ڈاکٹر محی الدین زورؔکشمیری
Be with people who encourage you to express yourself (Anonymous)
میں نے اپنی طالب علمی کے زمانے میں عالمی ادبا کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر صرف غلام نبی خیالؔ کو ہی زیادہ ترپڑھا۔ پوسٹ گریجویشن کے بعد اب وہ وقت آگیا، جب میں ادبی محفلوں میں بیٹھنے لگا تو وہاں خیالؔ صاحب کے علاوہ کسی اور بڑے ادیب اور صحافی نے مجھے لفٹ نہیں دے دیا۔ اس کی کیا وجہ ہو سکتی تھی، یہ بات قابل غور ہے!۔
اس طرح خیالؔ صاحب کو پڑھنے کے بعد اور ان کے نزدیک آنے سے ہماری ہمہ خیالی ہوئی۔ اب ایک اور منزل ہماری زندگی میں یہ آگئی کہ ہم لوگ نوکری، مسابقتی امتحانات اور ریسرچ کی تلاش کرنے لگے۔ اور جب KAS میں کشمیری مضمون لینے کی باری میرے دوستوں کو آتی تھی، تو میں انہیں خیالؔ صاحب کی بیشتر کتابیں ریکمنڈ کرتا تھا، جن سے انہیں اچھا خاصا فائدہ مل رہا تھا۔
ہم کلچرل اکیڈمی کی ایک محفل میں تھے کہ خیالؔ صاحب نے مجھے اپنے آفس واقع زیرو برج راجباغ آنے کو کہا۔ ایک دن میں وہاں گیا اور خیالؔ صاحب نے مجھے اپنی بہت ساری کتابیں، رسائل اور اخبار Voice of Kashmir کے بہت سارےشمارے دے دیئے۔ میں نے ان کی ایک کتاب "اظہار خیال 2003” کو پڑھ کر ایک طویل تنقیدی مقالہ لکھ دیا۔ جوں ہی خیالؔ صاحب نے دیکھا اور اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہی اور وہ مجھے کہنے لگے آج سے میرا سارا ادبی ورثہ تیرا ہو گیا۔ جیسے اس کو سنبھال سکو گے، اب وہ تیرا کام ہے۔ اس کے بعد خیالؔ صاحب اور میری دوستی کا سلسلہ بڑھ گیا۔ میں ان کے پاس جاکر گھنٹوں بیٹھ جاتا تھا اور وہ میرے سامنے اپنے تجربات، کشمیری ثقافت اور سیاست سے متعلق معلومات کا خزانہ کھول کر رکھ دیتے تھے۔ اپنی ہر کتاب کی درجنوں کاپیاں مجھے دے دیتے تھے تاکہ میں انہیں مفت میں طلبہ اسکالرس میں تقسیم کر سکوں گا۔
2006ء میں میرا تقرر جے اینڈ کے اکیڈمی آف آرٹ کلچر اینڈ لنگویجز لال منڈی سرینگر میں ہوا۔ خیال ؔصاحب میرے پہلے ایسے ادیب دوست ہیں جو میرے پاس آگئے اور چونکہ وہاں ان کا آنا جانا رہتا تھا، اس لئے مجھ سے جتنا بھی بن پاتا تھا، میں ان کی عزت اور خاطرداری وہاں کرتا تھا، اس کے بعد میں محکمہ اعلا تعلیم میں تعینات ہوا۔میں کئی بار خیالؔ صاحب کے گھر راول پورہ گیا اور وہ بھی ہمارے گھر کی بہت ساری تقریبات میں رونق محفل ہوئے۔ خیالؔ صاحب کو یہاں کے بہت سارے ادیبوں دانشوروں سے ان بن رہتی تھی، لیکن امین کامل جیسے کئی ادبا کی وہ بے حد قدر کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان پر کشمیر یونیورسٹی میں کوئی ریسرچ نہیں کروائی گئی، لیکن اس بات کا نوٹس لیتے ہوئے میں نے اپنے ایک عزیز شاگرد ڈاکٹر رفیق احمد بانڈے ناجن بیروہ بڈگام کو برکت اللہ یونیورسٹی بھوپال سے ان پر Ph.D کروایا۔ عالمی اردو ٹرسٹ کی طرف سےمجھے انعام ملا، اس میں میرا نام انہوں نے تجویز کیا تھا ۔ NCPUL کا ممبر بننے کے لئے انہوں نے بار بار میرے نام کی سفارش کی تھی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اکثر لوگ ادبی پروگراموں سے پیسہ کمالیتے ہیں اور خیالؔ ان محفلوں میں اپنے جیب کا پیسہ لگاتے تھے۔ ٹھیک یہی حال ان کی کتابوں کا بھی تھا۔ انہوں نے کشمیر یونیورسٹی میں اپنی کتاب Progressive Literary Movement in Kashmir کی اتنی کاپیاں طلبہ اسکالروں کو مفت میں دے دئیںکہ اگلے دن Greater Kashmir میں یہ خبر شائع ہوئی یہ کوئی باہر کی سازش ہے۔! خیالؔ صاحب یہاں کے ادبا کو تاکید کرتے تھے کہ ایک زبان میں نہیں بلکہ کئی زبانوں کو پڑھو اور لکھو جیسے وہ خود اُردو کشمیری اور انگریزی میں لکھتے تھے، یہاں تک کہ فارسی زبان پربھی ان کی اچھی خاصی دست رس تھی۔ اسی لئے دوسرے ادبا پر اپنے اس ہتھیار سے خوب وار بھی کرتے تھے۔ خیالؔ صاحب ہم جیسے چھوٹے چھوٹے قلم کاروں کے لئے بہت ہی نرم دل اور میٹھے مزاج کے آدمی تھے لیکن بڑے بڑے ادبا پر تابڑ توڑ حملے بھی کرتے تھے یہاں تک کہ انہوں نے قومی سطح پر بھی بڑے بڑے شاہ ماروں کا counter attack کرکے خبر لے لی جیسے ممبئی کے طارق شمیم کی سرقہ کاری کو انہوں نے ننگا کیا۔ کشمیر سے متعلق یہاں کے اور باہر کے قلم کاروں کی غطیوں کی تحقیقی سطح پر نشاندہی کی جن میں قرۃ العین حیدر اور آل احمد سرور، جگن ناتھ آزاد کو نہیں بخشا۔ !
کشمیریت ان کے نس نس میں سمائی ہوئی تھی۔ ان کی بیشتر تحریریں کشمیر سے ہی متعلق ہیں۔ کھلے دل و دماغ اور پکے محب وطن اور سکیولر آدمی تھے، اس لئے ان کے دوستوں میں ہندومسلم سکھ بھی تھے۔ کئی اسفار کئے اپنے وژن کو اونچا کیا۔ اپنے حق کے لئے یکدم آواز بلند کرتے تھے، اسی لئے انہیں نہ کبھی سرکار نے اور نہ کسی ادبی تنظیم نے فراموش کیا۔ بنیادی طور پر وہ کمیونسٹ تھے اور کشمیر کے متعلق اپنا سیاسی نظریہ رکھتے تھے اسی لئے ایک بار ان کے گھر کو دھماکہ کیا گیا۔حالانکہ نمود و نمائش کے بالکل قائل نہ تھے۔ ہر عمر کے لوگوں سے گل ملتے تھے۔ اکثر نفیس صاف و شفاف لباس میں بڑے خوش و خرم نظر آجاتے تھے اور خرچ کرنے کے معاملے میں بھی بڑے فراخ دل تھے۔ ان کی شکل و صورت اور شخصیت سے ان کا بڑھاپن چھلکتا تھا، اس لئے ہر کوئی ان کے ساتھ بڑے تمیز سے پیش آتا تھا۔ پہلی ہی نظر میں اس کی بڑی اور بردبار شخصیت کا اثر محفل پر چھا جاتا ہے۔
اب ان کی تقریر کی بات کرتے ہیں۔ کشمیر یونیورسٹی میں جب اپنی کتاب کے اجرا کے وقت وی سی اور گورنر این این ووہرا کی موجودگی میں انگریزی زبان میں زبانی تقریر کی تو بڑے بڑے انگریزی کے پروفیسروں، ڈاکٹروں کے پسینے چھوٹ گئے۔ اسی طرح جموں یونیورسٹی میں ہم دونوں کئی بار سمیناروں میں اکٹھے گئے تھے، وہاں ایک بار پہلے وی سی بولے اور اس کے بعد جب خیالؔ صاحب نے اپنی تقریر شروع کی، تو دلی، حیدرآباد، ممبئی کے کچھ پروفیسر آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ دیکھئے کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر کتنے کمال کے آدمی ہیں۔ میں نے انہیں کہا یہ صحافی ہے کوئی چانسلر نہیں یا سرکاری ملازم نہیں ہے۔ انہوں نے دیر تک میری باتوں پر یقین نہیں کیا۔ غرضیکہ خیالؔ ہر موضوع پر کسی بھی محفل میں بہت ساری زبانوں میں پیشہ وارانہ انداز میں بول سکتے تھے۔ ایک ڈنر کی محفل میں پروفیسر ایشر سنگھ (وی سی جموں یونیورسٹی) پروفیسر طلعت (وی سی کشمیر یونیورسٹی) ان کی بیویاں (ایرانی دو بہنیں یعنی دونوں وی سیز آپس میں ہم زلف ہیں) اور دیگر بڑے بڑے پروفیسرس تھے، مگر سبھی لوگ خیالؔ صاحب کی باتیں غور سے سنتے تھے اور کسی کی کیا مجال خیالؔ صاحب کی بےباکی کے باوجود کوئی اپنے ہونٹ ہلا سکے۔
جموں یونیورسٹی میں ہی 2013ء کی سخت سردیوں میں ہم لوگ سمینار میں تھے کہ کشمیر میں سخت برف باری ہوئی اور ہوائی زمینی رابطے سارے کٹ گئے۔ اس دوران خیالؔ صاحب کو ڈبل نمونیا ہو گیا۔ ڈاکٹر عبدالرشید منہاس نے ڈاکٹر وغیرہ کا سارا انتظام کر لیا اور میں کئی دنوں تک خیالؔ صاحب کی تیمارداری کرتا رہا اور پھر بڑی مشکلوں سے انہیں گھر پہنچادیا۔ جموں کے ہوائی اڈے پر جب ہم جہاز کا انتظار کر رہے تھے کہ ہماچل سے آئے ہوئے کشمیر کے ایک لکڑہارے نے خیالؔ صاحب کے سرہانے اپنی چادر رکھ دی جسکی بیوی کا انتقال اسی وقت ہو چکا تھا۔! غالباً خیالؔ صاحب پہلے کشمیری ادیب ہیں کہ جن کا انٹرویو میری بدولت "اردو دنیا” میں چھپ گیا۔! خیال صاحب کے شعری مجموعے "شبنم کا آتش کدہ” کی رسم رونمائی شہنشاہ پیلس ڈلگیٹ میں تھی اور اسی دن دسمبر 2016ء صبح کے وقت میرے والد کا آپریشن تھا۔ جب مجھے لگا کہ آپریشن کامیاب ہوا تو فی الفور مریض کی تیمارداری کے لئے اپنے بھانجے انیس الاسلام کو رکھا اور خود خیالؔ صاحب کی فنکشن میں چلا گیا۔ اس کے بعد علی گڑھ جاکر وہاں خیالؔ کی کتاب پر ایک تبصرہ لکھا، جس کو بعد میں ترمیم و اضافے کے بعد مضمون کی صورت میں 2022ء کشمیر یونیورسٹی کے ایک سمینار میں پڑھا۔ حالانکہ خیالؔ صاحب پر میرے کئی مضامین ہیں جن میں ایک مضمون میں میں نے ان کی کتاب "گاشر منار” کا موازنہ جمیل جالبی کی کتاب ارسطو سے ایلیٹ سے کیا۔
2018 میں میں نے خیالؔ صاحب کو گورنمنٹ ڈگری کالج ماگام میں اپنے ایک سمینار میں صدارت کرنے کے لئے بلا لیا۔ اس کے بعد اپنی کئی مصروفیات کی وجہ سے خیالؔ سے کچھ دوری ہوئی۔ جس میں انہوں نے مجھے میری کتاب جموں و کشمیر میں اردو صحافت میں ترمیم کرنے کو کہا تو مجھے ناگوار ہوا۔ میرے کئی دوستوں جیسے الطاف انجم سے انہیں چڑ تھی۔ انہوں نے مجھے اپنا ادبی وارث مان لیا تھا لیکن اپنے ذاتی کتب خانے تک رسائی نہیں دے دی۔ میرے عزیز شاگرد ڈاکٹر رفیق احمد بانڈے کے ساتھ معمولی باتوں پر اُلجھ پڑے۔ بزرگی میں بھی لونڈوں جیسی حرکتیں کرتے تھے۔ خیال صاحب کی موت یا اس سے پہلے بیماری میں بھی وہ تن تنہا تھے۔ وجہ ان کی تند مزاجی اور سماجی رشتوں سے آزادی جس کے لئے انہیں میں نے بارہا اصرار کیا کہ آپ اپنی فیملی کو سنبھالو۔ جس بات پر انہوں نے کبھی غور ہی نہیں کیا۔ !
اس سارے کے باوجود ہم کشمیریت کے اس پاسدار کو کبھی بھی نہیں بھولیں گے اور اس کا بار احسان پورے کشمیر پر ہے۔