102

کشمیریوں کی قلا بازیاں

The rich rob the poor and the poor rob one another (Sojourner Truth)
اپنے اصل موضوع پر بات کرنے سے پہلے میں لفظ ’’قلابازی‘‘کے معنی اور مفہوم کو یہاں بیان کرنا چاہتا ہوں۔ ‘‘سر نیچے پاؤں اوپر کرکے لڑھکنیاں لینا‘ اسی طرح ’’قلابازی کھانا‘‘ کا مطلب ہوا ’’پٹخنیاں لینا‘‘۔
دراصل ایک انسان کبھی کبھار حیوان ہی نہیں بلکہ حیوان سے بھی بدتر بن جاتا ہے۔ حالانکہ انسان کو ’’سماجی حیوان‘‘ بھی کہا گیا ہے۔ جب انسان بہت زیادہ خوش over joyہو جاتا ہے یا اس کے حالات ایسے پیدا ہو جاتے ہیں کہ اسے اپنا دل و دماغ قابو میں نہیں رہ پاتا ہے تو وہ کچھ بھی کہہ سکتا ہے یا کر سکتا ہے لیکن ہم آج انسان کی اس بڑی نفسیاتی بیماری کے بارے میں بات کرنے والے نہیں ہیں بلکہ یوں ہی ہم نے ’’قلا بازی‘‘ لفظ یہاں لے لیا جس کو میں اپنے سماجی تناظر میں پیش کروں گا۔
یہ لفظ اب ایک محاورہ بن گیا ہے اور روز مرہ زندگی میں ہم اس کو اس وقت استعمال کرتے ہیں جب کوئی شخـص خود کو چالاک یا شاطر سمجھ کر ایسی حرکتیں کرے گا، جو سماجی اعتبار سے صحیح نہیں ہوتی ہیں اور وہ دوسروں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرے گا، مگر دوسرے لوگ اس کا ہمیشہ مذاق اُڑائیں گے۔ ہاں کبھی وہ لوگوں کو دھوکے میں رکھ کر اپنا الو سیدھا کر سکتا ہے مگر جب پکڑا جاتا ہے تو ایسے گرتا ہے کہ پھر کبھی اس کا سنبھالنا ممکن نہیں ہوتا ہے جس کی مثال ہمارے پاس بڑی بڑی حکومتوں اور سلطنتوں کا ہے۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ’’یونان مصر و روما سب مٹ گئے جہاں سے‘‘۔
ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کو ہی دیکھ لیجئے۔ ان کے شہزادوں کی عیاشی، ان کی آپسی رقابت، ان کی طوائف پرستی، بڑھاپے میں جب بہادر شاہ ظفر نے اٹھارہ سال کی زینت محل سے بیاہ کیا، تو اپنے سالے نے انہیں کٹھ پتلی کی طرح نچایا اور یہ بھی ایک سبب بنا ان کے زوال کا۔۔۔!
تو جناب ہم بات کر رہے تھے ’’قلابازی ‘‘ کی اور اس بیچ میں بات آگئی سلطنتوں کے زوال کی۔ کشمیر ہمیشہ آباد تھا (علم و ادب کے معاملے میں جیسے شارداپیٹھ، سنسکرت ادب اور غنی کشمیری وغیرہ کی جب ہم بات کریں گے) آباد ہے اور انشاءاللہ ہمیشہ رہے گا، لیکن سنا ہے سیاسی معاملے میں ہمیں آج بہت زوال ہوا ہے اور اب یہاں سیاست کے جسم کی جان نکل گئی ہے۔ صرف اس کی شاہ رگ باقی ہے۔ اس کا آگے کیا حال ہوگا۔۔۔۔!
مگر پھر بھی ہمارے سیاست کار ابھی بھی لوگوں کو اپنی اپنی قلابازیاں دکھا رہے ہیں۔ ویسے یہ بات بھی ابھی صاف نہیں ہو رہی ہے کہ کیا یہ ان کی قلا بازیاں ہیں یا وہ لوگوں کو دکھانے کے لئے یا اپنی لاج رکھ کر خود پر یا اپنے کئے ہوئے پر ہنس رہے اور کہیں اپنا تمسخر خود اُڑا لیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ رسی جل گئی لیکن پھر بھی اس کا بل نہیں گیا۔ ہندوستان میں نواب اور کشمیر میں زیلدار جب سکڑتے سکڑتے اس قدر سکڑ گیا کہ اب وہ ایک چھپریا ایک معمولی سے گھر میں سما گیا، لیکن پھر بھی اس کے جسم سے اچکن نہیں اترا اور اسی طرح کشمیری زیلدار کے سر سے قراقلی ٹوپی نہیں اتر گئی۔ اسی طرح ایسے لوگ سماجی معاملات یا ایسی محفلوں میں بات بات پر اِٹھلاتے ہیں۔ جیسے ابھی بھی دنیا ان کے ہی دم پر چلتی ہے۔ کہتے ہیں کہ کشمیر کے ایک ذیلدار نے اپنی ساری جائیداد بیچ ڈالی اور ان کے بچے یا وارثین اب شہر میں بس گئے۔ ذیلدار خود اس لئے نہیں گیا کیونکہ وہاں ان کو کون زیلدار نام سے جانتا۔ اس لئے وہ گاؤں میں ہی رہا۔ وہ گوشت کھانے کا بہت عادی تھا۔ اپنے گاؤں کے قصائی سے گوشت ادھار لیتا رہا اور ایک دن وہ اپنے روایتی لباس میں بس اسٹاپ پر کھڑا شہر والی بس کا انتظار کر رہا تھا کہ قصائی نے آکر سب کے سامنے ۔۔۔۔ انہیں خجل کیا۔ پھر زیلدار نے مرتے دم تک اپنے پشتنی گاؤں کا رُخ کبھی نہیں کیا۔!
طاقت طاقت ہوتی ہے چاہے وہ امریکہ ہو یا اسرائیل یا ملک کی سیاسی طاقت۔ جدید سائنسی اور ٹکنالوجی کی طاقت، چین کی دنیا کے بیشتر شعبوں میں طاقت کا پھر مڈل ایسٹ کی اقتصادی طاقت جس کے سامنے دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو جھکنا پڑتا ہے۔ یہاں توکسی کے ناز نخرے نہیں چلتے ہیں۔!
یہ کئی برسوں پہلے کی بات ہے جب ابھی شاپنگ مالز کا تصور عام نہیں تھا۔ ایک چالاک کشمیری باہر کسی مال یا شاپنگ کمپلکس میں کچھ چیزیں خریدنے کے لئے گیا وہاں پہلی ہی ملاقات ان کی کسی لالہ سے ہوئی۔ کسی بات پر ان کے درمیان تو تو میں میں ہوئی۔ کشمیری چالاک یہ کہہ کر آگے بڑھا کہ یہ بازار بہت بڑا ہے۔ میں دوسری جگہ یہ سامان خرید لوں گا۔ لالہ نے ہنسی میں کہا جلدی آگے بڑھو وہاں آپ کو بہت سستا مال ملے گا۔ چالاک کشمیری نے مختلف اسٹالوں سے سامان خرید لیا اور ان کے ساتھ ایک مزدور اور ٹرالی بھی تھی۔ آخر کار جب یہ کونٹر پر کل بل ادا کرنے کے لئے پہنچ گیا تو وہاں لالہ جی بیٹھے تھے اور کشمیری چالاک کی طرف دیکھ کر انہیں طنزاً کہا۔
’’یہ تالاب بہت بڑا ہے لیکن اس میں لالہ نے اپنا جال پھیلا کے رکھا ہے۔ وہ مچھلی کچھ بھی کرے مگر آخر لالہ کی ہی ہوتی ہے۔ اچھا رامیش اس گاہک کا بل جلدی بنوالو کیونکہ ہمیں اور بھی گاہک دیکھنے ہیں۔‘‘
اچھا دکانداری پر مجھے یاد آگیا۔ یہ بات صاف عیاں ہے کہ پورے سرینگر کا کاروبار ٹھاٹ پڑا ہے۔ ڈاون ٹاون میں آپ کو گاڑی کا کنڑکٹر بھی نہیں ملے گا، کیونکہ ڈرائیور؍مالک کہتا ہے کہ جب اتنی آمدنی ہی نہیں ہے تو ’’میرےانگنے میں تمہارا کیا کام ہے۔‘‘
اسمارٹ سٹی کے ساتھ ہی لالچوک چھوٹا لندن بیانا گیا اور اسی کے ساتھ وہاںکافی کے ایک پیالے کی قیمت دو سو رپئے ہوگئی، اس لئے وہاں آپ کو پینے والے کم بلکہ صرف سلفی لینے والے زیادہ ملیں گے۔ اس کے باوجود بھی یہاں کے دکانداروں کی قلابازیاں ختم نہیں ہو ئی ہیں، جبھی ان کے پاس کوئی چیز لینے کے لئے جاؤ گے تو ان کا وہی دم خم جیسے ۱۹۸۷ء میں ’’گیت مالا‘‘ ’’چترہار‘‘ میں لالچوک کے چند دکانداروں کا اشتہار آتا تھا۔ چونکہ اس وقت ہم لالچوک کی سیر کر رہے ہیں وہاں میں نے باہر کے کچھ سیلانیوں کو کشمیری اخروٹ کی گری خریدتے دیکھا اور وہ دکانداروں کی اتنی بارگیننگ کرتے تھے جیسے وہ آلو مٹر خریدتے تھے۔ مجھے کشمیری ہونے کے ناطے اس لئے غصہ آگیا کیونکہ کچھ ہی برس پہلے میرے پڑوس کے ایک رہنے والے مزدور سلطان بٹ کی موت درخت سے اخروٹ اتارتے اتارتے واقعہ ہوئی تھی اور آج میں ان کے یتیم بچوں کو پڑھاتا ہوں۔۔۔ سیلانی کو میں کیا کچھ کہتا کیونکہ کبھی کبھار ہمیں جان بوجھ کر بھی انجان بننا پڑتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں