213

کشمیر، انتخابات ۔ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

رشید پروینؔ سوپور

۲جنوری ۲۰۲۴ کو وزیر داخلہ شری امیت شاہ کی سر براہی میں جموں و کشمیر سے متعلق ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ کا انعقاد ہوا جس میں بہ ظاہر سیکورٹی اور دوسرے اہم معاملات پر بات چیت ہوئی، اس اجلاس کی اہمیت اس بات سے ظاہر ہے کہ اس میں بھارت یعنی مرکزی سرکار کے کلیدی ارباب اقتدار کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر کے ٹاپ آفیشلز، لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا، چیف سیکریٹری اٹل ڈُلو، ڈائریکٹر جنرل پولیس، قومی سلامتی مشیر اجیت دول بھی موجود تھے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چونکہ یہ انتخابات کا سال ہے اور سپریم کورٹ نے بھی ستمبر میں انتخابات کی ہدایت جاری کی ہوئی ہے اس لئے ان انتخابات کے پسِ منظر میں اتنے بڑے پیمانے کا اجلاس بڑی اہمیت کا حامل رہا ہوگا اور یقینی طور پر اس میٹنگ میں یہ انتخابات بھی زیر بحث آئے ہوں گے۔ یہ ایک اندازہ اور اس سے قیاس پر ہی محمول سمجھا جاسکتا ہے۔
اس سے پہلے کہ اس میٹنگ کا ایک جائزہ لیا جائے انتخابات سے متعلق ماضی اور تاریخ میں درج چند باتوں کا تذکرہ ناگزیر ہو جاتا ہے جو کہ اب ماضی کا حصہ ہیں اور جن کی اب کوئی اہمیت نہیں۔ لیکن اس لئے کہ تمہں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔ ،’’مارچ ۱۹۵۱ کو سلامتی کونسل نے ایک قرارداد پاس کی جس کی رو سے ۱۳ اگست ۱۹۴۸ کی پاس شدہ قرار دادوں کو بر قرار رکھتے ہوئے کہا گیا کہ ’’کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایک آزاد اور غیر جانبدار رائے شماری کے ذریعہ سے کرایا جائے گا‘‘۔ قرارداد میں اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ ’’ آل جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس جنرل کونسل کی سفارش پر ایک دستور ساز اسمبلی کی تشکیل اور اسمبلی کی طرف سے کشمیر کے مستقبل اور الحاق کے بارے میں کسی اقدام کی کوشش خواہ وہ ساری ریاست کے بارے میں ہو یا اس کے کسی ٹکڑے کے لئے ،اس طریقہ کار کا نعم البدل تسلیم نہیں کیا جائے گا خود نیشنل کانفرنس اور بھارت نے اقوام متحدہ کو یقین دلایا کہ یہ اسمبلی الحاق کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں ہوگی یہ بس ریاست کی دیکھ ریکھ کے لئے ہی تشکیل دی جاتی ہے جب تک عوامی طور استصواب رائے نہیں ہوتا ۔‘‘ ۱۹۵۱ میں ۴۷ کے بعد پہلے جمہوری انتخابات ہوئے،ان انتخابات کی تاریخی اور زمینی حیثیت بڑی دلچسپ اور چونکا دینے والی رہی ہے۔۔ ڈوگرہ شاہی کے خلاف بر سر پیکار اور کشمیری ہیرو ،آزادی کے متوالے نے ۵۱ میں پہلا الیکشن منعقد کیا اور حیرت انگیز طور پر ۴۳ میں سے پوری ۴۳ سیٹیں بلا کسی مقابلے کے ہی جیت لیں۔ یعنی عملی طور پر کہیں بھی کسی بھی امید وار کو کھڑا ہونے کا موقعہ ہی نہیں دیا گیا اور اس طرح سے سار ی کی ساری سیٹیں ہتھیا لیں۔
تاریخی طور پر اور تمام کشمیر کے تا ریخ دان اس بات پر متفق ہیں کہ کشمیری قوم اور جمہوری دیوی کی دن دھاڈے عصمت دری ہوئی تھی۔ مرحوم شیخ نے حکمرانی اور ’پاور‘ میں بلا کسی شرکت غیرے رہنے کی خاطر ایک لائحہ عمل طئے کیا جو مستقبل کے تمام انتخابات کے لئے نقش راہ ثابت ہوا اور آج تک کشمیر کے انتخابات کی عمارت بلکل ان ہی بنیادوں پر قائم ہے۔ یہ الیکشن جمہوری دیوی کا گینگ ریپ تھا کیونکہ کسی بھی امیدوار کو ان انتخابات میں ا ُترنے کی اجازت نہیں دی گئی اور اگر کسی نے یہ رندانہ ہمت کی بھی تو اس کا جسم کسی بھی طرح سلامت نہیں رہا بلکہ اپنی ٹوٹ پھوٹ کے لئے اس سے مہینوں ہسپتال میں رہنا پڑا۔ ‘‘
یہ اقتباس جو میں نے رقم کیا ہے اس کی اب کوئی حیثیت اور مقام اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک قصۂ پارینہ ہے، ماضی ہے جس کی صرف یہ اہمیت ہے کہ اب بھی تاریخوں کا حصہ ہے یا سلامتی کونسل کے اُن گوداموں میں کسی ردی کاغذ کی بوری میں بند ہے جس سے یقینی طور پر دیمک چاٹ چکے ہوں گا۔ بہر حال یہ چند جملے محظ ہسٹری کے طالب علموں کے لئے لکھی ہیں ۔
۱۹۸۹ کے انتخابات جو مف اور نیشنل کانفرنس کے بیچ ہوئے تھے ہندوستان کی تاریخ میں رقم ہوچکے ہیں اور یہی وہ انتخابات تھے جنہوں نے کشمیر میں سیاسی سمت کو ملی ٹینسی کی راہ پر گامزن کیا تھا جس کا ادراک اور اقرار بھارت کے نہ صرف دانشوروں کو ہے بلکہ بڑے بڑے سیاست داں اس سے آج بھی متفق ہیں اور سینکڑوں ایسے بڑے سیاستدانوں کے نام کوٹ کئے جاسکتے ہیں ،جو آج بھی برملا اس وقت کی مرکزی سرکار کانگریس کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جنہوں نے ان انتخابات کے نتائج اور منازل ہی کو بدل کر فارق سرکار قائم کی تھی، جس کی وجہ سے اب تک کشمیری عوام سکھ چین اور امن و اماں کی زندگی سے بہت دور ہیں۔
اب ایک طویل عرصے کے بعد بی جے پی سرکار میں پھر ایک بار انتخابات ایک خاصی مدت کے بعد ہونے والے ہیں۔ ۵ اگست ۲۰۱۹ کے بعد جب ۳۷۰ کو ایبروگیٹ اور جموںو کشمیر کو یو ٹی کے اندر ضم کیا گیا تھا اور اس ڈیٹ سے لے کراب تک مرکزی سر کار نے وہ لاتعداد اقدامات اٹھائے ہیں ، بے شمار ایسی حکمت عملیوں سے کام لیا ہے جو کہیں پردے پر بھلے ہی نظر نہ آتی ہوں لیکن بہر حال وہ آنے والے انتخابات میں ایک اہم اور کلیدی رول ادا کریں گی۔
۲ جنوری کی یہ میٹنگ رپورٹس کے مطابق دو گھنٹے تک جاری رہی اور اخباری اطلاعات کے مطابق اس میں کئی اہم مسائل پر بات چیت ہوئی۔ سیکورٹی کے معاملات پر بھی تبادلہ خیال ہوا اور حالیہ کچھ تصادموں کے بارے میں بھی وزیر داخلہ کو جانکاری دی گئی۔ اس کے علاوہ ایسا کہا جاتا ہے کہ تعمیر و ترقی اور جاری منصوبوں کے علاوہ نئے تعمیری منصوبوں پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔ یہ ساری باتیں درست ہے کیونکہ اس طرح کی میٹنگ آئے روز منعقد نہیں کی جاتی جن میں مرکزی اور یوٹی کے تمام کلیدی ارباب اقتدار موجود ہوں،یہ بھی امکان ہے کہ ایسی میٹنگوں میں کچھ ایسے مسائل پر بھی بات چیت اور تبادلہ خیا ل ہوتا رہتا ہے جن کا ذکر پریس ریلیز میں ضروری نہیں سمجھا جاتا ہے۔ سب باتوں کے علاوہ بھی یہ میٹنگ اور جس بڑے پیمانے پر منعقد ہوئی ہے کچھ خاص اشوز بھی اس میں ڈسکس یقینی طور پر ہوئے ہوں گے۔ قرین قیاس ہے کہ یہ مسائل آنے والے انتخابات ہی رہے ہوں گے، جن کے بارے میں ایک لائحہ عمل کا تعین اور طریق کار تشکیل پایا ہوگا۔ یہ ہمارا ایک اندازہ ہے اور اس سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے ، میںسمجھتا ہوں نئے سال کی شروعات میں ہی اتنے سارے بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے ٹاپ آفیشلز کی میٹنگ اپنے آپ میں ہی ایک کلیدی حیثیت کی حامل ہوتی ہے، یقینی طور پر کشمیر کی مقامی سیاسی پارٹیاں ایک مدت سے انتخابات کی مانگ کرتی آئی ہیں ، ان میں ’’این سی ‘‘بھی ہے ، ’’پی ڈی پی ‘‘بھی اور ’’اپنی پارٹی ‘بھی۔ مقامی پارٹیوں میں اب بھی تمام تر خامیوں اور فریب کاریوں کے باوجود شروع سے ہی این سی کا وؤٹ بینک موجود ہے۔ اگر چہ اس میں اضافہ تو نہیں ہوا ہے اس کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ کشمیری عوام کو کوئی ایسی پارٹی نظر نہیں آتی جو کم سے کم ان کے زخموں پر کچھ نہیں تو مرہم ہی لگانے کی پوزیشن میں ہوجو انہیں اپنی یعنی مقامی پارٹیوں نے ان ۷۵ برس کے دوران دئے ہیں۔ ایک زمانے میں کشمیری عوام نے پی ڈی پی کو وؤٹ دے کر آزمانا چاہا، لیکن یہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے کہ مفتی محمد سعید مرحوم نے عوامی منڈیڈیٹ کے خلاف بی جے پی کے ساتھ تعاون کرکے سر کار بنائی تھی اور آخرمحبوبہ جی کی سرکار سے اس پارٹی نے اپنا تعاون واپس لے کر اس کی حکومت گرادی تھی ، تب سے اب تک یہاں کے پلوں سے بہت پانی بہہ چکا ہے۔ الحاق ، ۳۷۰ ،سپیشل سٹیٹس ماضی کے دھندلکوں میں کھو چکا اور جموں و کشمیر یوٹی میں شامل ہے اور اسی حال میں انتخابات بھی ہونے والے ہیں اور اب نئے حالات میں اور اس طویل وقفے کے دوران زیادہ قرین قیاس ہے کہ بی جے پی اپنی منشا اور مرضی کی سرکار بنانے کی حکمت پر آگے بڑھ رہی ہو ، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر پارٹی کا فائنل اور آخری ہدف اقتدار ہی ہوتا ہے اوریہ ہر پارٹی کا حق بھی بنتا ہے کہ وہ سر فہرست رہنے کی جدوجہد کرے تاکہ اپنی سرکار بنا کر اپنے مینو فیسٹو کو بہتر طریقے سے آگے بڑھائے ، اس میں کوئی قباحت نہیں۔اس لئے دیکھا جائے تو مرکزی طور پر اتنی مستحکم اور بڑی پارٹی جو بیشتر ریاستوں کے علاوہ مرکزمیں اقتدار کی حامل ہے، کیوں اس بات کے لئے کوشاں نہیں ہوگی؟۔ یوں بھی اب تک کے کشمیری وزرائے اعلیٰ بڑی حد تک نہ تین میں اور نہ تیراں میں کہیں نظر آیا کرتے تھے، کیونکہ ہم سب جانتے ہیں اور کشمیر کی تاریخ گواہ کہ یہ وزرائے اعلیٰ ہمیشہ تب تک ہی بر سر اقتدار رہا کرتے تھے جب تک ان پر مرکز کی نظر کرم رہا کرتی تھی، لیکن اب ان نئے حالات میں یہ دیکھنا ہے کہ بی جے پی سرکار میں عوام جمہوری روح اور سپرٹ کے مطابق سر کار بنانے اور اپنے نمائندوں کو آزادی اور مرضی سے چننے کے اہل ہوں گے اور کیا واقعی آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا عمل دہرا کر اس معاملے میں بھی نئے کشمیر کی جانب ایکاور قدم بڑھائے جائے گا ؟ یہی وہ کسوٹی ہوگی، جو اہم اور کلیدی اہمیت کی حامل رہے گی۔ اپنے ماضی اور کربناک انتخابی عملوں سے جو جموں و کشمیر کے عوام کا بھرم ہی ٹوٹ چکا ہے اس سے بحال کرنے اور اس سے یہ احساس دلانے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ انتخابات منصفانہ اورآزادانہ ہوں اور سرکار کی پالیسی یہی ہو کہ وہ نتائج کو کھلے دل اور ذہن سے قبول کرنے کے لئے تیار ہو اور اس طرز عمل سے ذرا سا ہٹ کر سوچنا اور عمل پیرا ہونا مایوسی، نا امیدی اورکسمپرسی کے احساس کو تقویت ہی پہنچا سکتی ہے جو دیکھا جائے تو مجموعی طور پر قومی مفادات کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے ور مستقبل کے لئے بھی کوئی خوش کن نتائج اور امیدوں کے چراغ نہیںجلا سکتے۔۔ ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں