46

اکبرالہ آبادی

انس مسرورانصاری



اردوشاعری میں اکبرالہ آبادی نام کے ایک بزرگ ہوئے ہیں۔ 1846/میں پیداہوئےاور1921/میں اس دارِفانی سے ریٹائر منٹ لےکرخلدآشیانی ہوگئے۔ خدا انھیں ہمیشہ ہمیشہ غریقِ رحمت رکھے۔ ہمارے دانش مندکےبقول انھوں نے عجلت سے کام لیااور جلدی چلےگئے۔ کچھ دنوں اورجیتےرہتےتواردوشاعری کے گل وگلزارکو مزید لالہ زاربناتے۔ بہت پڑھے لکھے آدمی تھے۔ ان کی پڑھائی لکھائی سے متاثر ہوکر برٹش حکومت نے انھیں مجسٹریٹ کی مسند پر بٹھا دیا۔ وہ نہایت شگفتہ مزاج،بزلہ سنج،برجستہ گو، صاف دل اورمرنجامرنج قسم کے آدمی تھے۔ مشرقی تہذیب وروایت کے دل دادہ اورمغربی تہذیب وکلچرکےشدید مخالف تھے۔ ان کی نیک طبعی کو یورپ کی تہذیبی فحاشی اور عریانیت سخت ناپسندتھی۔انگریزی پڑھ کرلڑکےاور لڑکیاں بےراہ رو ہو رہے تھےاوراپنی آبائی تہذیب کو فراموش کرتےجا رہےتھے۔مغربی تہذیب مشرقی روایات کا مذاق اڑا رہی تھی۔ اکبر کےلیے یہ ناقابلِ برداشت تھا۔ وہ اپنےتیروتفنگ لےکرمیدانِ کار زار میں کودپڑےاورمغربی تہذیب کا ایسا مذاق اڑا یا کہ انگریز بدحواس ہوکر انڈیاسےبھاگ کھڑے ہوئے*

ہوئےا س قدر مہذب کبھی گھرکامنھ نہ دیکھا
کٹی عمر ہو ٹلو ں میں مرے ا سپتا ل جا کر
خدا کےفضل سےبیوی میاں دونوں مہذب ہیں
حجاب ا ن کو نھیں آ تا ا نھیں غصہ نھیں آ تا

سرکاری ملازمت سے سبکدوشی کے بعد کسی نے حال چال پوچھا تو کہنے لگے*

پکا لیں پیس کردوروٹیاں تھوڑےسےجّولانا
ہمارا کیا ہےا ئے بھائی!نہ ہم مسٹر نہ مولانا

زمانے کی بدلتی ہوئی قدروں سے وہ سخت نالاں تھے اوربان کا ذمہ دار انگریزی تعلیم کوسمجھتےتھے۔کہتےہیں*

ہمیں معلوم ہے ہوگابھی کیا تعلیمِ نسواں سے
بجز اس کے کہ ابااوربھی گھبرائیں اماں سے
حامدہ چمکی نہ تھی انگلش سےجب بےگانہ تھی
ا ب ہے شمعِ ا نجمن پہلے چر ا غِ خا نہ تھی

وہ ضعیفی میں بھی بڑےلڑاکو تھے۔ کبھی مغرب سے لڑتے اور کبھی مشرق سے۔ جب سامنےکوئی نہ ہوتا تو اپنے آپ سے لڑتے۔ خودپرغصہ کرتےاورجھنجھلاتے۔

تعلیم ہے لڑ کو ں کی کہ ا ک د ا مِ بلا ہے
اے کاش کہ اس عہد میں ہم باپ نہ ہوتے
ہم ا یسی کل کتا بیں قا بلِ ضبطی سمجھتےہیں
کہ جن کوپڑھ کےبیٹےباپ کوخبطی سمجھتےہیں
سدھاریں شیخ کعبےکوہم ا نگلستان دیکھیں گے
وہ دیکھیں گھرخداکاہم خداکی شان دیکھیں گے

اکبرکی ہمہ پہلو تیراندازی بہت خطرناک ہے۔ ان کا ہدف چیخنے کے بجائےہنسنےلگتاہے۔اکبرکاتیرغالب کے تیر ِنیم کش کی طرح کا ہے جو کبھی جگرکےپارنھیں ہوتا۔اسی میں اٹک جاتاہے۔

کوئی میرے دل سے پوچھےترےتیرمیم کش کو
یہ خلش کہا ں سے ہو تی جو جگرکے پار ہوتا (غالب)

ان کاتیربھی جگرکےپارنھیں ہوتاتھا۔ان کے لہجے کی کاٹ لاعلاج ہے۔ اکبر اپنےاس لہجے اوراندازکےموجدبھی ہیں اور خاتم بھی*

رقیبوں نے رپٹ جاجاکےلکھوائی ہے تھانے میں
کہ ا کبر نا م لیتا ہے خدا کا ا س ز ما نے میں

خواجہ الطاف حسین حالیؔ نے جب سرسید کےحالات پر مشتمل کتاب ’’حیاتِ جاوید‘‘ لکھی توبرائےتبصرہ کتاب کی ایک جلداکبرالہ آبادی کو بھیجی۔ یہ وہ دور تھا جب اکبر مغربی تعلیم کےسخت خلاف تھے اور سرسید کے مخالف گروپ سے تعلق رکھتےتھے۔علی گڑھ تحریک کے مخالفین میں پیش پیش تھے۔کہتےہیں*

سیداٹھےجوگزٹ لےکےتولاکھوں لائے
شیخ قرآن دِکھا تا پھِرا پیسہ نہ ملا

۔۔’’حیاتِ جاوید‘‘ پراکبرنے تبصرہ کے طور پر ایک شعر لکھا*

سیدکی سر گشت کو حالی سےپوچھئے
غازی میا ں کا حا ل ڈفا لی سےپوچھئے

بعدمیں جب اکبرالہ بادی کو سرسیدکےمشن کے قومی مفادات کا احساس ہواتو اپنے نظریات سے تائب ہوگئے اورایک خط میں سرسید کولکھا*

مجھ سے چندہ لیجئے مجھ کو مسلماں کیجئے

ایبٹ آباد(پاکستان) کے ایک وکیل الف دین نے ’’اسلام کی حقانیت‘‘ کےموضوع پر ایک کتاب لکھی۔کتاب چھپ گئی توتبصرہ کےلیے اکبرالہ آبادی کو بھی ایک جِلد بھیجا۔ انھوں نے کتاب پر ایک شعرلکھ کر کتاب واپس روانہ کردی*

الف دین نے خوب لکھی کتاب
کہ بے د ین نے پا ئی راہِ ثواب

کلکتہ کی رہنےوالی مشہور طوائف گوہرجان کےمجرے کی دھوم چہار دانگ عالم میں تھی۔ امیر و کبیر لوگ دور دور سے اس کے مجرے سننے اور دیکھنے آتے۔ ایک بار وہ الہ آباد میں ایک طوائف کے گھر مہمان ہوئی۔ گوہرجان نے میزبان سے خواہش ظاہر کی کہ وہ اکبرالہ آبادی سے ملنا چاہتی ہے۔ میزبان طوائف نے لاکھ سمجھایا کہ ان سے کیا ملنا۔ وہ تو ایک بوڑھے اور مذہبی آدمی ہیں۔ بہت امیروکبیربھی نھیں ہیں۔ ان سےمل کر کیا کرو گی،،؟
گوہرجان نے کہا۔۔مجھے ان کی شاعری بہت پسند ہے۔ وہ بہت بڑےشاعرہیں۔ میں توان سے ضرور ملاقات کروں گی۔۔ ناچار میزبان طوائف اسے ساتھ لےکر ٹم ٹم پر سوار اکبرکےگھرجاپہنچی۔جب انھیں خبر کی گئی کہ کلکتہ سے کوئی طوائف آئی ہےاوران سے ملنا چاہتی ہے۔اکبر بڑے متفکرہوئےکہ معلوم نہیں کون ساگل کھلنےوالاہے۔
پھر سوچاکہ اخلاق بھی کوئی چیز ہےاوربےچاری اتنی دور سے ملنے آئی ہےتوملناچاہئے۔انھوں نےگھرکی بیٹھک میں گوہر جان سے ملاقات کی۔ گوہرجان بڑے والہانہ انداز سے ملی۔گویاپیرومرشدسےملاقات ہوئی ہو۔ان کی شاعری کی خوب تعریف کی اورمجرےکےلیےکلام کی فرمائش بھی کی۔اکبربہت شرمائےاوربڑی انکساری کا اظہار کیا۔

شعرِاکبرمیں کوئی کشف و کرامات نھیں
دل پہ گزری ہوئی ہے اور کوئی بات نھیں
ہر رنگ کی باتوں کا مرے دل میں ہے جھرمٹ
اجمیرمیں کلچاہوں علی گڑھ میں ہوں بسکٹ
جیسا موسم ہو مطا بق ا س کے دیوانہ ہوں میں
مارچ میں بلبل ہوں جولائی میں پروانہ ہوں میں

یوں تو اکبر لاکھ شریف بلکہ شریف النفس تھے لیکن تھے تو شاعر! شعر و شاعری کا ماحول کافی دیر تک گرم رہا۔ گوہرجان ان کی اخلاقیات سے بہت متاثر ہوئی۔رخصت کے وقت اس نے ایک ڈائری نکالی اور اکبرکی طرف بڑھادی۔۔۔ حضرت!اس یادگار ملاقات کی نشانی کے بطور اس نوٹ بک میں اپنی آٹوگراف دےدیجئے۔ بہت مہربانی ہوگی۔ میں اسے جان سے زیادہ عزیز رکھوں گی،، گوہرجان نے اتنی لجاجت سےکہاکہ اکبر اس کی فرمائش کو ٹال نہ سکےاور نوٹ بک میں ایک شعرلکھ کرواپس کردیا۔*

حسن میں کوئی بھی یکتا نھیں گوہرکےسِوا
سب کچھ ا ﷲ نے د ے رکھا ہے شو ہرکےسِوا
اکبرالہ آبادی کی برجستہ قافیہ بندی کی مثال تلاش کی جائےتو وہ صرف جوش ملیح آبادی کے یہاں کسی قدر مل سکتی ہےاورکہیں نھیں۔علامہ شبلی نعمانی کے ایک خط کے جواب میں اکبر سرنامہ لکھتےہیں*
میں نھیں جا نتا قبلہ قبلی
صرف ا تنا کہ ائےبھائی شبلی
غرض کہ اکبرالہ آبادی کی ظریفانہ شاعری کا جواب ہے نہ کوئی مثال۔! وہ اپنےطرزکےخودہی موجد ہیں اور خود ہی خاتم بھی*
مری تقریر کااس بت پہ کچھ قابو نھیں چلتا
جہا ں بندوق چلتی ہے وہاں جادو نھیں چلتا
مری نسبت یہ فرماتے ہیں واعظ بدگماں ہوکر
قیامت ڈھائےگاجنت میں یہ بوڑھا جواں ہوکر


انس مسرورانصاری،
قومی اردو تحریک فاؤنڈیشن
سّکراول، اردو بازار، ٹانڈہ، ضلع امبیڈکر نگر 224190 (یو، پی)
رابطہ/9453347784

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں