمانوں کی شناخت مٹانا چاہتی ہیں اور اسلام کے خلاف سازشیں کرتی ہیں-
اسرائیل و فلسطین کی جنگ میں عالمی سطح پر بہت کچھ ظاہر ہوگیا اور سب سے خاص بات یہ چھن کر سامنے آئی ہے کہ اب جس کے سر مصیبت پڑے گی وہی جھیلے گا۔ خون بہتا ہے تو بہتا رہے کوئی رقص و سرور میں مست رہے گا تو کوئی لفاظی میں مست رہے گا، کوئی گیدڑ بھپکی سے کام چلائے گا تو کوئی کھوکھلی دھمکی پر دھمکی دے کر واہ واہی لوٹنے میں مصروف رہے گا مسلم ممالک کے حکمرانوں کی میٹنگیں ضرور ہوں گی مگر وہ ناشتہ پانی سے آگے نہیں بڑھیں گی اور ضرورت پڑنے پر کچھ چاپلوس قسم کے مذہبی رہنماؤں کے بیان کے ذریعے مظلوموں کو ہی فتنوں سے تعبیر کرادیا جائے گا اور کچھ لوگ ڈاٹا ایسے نکالنا شروع کردیں گے جیسے غزہ میں بمباری کے دوران نکالنے لگے کہ جنگ کی وجہ سے اسرائیلی صنعت و معیشت کی کمر ٹوٹ گئی بس خوش فہمی میں مبتلا ہو گئے اور یہ بھول گئے کہ 70 سال قبل اسرائیل کے پاس کچھ بھی نہیں تھا اور آج سب کچھ ہے یہاں تک کہ ہم نے بھی مسواک ترک کرکے ان کا ٹوتھ پیسٹ استعمال کرنا شروع کردیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسواک کے فوائد سے بھی محروم ہوگئے اور ایک سنت سے بھی منہ موڑ لیا اور دشمن اپنی چالاکی اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا-

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں