98

فریدؔ پر بتی ۔البیلے طرزِ سخن کے شاعر

مدثر شمیم راتھر
سرہامہ،بجبہاڑہ، اننت ناگ
فون نمبر :9797052494

ڈاکٹر فریدؔ پربتی ریاست جموں و کشمیر کے ایک ایسے تخلیقی فنکار ہیں جنہوں نے خداداد صلاحیتوں اور محنتِ شاقہ سے اردو نظم و نثر میں ایسے گوہر آبدار چھوڑے ہیں جنہیں ریاست کی اردو شعر و ادب کی تاریخ میںسنہرے حروف سے لکھا جا سکے۔ فریدؔ پربتی ریاست کے معتبر شعراء میں شمار ہوتے ہیں۔قاضی عبد ا لر حمٰن ہاشمی کا یہ کہنا بجا ہے کہ فرید پربتی ہمارے ان شاعروں میں ہیں جو ایک آفاقی وژن (vision ) رکھتے ہیں۔ نبضِ کائنات پر ان کی انگلیاں اس انداز سے پڑتی ہیں کہ وہ زندگی کی تھر تھرا ہٹوں کو محسوس کر کے آلام کی عقدہ کشائی پورے وثوق کے ساتھ کرتے چلے جاتے ہیں ۔
واقف میں ہر اِک خواب کی تعبیر سے ہوں
میں حُسن ہوں اور حُسن کی جاگیر سے ہوں
کہتے ہیں مجھے یوسفِ ثانی اے دوست
کنعاں سے نہیں ، وادی کشمیر سے ہوں
فریدؔ پربتی شعور ِ ذات میں گم ہو کر بھی شعورِ کائنات سے اپنی شاعری کا تانا بانا بُنتے ہیں۔ ذات سے کائنات تک فریدؔ کا یہ پر آشوب سفر لا محدود معنوی وسعتوں کا عندیہ دیتا ہے۔ زندگی کے طوفان بلا خیز سے لڑنا اور آگے بڑھنا اور مشقت، مصیبت اور محنت میں مسرت اور بہجت کاسامان ڈھونڈ ھ نکالنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ صحرا میں چلچلاتی دھوپ، پیاس اور تھکن سے نبرد آزما ہونا اور چارونا چار سراب کا سامنا کرتے ہوئے نئی زندگی، نئی صبح اور نئے افق تلاش کرنا فریدؔ کا پسندیدہ مشغلہ ہے ۔ زندگی نشیب و فراز کا دوسرا نام ہے۔ یہاں قدم قدم پر کرب و بلا کا سامنا ہے ، جورو جفا کی بارشیں آئے دن کا معمول ہے۔ تیرگی ہر طرف چھائی ہوئی ہے، چپہ چپہ آسیب و بلا کی زد پر ہے۔ اپنے پرائے سب خوفناک بھیڑ یوں کی طرح خون کے پیاسے ہو گئے ہیں۔ ہر فرات پر ظالموں کا کڑا پہرا ہے اور ہرکہیں پیاسے ہونٹ ایک قطرۂ آب کیلئے ترس رہے ہیں ، آرام و مصائب کے جھکڑ بڑے زور سے چل رہے ہیں، سیاسی سودا گری کا بازار گرم ہے، کذب و جعل سازی کے بازار سجائے گئے ہیں ، صداقت و شرافت کو دار و رسن کی نذر کر دیا گیا ہے ۔ حادثوں کی شکار زندگی کے انگ انگ سے لہو رِس رہا ہے ۔ حادثات کی بہتات سے ہر چشم حیرت زدہ ہے اور ہر دل نوحہ کناں ہے ؎
کن حادثوں کو دیکھ کے سَکتے میں آئے لوگ ؟
حیراں ہر نگاہ ہے او رہر زباں بند
فرید پربتی کے اشعار میں معنوی سطحیں بھی ہیں اور معنوی جہتیں بھی اور یہی ان کے کلام کا انفراد بھی ہے۔ خواب، تعاقب، لمحات، گریزاں، عصر رواں، ریت اور شمع جیسے الفاظ ان کے یہاں وہ احساس دلاتے ہیں جو انسان کے باطن میں حشر بپا کر دیتے ہیں۔ ان کے اشعار میں موسیقیت و نغمگی رچی بسی ہوئی ہے۔ فریدؔ خوابوں کے بھنور میں اپنے آپ کو گھِرا ہوا محسوس کرتا ہے اور ایسے میں تھک ہار کر بیٹھنے کے بجائے سوختہ خوابوں کا جلوس نکالنے کی ہمت جُٹاتا ہے ۔ اس گہما گہمی میں وہ خود بھی تماشائی بنتا ہے اور بذاتِ خود تماشا بن جاتا ہے : ؎
جانے کس سمت لئے جاتا ہے خوابوں کا بھنور
دائرہ دائرہ ہر موج سے پیدا ہو جائوں
لے کے نکلا ہوں میں پھر سوختہ خوابوں کا جلوس
خود تماشائی بنوں ، خود ہی تماشا ہو جائوں
دل کے نہاں خانوں میں دیئے روشن رکھنے کی خاطر شاعر عموماً خود کلامی کرنے لگتا ہے ۔ یہی خود کلامی سیاہ راتوں کے طویل اور صبر آزما دکھ دردکے پسِ منظر میں Safety Valve کا کام دیتی ہے ۔ شاعر عمو ماً اس آرزو میں رہتا ہے کہ کب کوئی ہم نشیں، ہم سفر یا ہم جولی ملے، جس کے سامنے اپنی محرومیوں اور ناکامیوں کا اظہار کرے لیکن راز کی باتیں ہر کسی کے سامنے بیان کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا، تب اُس کی گفتگوچاند سے شروع ہوتی ہے ۔ یہ گفتگو ایک تو یک طرفہ ہوتی ہے اور دوسرے یہ خود کلامی کتابِ زیست کو کھل کر پڑھنے، سمجھنے یا سمجھانے کا ایک وقفہ مہیا کرتی ہے اور شاعر ایک طرح سے طمانیت اور سکون کے چند مسرت را لمحے اپنی مٹھی میں بند کر لیتا ہے : ؎
یہ کس تلاش میں نکلا ہوں خود کو کھو کر میں
شعورِ ذات میںگُم ہو گیا ہوں مدغم بھی
فریدؔ اُس مادی دنیا سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں، جہاں قدم قدم پر مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑے۔ حتیٰ کہ وہ خوابوں کو بھی ممکنات کے عکس مانتا ہے اور خوابوں اور خیالوں کی دنیا سے نکل کر ایسی دنیا میں چلا جانا چاہتا ہے جہاں بس اس کی ذات ہو اور کوئی کائنات نہ ہو اور شاید شاعر وہاں پہنچنے میں کامیاب بھی ہوا ہے : ؎
بہت دنوں سے کوئی خواب بھی نہیں آتا
چھڑا کے کون گیا ممکنات سے مجھ کو
فریدؔ گوشت پوست کے بنے قلندر انہ مزاج رکھنے والے منش تھے ۔ وہ ہر اُس شئے سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے جس کا راست تعلق اُن کی ذات سے ہو ۔ شاید حادثات ِ زندگی نے ہی اس کی خمیر میں تعمیر کا مادہ بھر دیا ہو اور غالبؔ کے بقول تخریب میں تعمیر کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا ہو: ؎
اٹھتا ہے عجب درد سلسل میرے دل میں
ہے ہاتھ اسی کا مری تعمیر میں شاید
زندگی کی حرکیت کا احساس فریدؔ کو بڑھ چڑھ کر ہے ۔ دنیا کی بے ثباتی کا اُس کو پورا ادراک ہے ۔احساسِ جمال اُس کے رگ و پے میں ہے ۔ گلابوں کی رُت کا وہ شیدائی ہے۔ زمانے نے اُس کے ساتھ ہزار طرح کے فریب کئے، کچھ غیروں نے ایزا دی، کچھ اپنوں نے بے وفائی کی، جور پیشہ فلک نے ستم پہ ستم ڈھائے لیکن وہ سب کچھ خندہ پیشانی سے جھیلتے رہے۔ امیدوں کے شہر میں محل خانوں کو تعمیر کرنا ، اُس کا مشغلہ رہا ، زمانے نے جو بھی رنگ دکھائے ، اُس نے اپنے آپ کو اُنہی رنگوں میں رنگنے کی کوشش کی : ؎
میں اُداس نہیں ہوں جو امید کا شہر نشانہ بنا
جو بھی رنگ دکھائے زمانہ مجھے اُسی رنگ میں میں بھی غریق رہا
فریدؔ رفاقتوں کا رسیا ہے لیکن جب یہی رفاقتیں زیاں کاریاں بن جاتی ہیں تو شاعر کے نرم ا ور کومل دل کو زبردست ٹھیس پہنچتی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ زندگی غموں سے عبارت ہے لہذا رنج و الم کا بار اٹھانے کا عادی بن گیا ہے ۔ ایسا عمل سیاہ پوش زندگی میں خوشیوں کی نوید ڈھونڈنے کے مترادف ہے ۔ محبت بھرے دل ہمیشہ محبت کا تقاضا کرتے ہیں ۔ پروین شاکرؔ کا یہ کہنا بجا ہے کہ محبت جب تقاضائے جسم و جان سے ماورا ہو جائے تو الہام بن جاتی ہے ۔حسن جب لطافت کی آخری حدوں کو چھولے تو خوشبو بن جاتا ہے : ؎
رفاقتوں کی زیاں کوشیوں سے بچ کے چل
وہ کہہ رہا ہے سیہ پوشوں سے بچ کے چل
فریدؔ کی شاعری میں روایتی طرز کا محبوب دکھائی نہیں دے رہا ہے اور نہ ہی کسی مخصوص موضوع کے ارد گرد اُس کی شاعری کا پہیہ گھومتا ہے۔ اُس کی شاعری میں شہر افسوں کا ذکر بڑے زور و شور سے ملتا ہے ، زمانے کی کج رویوں کے بارے میں فنکارانہ انداز میں اظہار ملتا ہے، رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ کا ملال بھی نظر آتا ہے ۔ بے چہرگی کے بارے میں بے لاگ تبصرہ بھی ملتا ہے : ؎
ملنے کو تو ملتے ہیں مگر دل نہیں ملتا
رشتے ہوئے ہیں اب کے بحال اور طرح کے
اکثر ایسا ہوا ہے کہ نا مساعد حالات ، دردِ آگہی اور وارداتِ قلب و جگر فنکار کی تخلیقی صلاحیتوں کو بیدار کرنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں ۔ اس پس منظر میں اگر فریدؔ کے تخلیقی سر چشموں کا جائزہ لیں تو لگتا ہے کہ ایک تھکا، ہارا مسافر وقت کے بے رحم تھپیڑوں کو سہتے سہتے ساحلِ امید پر کھڑا کسی روشنی کو تلاش کر رہا ہے ۔ اُس کی آنکھوں میں انتظار کا کرب صاف جھلک رہا ہے ۔ تیرگی اگرچہ بڑھ گئی ہے لیکن یہ مسافر موہوم منزل کی جانب اپنا سفر امکان شروع کرنے کیلئے پَر تول رہا ہے ۔ اس حقیقت کے باوجود کہ تاریکیوں نے شش جہت کو گھیر رکھا ہے ۔ شاعر کو رات ہی جینے کیلئے اُکساتی ہے ، صحبتِ شب میں اُسے صبحِ طرب کی امید زندگی کا پیام سنا تی ہے : ؎
پہلے پوچھا جو نہیں تھا وہی سب پوچھتی ہے
زندگی رات سے جینے کا سبب پوچھتی ہے
آشوبِ آگہی، انکشافِ ذات اورانکشافِ کائنات کیساتھ ساتھ فریدؔ کے دل کے اندر شوق اور تجسس جنوں کی حد تک جاری اور ساری ہے ۔ یہ ساری چیزیں فریدؔ کے تخلیقی سوتوں کو جاری کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوئیں : ؎
آشوب آگہی سے کنارا نہیں کیا
اک بار کر چکا ہوں دوبارا نہیں کیا
فریدؔ کے شہر میں دام و دَدکا راج ہے ، معصوم چہرے مر جھا رہے ہیں ، آبادیاں آگ کی نظر ہو رہی ہیں ، کسی کا سہاگ اُجڑ رہا ہے ، کسی کی عزت لُٹ رہی ہے ، کہیں آگ و آہن کی ہولی کھیلی جا رہی ہے ، کہیں سڑکیں لہو میں نہائی جارہی ہیں ، کہیں دشت و صحرا کا منظر ہے ، کہیں نفرتوں کا سیلاب اُمنڈرہا ہے ، ذاتیں تقسیم ہو رہی ہیں ، براداریاں مٹ رہی ہیں ، کشت و خون کا بازار گرم ہے ، رشتے ٹوٹ رہے ہیں ، سماج بکھر رہا ہے ، اندھیروں نے اُجالوں کو نگل لیا ہے : ؎
میری بستی سے ہے گزرا ایک لشکر اس طرح
دودھ پیتے بچوں پر مشقِ سناں کرتا ہوا
کھو گئے گاڈھے دھویں میں شہر کے منظر تمام
اک پرندہ رہ گیا آہ و فغاں کرتا ہوا
سماج کی یہ شکست و ریخت اور ہر طرف تیرہ شبی کے گھناؤ نے مناظر شاعر کیلئے بکھراؤ کا سامان لاتے ہیں ۔فریدؔ اندر سے بُری طرح ٹوٹ چکا ہے ۔ اب وہ صرف ایک بے جان بُت بن چکا ہے ۔ مایوسیوں نے شاعر کو بُری طرح جھنجھو ڈ کے رکھ دیا ہے اور وہ خود کو ایک بے شمع کا فانوس سمجھ رہا ہے : ؎
تیرہ بشی نے آلیا میرا وجود
بے شمع کا فانوس ہوں ، حیران ہوں
کہتی رہی مجھ کو ہوا چل ساتھ چل
میں نے کہا ، محبوس ہوں، حیران ہوں
واقعی یہ ساری صورتحال خوفناک ہے ۔ خوابوں کی شمعیں بجھائی جا رہی ہے، سورجوں سے اُجالے چھینے جا رہے ہیں ،غیر یقینیت کی صورتحال نے ہر راستے کو دھند لکوں میں لپیٹ لیا ہے ۔ انسانی وجود خود بھی حصے بَخرے ہو کر مختلف خانوں میں بَٹ گیا ہے ۔ اس سب کے با وصف فریدؔ امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڈتا ۔ وہ ایک شاندار مستقبل کی آس لگائے بیٹھا ہے ۔ وہ خوابوں کو حقیقت میں تبدیل کرنے کا عزم کر چکاہے ، وہ تقسیم کرنے والی دیواروں کو منہدم کرنے کا ارادہ کر چکا ہے ۔ وہ امید اور آس کی نئی فصلیں بونے کی تیاریاں کر رہا ہے ۔ وہ پژ مردہ زمینوں میں نئی بہاریں لانے کا متمنی ہے : ؎
مرے سورجوں کو ڈراتے ہو جس سے
وہ ہے ایک تارا دکھاؤں گا اک دن
یقین ہے ملے گا وہ کھویا ہوا پَل
ہر اک راستے کو سجاؤں گا اک دن
فریدؔ زندگی سے ہار تسلیم کرنے کے موڈ میں نہیں ہے ۔ وہ مصائب سے گبھرانے والا آدمی نہیں ہے ۔شاعر آندھیوں سے لڑنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے اور رنج و الم سے دو دو ہاتھ کرنے کیلئے بھی تیار ہے ۔ وہ تیر کھا کر آہ بھی نہیں کرتا بلکہ بلاؤں کے نزول پر ذکرِ رب میں مشغول ہو جاتا ہے ۔ شاعر کے اندر تیرہ شبی میںخود کو جلا کر جگنو بننے کی صلاحیت موجود ہے ۔ وہ جیت پر جشن منانے کے بجائے اپنی ہار پر جشنِ طرب کا اہتمام کرتا ہے : ؎
جگنو مثال خود کو جلائیں گے رات بھر
معمور اس طریقے سے یہ تیرہ شب کریں
سب جیت پر مناتے ہیں اکثر یہاں پہ جشن
ہم کیوں بپا نہ ہار پہ جشنِ طرب کریں
فرید پربتی اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ وہ بیک وقت شاعر،نقاد، دانشور، محقق، ایک رفیق و شفیق استا د اور ایک با صلاحیت منتظم بھی تھے۔ یہاں پر اُن کی کس کس خصوصیت کو اُجاگر کیا جائے، اس کیلئے تو باضابطہ ایک دفتر درکار ہے۔ میں بس یہی کہنا چاہوں گا کہ فرید پربتی کی بے وقت موت کی وجہ سے اُردو شاعری کا پربت گِر گیا۔
ا پنے ادبی سفر کا آغاز کرنے کے کچھ ہی سال بعد فرید پربتی مقامی، قومی اور بین الا قوامی رسائل و جرائد کی زینت بنتے گئے۔ اپنے داخلی درد و کرب اور حسین و نازک جذبات و احساسات کا اظہار نہایت ہی فکری، لسانی، جمالیاتی اور فنی بالید گی، پختگی اور تخلیقی بہائو کے ساتھ اپنی شاعری میں کیا ہے۔ فریدپربتی نے یقینا بہت کم ادبی زندگی گزاری لیکن اس کم عمری میں ہی انہوں نے جو شہرت اور مقبولیت حاصل کی وہ ہر کسی کی قسمت میں نہیں آتیں۔ فریدؔ کے یہ اشعار شاید سچے ہوں : ؎
مٹی کی سب امانتیں مٹی کو سونپ دی
اک گھر بچا تھا وہ بھی مرا بھائی لے گیا
وسعت سڑک میں دے کے وہ رونق بڑھا گیا
لیکن مرے مکان کی انگنائی لے گیا



اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں