ڈاکٹر محی الدین زورؔ کشمیری
عالموں کا شوق لیتا ہے مجھے ان کے قریب
سو قدم مڑتا ہوں پیچھے ایک جاہل دیکھ کر (عاشق کاشمیریؔ)
آج کل علم کے دروازے ہرکہیں وا ہیں۔ ایک انسان کوسوچنے اور سمجھنے کے لئے بہت کچھ ہے۔ پُرانے زمانے میں ایک ہی حکیم ہر مرض کا علاج کرتا تھا، لیکن آج وہ طریقہ نہیں چلے گا۔ آنکھ کا ڈاکٹر، کان کاڈاکٹر، معدے کا ڈاکٹر الگ الگ ہے یا آنکھوں کے علاج کے لئے بھی کئی ڈاکٹر ہوتے ہیں۔ اسی طرح رشوت کا معاملہ جب ہمارے سامنے آجاتا ہے اس پر بھی ماہرین اب کافی غور و خوذ کرتے ہیں۔ حالانکہ لینے اور دینے میں کوئی بھی کمی واقع نہیں ہوتی ہے۔ ماہرین نے ایک اصطلاح بنالی Moral Corruption اخلاقی بدعنوانی۔ اس کی مثال جیسے ہم کسی شخص کا نام ٹھیک طرح سے نہیں لیں گے۔ کسی عزت دار شخص کی عزت نہیں کریں گے۔ کسی کے ساتھ بدتمیزی کریں گے۔ کسی کو گالی گلوچ دیں گے۔ کسی کو بد یا بری نظرو ں سے دیکھیں گے۔ کسی دفتر میں رشوت کے طور پر اگر روپیہ لینے کی گنجائش نہیں ہے، تو پھر اپنے ماتحت ملازموں سے یا لوگوں کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آئیں گے یا جائز کام کرنے میں ٹال مٹول کریں گے۔
کہا جاتا ہے کہ ہمارے اساتذہ کو رشوت (نقد و جنس) لینے کے مواقعے بہت کم ملتے ہیں۔ پھر وہ اخلاقی بدعنوانیاں کرتے ہیں۔ اسی لئے پچھلے سال ہمارے کشمیر میں مختلف سطح کے اساتذہ کی بدنامی بھی ہوئی اور اس طرح عوام کے سامنے ان لوگوں کا اصلی چہرہ بھی آگیا۔ جس سے ایک نہیں بلکہ ساری ٹیچر کمیونٹی کو شرم کے مارے اپنا منہ چھپالینا بھی پڑا۔ یہ اچھی بات ہے کہ آج کل سوشل میڈیا سے اور عوامی جانکاری سے کسی بھی چیز کو درپردہ نہیں رکھا جاتا ہے۔ دراصل اس دور سے پہلے ہم حقیقتوں کو چھپالیتے تھے اور اسی سے عام لوگ دھوکے میں رہتے تھے۔یعنی اگر کسی شخص کو کوئی مرض ہے، تو اسے چھپانے کا کیا مطلب! اس سے مرض بڑھتا جاتا ہے اور ایک دن یہی بیماری موت کا سبب بن سکتی ہے۔ اس لئے ہمیں اپنی جسمانی بیماریوں کی طرح سماجی بیماریوں کا بھی علاج وقت پر کر لینا چاہئے۔
تو جناب ہم بات کر رہے تھے کہ ایک ٹیچر کہاں کہاں اور کس سطح پر اخلاقی بدعنوانی کر سکتا ہے۔دلاور ڈارکا کہنا ہے کہ ان کے ہائی اسکول میں ایک ٹیچر کا اپنا بیٹا اور بھتیجا بھی پڑھتا تھا۔ اب جس دن وہ دونوں شہزادے اسکول نہیں آتے تھے، اس دن ان کا ٹیچر اس کلاس کے بچوں کو نہیں پڑھاتا تھا اور انہیں کہتا تھا چلو بچو آج تم لوگ کھیلو! کھیلو! ورزش صحت کے لئے ضروری ہے! اسی طرح نویں کی دہائی میں جب معصوم مرزا کالج میں پڑھتے تھے۔ تو ان کے اردو لیکچرار صاحب (خود کو پروفیسر کہنے والے) کیا سوٹ بوٹ ٹائی اور ٹائی پن جس میں کچھ ہیرا بھی جڑا ہوا تھا یعنی بڑے ٹھیٹھ ٹھاٹ سے کالج آتے تھے اور پڑھائی ان دنوں، اس کا تو خدا ہی حافظ۔۔۔!
ایک دن طلباء شغل کے طور پر زندہ باد مردہ بادکرنے لگے۔ معصوم مرزا ان تماشوں کو کچھ زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے اور وہ ٹائی والے پروفیسر کے پاس گئے، تاکہ وہ انہیں کلاس دیگا۔ پروفیسر موصوف آگئے اور انہیں سیدھے کہا آج سردی بھی اور حالات بھی ٹھیک نہیں ہے، اس لئے تم لوگ کالج کے پچھواڑے سے تار کے نیچے سے بھاگ جاؤ میںتم کو حاضر رکھوںگا۔ معصوم مرزا اپنی معصومیت میں بول گئے ’’سر ہم صرف دو ہی لڑکے ہیں، آپ ہمیںآفس میں بھی پڑھا سکتے ہیں لیکن آپ ہمیں بھاگنے کا راستہ دکھا رہے ہیں۔ ہم بھاگنے والوں میں نہیں ہیں بلکہ جم کر پڑھنے والوں میں ہیں!۔
آج کل چونکہ یہاں کےنوجوانوں کو نشےکی لت لگ گئی ہے اور اس میں لڑکے لڑکیاں اور خبر آئی ہے کہ کہیں کہیں سمدھی بھی آپس میں مل بیٹھ کر پیالے بھرتے ہیں اور گھر میں موجود بزرگوں کو باہر نکال دیتے ہیں۔ اس تشویشناک صورتحال کے پیش نظر بہت سارے کالجوں میں صبح گیٹ پر طلبہ کی تلاشی لی جاتی ہے جوکہ لائق صد تحسین قدم ہے۔ ایک لڑکی کے بیگ سے کچھ مہنگے چاکلیٹ بر آمد ہوئے، جب ان سے پوچھا گیا یہ مہنگے چاکلیٹ کس کے لئے ہیں تو اس نے کہا فلاں سر کے لئے اور یہ بھی کہا کہ وہ تو ان چیزوں کے بغیر Internal مارکس دیتا ہی نہیں۔ اسی لئے تو۔۔۔۔ یعنی اب دیکھو ہمارے ٹیچر کا معیار کتنا بلند ہو گیا ہے، وہ طلبہ سے دیسی مرغے، مکی کی روٹی نہیں، بلکہ اسرائیل میں بنے ہوئے چاکلیٹ مانگتا ہے۔!
یونیورسٹی کا ٹیچر اپنے آپ کو سب سے اعلیٰ اور ارفع سمجھتا ہے، لیکن جتنا گیپ کشمیر کی یونیورسٹیوں میں ایک عام طالب علم اور ٹیچر کے درمیان ہوتا ہے وہ میں نے کہیں اور نہیں دیکھی۔ اب جہاں مارل یا نقد و جنس کرپشن ہے، وہاں یہ دوری نہیں ہو سکتی ہے یعنی ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کرپشن لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے۔ اونچے سر والے کو کبھی دھیرے دھیرے اور کبھی یکدم جھکا بھی لیتا ہے۔ رشوت لے کر بندہ مجبور ہے، اسے کچھ بھی برداشت کرنا ہوگا۔ اس بات پر مجھے یاد آگیا ایک دن کچھ بیوپاری حضرات اور ڈرائیور صاحبان آپس میں کسی ’’حساب کتاب‘‘ پر لڑرہے تھے۔ اس بیچ میں کسی صاحب نے کہا چلو فلاں بڑے افسر کے پاس اسے اس مسئلے کے بارے میں کچھ پوچھتے ہیں۔ تو ایک سکھ ڈرائیور اپنے مخصوص پنجابی لہجے میں بولا:
’’صاحب ہوگا وہ تیرا میرے نزدیک وہ کتا ہے جس کو میں روز ہڈیاں ڈالتا ہوں‘‘۔ تو میں عرض کر رہا تھا کہ یونیورسٹیوں میں اساتذہ ہر طرح کا کرپشن کرتے ہیں کیونکہ وہ خود کو خاص الخاص بندہ سمجھیں گے مگر مجھے یاد ہے کہ ہمیں بھی ایم اے میں ایک استاد اسی طرح نک ناموں سے پکارتا تھا جس طرح جماعت اول میں مجھے بھٹ صاحب پکارتے تھے۔ ایک پروفیسر صاحب جس دن سوٹ پہن کر آتے تھے اس دن ہماری کلاس تو دور کی بات وہ ہماری طرف دیکھتے بھی نہیں تھے۔ یہاں یہ بات بھی یاد رہے وہ کبھی کبھار سوٹ اس لئے پہنتے تھے کیونکہ اس دن انہیں ٹی وی پر اپنا پروگرام ریکاڑ کروانا ہوتا تھا۔ جیسے ’’اُردو غزل کا ارتقا‘‘۔۔۔۔ وغیرہ۔۔۔ وہ زمانہ بھی کیا زمانہ تھا جب لوگ غالب پر کچھ فرمانے والے کو ادیب دانشور سمجھتے تھے اور وہ رٹ لگائے ہوئے ان تدریسی نوٹوں سے ہزاروں کمالیتے تھے۔
اب آخر پر ایک اور آنکھوں دیکھی تحریر کروں گا۔کہا جاتا ہے کہ ایک شخص جب چلتا تھا تو ہر دس قدم آگے بڑھ کر جھٹکا سا محسوس کرتا تھا۔ لوگوں نے انہیں پوچھا کہ تمہیں یہ کیا ہو رہاہے۔ اس نے کہا میرے کندھوں پر جو بوجھ ہے وہ ذرا نیچے آتا ہے۔ بظاہر کوئی بوجھ نہیں ہے تمہیں۔ اُف! اصل میں اس شخص نے ایک روز قتل کیا تھا۔یہ اسی قتل کا بوجھ تھا۔۔۔ ٹھیک اسی طرح میں نے ایک نامی گرامی پروفیسر کی حالت دیکھی۔۔۔! پھر جب اپنے ساتھی سے پوچھا ایسا کون سا گناہ کیا تھا اس نے۔۔۔! وہ بولے، بندہ تو یہ بظاہر شریف تھا لیکن اپنےماتحت کلرک کو اتنے اختیارات دے رکھے تھے کہ جس نے کئی طلبہ اسکالرس کے حق اور محنت پر شب خون مارا۔ شاید دونوں مل بانٹ کر کھا لیتے تھے۔۔۔۔!