آغا سید ابوالحسن موسوی ضیغمؔ دارالفنا سے دارالبقا کی اور کوچ کرگئے۔
از قلمِ : اعجاز احمد گچھے (بحریؔ)
وادیٔ کشمیر ہمیشہ سے علم و ادب کا ایک گہوارہ رہی ہے ،وہ چاہے یہاں کے دیہات ہو یا کہ یہاں کے شہر ہوں ہر جگہ سے یہاں علم کے اشجار دیکھےجا سکتے ہیں۔ یہاں کے لوگ نہایت ہی زیرک اور عاقل مانے جاتے ہیں۔ جہاں تک ادب کا تعلق ہے تو اس حوالے سے تو وادیٔ کشمیر شروع سے ہی ذرخیز مٹی کی حامل رہی ہے ۔
یہاں ہندوستان کی متعدد زبانوں میں ہم ادب کے نقوش پاتے ہیں وہ چاہے اُردو ہو فارسی ہو یا کہ یہا ں کی مقامی زبان( کشمیری زبان )غرض کشمیریوں نے کسی بھی زبان کو مایوس نہیں کیا ہے ۔
جہاں تک کشمیری ادب کی بات ہے تو متعدد شعراء نے ادب کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی ہے ،اور اپنے ہنر سے کشمیر ی ادب کو لعل و گہر سے نوازا ہے ۔کشمیری ادب میں یوں تو بہت ساری اصناف سخن جیسے غزل ، نظم ،گیت قصیدہ، نعت اور مرثیہ وغیرہپائی جاتی ہیں ۔ لیکن مرثیہ کی صنف میں پایا جانے والا کشمیری شعری ادب اپنی مثال آپ ہے ۔ مختلف ادوار سے ہوکر کشمیری مرثیہ کی صنف آج کی ہیئت میں ہم تک پہنچی ہے ۔ متعدد مرثیہ نگاروں نے اس کو یہ مقام عطا کرنے کے لیے اپنی زندگیاں اس بابت وقف کیں ہیں ۔
کشمیری مرثیہ چونکہ دیگر زبانوں میں لکھے جانے والے مرثیوں سے قدرے مختلف ہے ۔ اس طرح سے یہ اپنا ایک الگ مقام قائم کرنے میں کامیاب بھی ہوا ہے ۔
مختلف ادوار میں مختلف مرثیہ نگاروں نے اس صنف سخن میں مختلف بدلاؤ بھی کیے ہیں، جو کہ عوام میں خاصی مقبولیت پاچکے ہیں ۔کشمیری ادب اگر خود کو دیگر زبانوں کے ادب کے ساتھ کھڑا دیکھ رہا ہے تو اس میں مرثیہ کی صنف کا خاصہ رول رہا ہے ۔ مختلف مرثیہ نگاروں نے اس صنف کو یہ مقام عطا کرنے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کیں ہیں ۔ اِن ہی شخصیات میں ایک اہم شخصیت جن کا اسم گرامی آغا سید ابوالحسن موسوی ضیغمؔصاحب ہے کا ذکر ایک ناقابل فراموش امر ہے ۔
آغا سید ابوالحسن موسوی ضیغمؔ صاحب کی پیدائش ، ابتدائی تعلیم اور زندگی کی لگ بھگ چھ دہائیوں کا تعلق جھیل ڈل کے علاقہ میر بحری سے ہے ۔ اسکے بعد انہوں نے علاقہ ہذا سے ہجرت کی اور علاقہ گلشن آباد بوٹہ کدل میں سکونت اختیار کی اور تا دم ِ مرگ وہیں کے ہوکر رہ گیے ۔ بعد از ہجرت آغا صاحب کا تعلق میر بحری سے بالکل بھی نہیں کٹ سکا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ہجرت کے بعد آغا صاحب علاقہ میر بحری کی دینی ترقی کے لیے زیادہ کوشاں رہے تو غلط نہ ہوگا ۔ دراصل ہر ذی حس ادیب کا یہ اخلاقی فریضہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے آبائی وطن کے لیے کچھ کر گذرے اور آغا صاحب اس کی ایک تازہ مثال ہے۔
مرحوم کی مرثیہ نگاری وادی کے فرد فرد کو اپنی اور کھینچتی ہے ۔ مرحوم نے مرثیہ نگاری اور مرثیہ خوانی کے اسرارو رموز کو عام کرنے کے لیے زندگی بھر کاوشیں کیں ہیں ۔ اور خود متعدد مرثیہ تخلیق کیے ہیں ۔ متعدد ادبی انجمنوں سے انکا تعلق رہا ہے ۔کشمیری شعری ادب میں انکا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے مرثیہ نگاری کو آجکل کے تیز رفتار دور کے لوگوں تک ایک نیے اسلوب اور ایک نیے آہنگ میں ہم تک پہنچایا ۔
صنف مرثیہ نگاری تا ابد انکی احسان مند رہے گی ۔ مرحوم نے مجالس حسینی میں مرثیہ خوانی کی ایک الگ پہچان بنائی ہے ۔ اور وادی کے اطراف و اکناف میں اپنی فنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے ۔ وادی کے ہر علاقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ انکےطرزِ مرثیہ خوانی کے شیدائی ہیں اور اکثر ان سے مختلف مصنفین نیز اُنکے خود کے تخلیق کردہ مضامیں پڑھنے کو کہتے اور بڑی مجالس کا انتظام و اہتمام کرتے آئے ہیں ۔
مرحوم جب کبھی بھی اپنی آواز میں مرثیہ خوانی انجام دیتے تو عقیدت مندوں کے دلوں پر گویا سحر طاری کرتے اور ہر ایک ان کی داد دیے بغیر نہ رہتا ۔کشمیری مرثیہ کے مختلف اجزائے ترکیبی کو وہ خلق کرنے اور ادا کرنے میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ کسی دوسرے مصنف کا مضمون ہو یا کہ خود کا مضمون جب بھی مرثیہ پڑھتے لوگ داد دیے بنا نہ رہ پاتے تھے ۔کشمیری مرثیہ کو آغا سید ابوالحسن موسوی ضیغمؔ صاحب نے گویا ماں کی طرح دیکھ بال کی ہے ۔ انکے تخلیق کردہ مرثیوں میں ہم تشبیہات ، استعارات اور ترکیبوں کا ایک حسین امتزاج دیکھتے ہیں جو کہ کشمیر ی ادب کو اور ذرخیزیت بخشتا ہے ۔کشمیری ادب گرچہ دیگر اصناف ِ سخن میں بھی ترقی کی منزلیں طے کرچکا ہے لیکن جس انداز اور جس لگن سے آغا صاحب نے کشمیری مرثیہ کو ترقی کے زینے چڑھایا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ اس کام کے لیے کشمیری ادب ہر آن و ہر لحظ ان کی مرہونِ منت رہے گی ۔
آغا سید ابوالحسن موسوی ضیغمؔ صاحب نے مختلف شاگردوں کو اس فن کی تعلیم بھی دی ہے جو تا دمِ حال انکی تعلیم سے مختلف مجالس میں مرثیہ خوانی سے ایک سماں باندھتے ہیں ۔ مرحوم کو اس صنف سخن سے ابتدائی عمر سے ہی ذوق رہا ہے ۔جس وجہ سے وہ متعدد مرثیہ لکھنے میں کامیاب رہے ۔ انکی مرثیہ نگاری کے نقوش ’’ لسانُ الذاکرین ‘‘ نامی کتاب میں موجود ہے جو کہ متعدد بار شائع ہوئی ہے ۔ انکے چند مشہور مضامین ’اخلاق‘’جلوس‘ ’وطن‘’ سیاحت‘اور’سر‘ قابل ذکر ہیں ۔ جو کہ ادب کی مختلف رنگینیوں سے لبا لب ہے ۔ انہوں نے مختلف مصنفین کے کلام کی تضمین بھی لکھی ہے جو کہ عوام میں کا فی شہرت پاچکے ہیں ۔ یقیناً ایسی شخصیات صدیوں میں ایک بار پیدا ہوتی ہیں ۔ انکے انتقال سے کشمیر ی ادب اور کشمیری مرثیہ خصوصی طور پر متاثر ہوگئے ہیں ۔ ادب کے لیے ایسی شخصیات کا انتقال ایک خلا پیدا کرتی ہے ۔من و عن کشمیری ادب کے لیے بھی انکے انتقال سے ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوا ہے کہ جس کو مشکل سے ہی پُر کیا جاسکتا ہے اگر یہ کہا جائے کہ اس خلا کو پُر کرنا نا ممکن ہے تو بے جا نہ ہوگا ۔ مرحوم نے صنف مرثیہ کو لوگوں میں اس طرح عام کیا تھا کہ لوگ انکے انتقال کے بعد بھی نہیں بھول سکتے ۔ آغا سید ابوالحسن موسوی ضیغمؔ صاحب کو مرثیہ کی صنف کا ناخدا ہونے کا شرف حاصل تھا کیوں کہ آجکل کشمیری روایتی مرثیہ لکھنے میں لوگ ہچکچاتے ہیں لیکن مرحوم نے ساری زندگی اس صنف سخن کو سینچا اور ایک اعلیٰ مقام پر لا کھڑا کیا کہ جس کے لیے کشمیری ادب انکی ہمیشہ احسان مند رہے گی ۔
جھیل ِ ڈل میں پیدا ہونے والے اس ادب کے چراغ نے گذشتہ دنوں گلشن آباد بوٹہ کدل میں داعی اجل کو لبیک کہا اور یوں ہزاروں چاہنے والوں کو داغ ِ مفارقت دے گیے ۔
مرحوم کی دین کو عوام کبھی نہیں بھول سکتی کیونکہ مرحوم کی دین ایک عظیم دین ہے کہ جس کو فراموش کرنا ممکن نہیں ۔ اللہ سے دعا گو ہوں کہ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے ۔ آمین