180

پروفیسر عارفہ بشریٰ کشمیر یونیورسٹی کے اسکول آف آرٹس اینڈ لینگویجز کی ڈین مقرر

…………………………………………………………………….

ڈاکٹر محمد ذاکر
صوبہ جموں ضلع راجوری

موبائل نمبر:8825021138

کسی بھی دانش گاہ کے دو متحرک کردار ہوتے ہیں ایک طلبہ اور دوسرے اساتذہ۔اور اگر ان دونوں میں سے ایک بھی معطل ہو جائے تو پھر کاروبار دانش گاہ ختم ہو جاتا ہے۔ان دونوں کی ہم آہنگی سے ہی اس گلستاں کی رونق برقرار رہتی ہے۔ طلبہ اس چمن میں پھولوں کی مانند ہوتے ہیں اور اساتذہ باغباں کی طرح۔ یہ باغباں ہر صبح علم کی نسیمِ سحر سے ان پھولوں کی ذہنی سیرابی کا سلسلہ شروع کرتے ہیں اور جب تک یہ پھول بوۓ گل کی خوبیوں سے مالا مال نہ ہو جائیں، تب تک ان کی کاوشیں جاری رہتی ہیں۔ جب یہ گل ناشگفتہ پوری طرح گل سرسبد میں بدل جاتے ہیں ،تو انہیں ملک و قوم اور معاشرے کی خوبصورتی کے لئے مہکایا جاتا ہے تاکہ انسانیت کی خوشبو کی تربیت کا سلسلہ رک نا پاۓ۔لیکن ان تمام خوبیاں کی منتقلی کا معاملہ برائے راست ان باغبانوں یعنی اساتذہ کی مرہون منت ہے۔اگر یہ اس کام میں زرا سی بھی لاپرواہی برتتے ہیں تو یہ گلستاں خزاں کی زد میں آجاتا ہے۔اس کے بعد جو پھول بچتے ہیں وہ بوۓ گل سے محروم ہوتے ہیں۔لیکن ایسا شاذ و نادر ہی ہوا ہے۔کیونکہ اساتذہ اپنی ذمہ داری کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ انہیں ایک قوم ،ایک معاشرے اور ایک ذمہ دار شہریوں کو تیار کرنا ہے تاکہ ترقی کی راہیں ہموار ہوتی رہیں اور ملک و قوم آگے بڑھتے رہیں گے۔
‌ اساتذہ میں کچھ ایسے ہی صدف نایاب ہوتے ہیں جنہیں کھنگالنا اور ان کی پر کھ کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ لیکن صدف تو اپنی انفرادی خوبی سے پہچانا جاتا ہے اور نظر انداز کرنے کے باوجود وہ درخشاں رہتا ہے۔ اسے تاریک زمانہ کیا چھپاۓ گا وہ تو خود مداوا تاریکی ہوتا ہے۔یہی معاملہ ہے ڈین آف آرٹس اینڈ لینگویجز اور صدر شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی کی پروفیسر ڈاکٹر عارفہ بشریٰ صاحبہ کا ہے جنہوں نے اپنے علمی تبحر اور دانشوری کی وجہ سے جامع کشمیر میں کئی ترقی کے مراحل طے کیے ہیں۔جن کا فرداً فرداً ذکر کرنا محال ہے اور جنہیں اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ یہاں بیان کرنا تھوڑا دشوار ہے۔اس لئے بھی کہ موصوفہ نے جب سے اس دانش گاہ میں قدم رکھا اور تب سے لے کر آج تک ،یعنی ایک طالب علم کی حیثیت سے لے کر ایک مدرس کے مقام تک اپنی علمی اور بہترین کارکردگیوں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی پروفیسر عارفہ بشریٰ علم و ادب سے بہرہ ور ہونے کے لیے اس محنت ومشقت میں مصروف ہو گئی کہ پھر ان کی خداداد صلاحیتوں نے انہیں جامع کشمیر کے شعبہ اردو میں پروفیسر کے عہدے پر فائز کیا۔تب سے لے کر آج تک وہ تدریسی فرائض کے ساتھ ساتھ جامع کشمیر کے کئی بڑے انتظامی و انصرامی ذمہ داریوں میں مصروف ہیں۔ پہلے پروفیسر پھر صدر اور اب صدر اور ڈین آف آرٹس اینڈ لینگویجز کی حیثیت سے تعینات ہوئی ہیں۔اس کے علاوہ موصوفہ نے تیس سے زائد اسکالرز کو پی۔ایچ۔ڈی کروائی ہیں اور اس سے بھی زیادہ ایم۔فل ہنوذ یہ سلسلہ تھما نہیں۔ اس کے علاوہ موصوفہ کے مضامین /مقالے ملک کے کئی موقر رسائل وجرائد میں وقتاً فوقتاً چھپتے رہتے ہیں۔ جو ان کے تحقیقی وتنقیدی تبحر علم کا بین ثبوت ہے۔ قومی و بین الاقوامی علمی و ادبی تقریبات میں کئی بار مقالات پڑھ چکی ہیں ۔جہاں تک شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی کا تعلق ہے، تو اس میں آۓ دن کئی ورکشاپس اور سیمینارز کا انعقاد کرواتی رہتی ہیں۔جن میں علمی و ادبی حلقوں سے بڑی بڑی شخصیات کو مدعو کیا جاتا ہے۔ توسیعی خطبات بھی موصوفہ کی واضح علمی و ادبی دلچسپیوں کا مظاہرہ ہے جہاں قومی اور بین الاقوامی سطح پر تصدیق شدہ شخصیات کو بلا کر ان سے مختلف و متنوع موضوعات پر توسیعی خطبات دلواۓ جاتے ہیں۔ جو طلبہ و اسکالرز کے لیے بڑے مفید ثابت ہوۓ۔یہاں میں ایک بات کا ذکر کرتا چلوں کہ پروفیسر عارفہ بشریٰ صاحبہ اپنی” میرشناسی “اور ”غالب شناسی “کے لیے بھی جانی اور پہچانی جاتی ہیں جو کسی بڑے اعزاز سے کم نہیں ہیں ۔
پروفیسر عارفہ بشریٰ صاحبہ کی اس ترقی کو لے کر علمی و ادبی حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ کئی بڑی شخصیات یہاں تک کہ میڈیا میں بھی اس خبر کو بڑے ہی پر مسرت طریقہ سے پیش کیا گیا۔اور ساتھ ہی یہ امید ظاہر کی گئی کہ آنے والے دنوں میں موصوفہ کی سربراہی شعبہ اردو کے لیے کافی بارآور ثابت ہو گی اور شعبہ اردو ترقی کی نئی نئی راہیں طے کرے گا۔ان میں معاصر دور کے قد آور اردو قلم کار اور دانشور ڈاکٹر محی الدین زور کشمیری نے پروفیسر عارفہ بشریٰ صاحبہ کے ڈین مقرر ہونے پر ان باتوں کا خلاصہ کرتے ہوئے کہا ہے:
”موصوفہ کی تعلیمی اور ادبی لیاقتوں کا میں معترف تو ہوں ہی ،ساتھ ہی جہاں تک کہ ان کی انتظامی صلاحیتوں کا تعلق ہے اس ضمن میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ان کی سربراہی میں شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی میں نئی جان پیدا ہوگی۔خاص کر پچھلے کئی برسوں سے یہاں فارغ التحصیل طلبہ اسکالرز اور اساتذہ کے بیچ میں ایک خلا سا پیدا ہو گیا تھا جسے انہوں نے اپنے تدبر سے پر کیا۔دوسری طرف ہم سبھی اردو والوں کو پروفیسر عارفہ بشریٰ کی اس عظیم قربانی کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کیوں کہ انہوں نے اپنی ساری زندگی اردو کے لیے وقف کر رکھی ہے۔“
ان کے علاوہ کئی ادبی انجمنوں نے بھی اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے پروفیسر عارفہ بشریٰ صاحبہ اپنے اپنے طریقے سے مبارکباد پیش کی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں