ڈاکٹر محی الدین زور کشمیری
دارالادب فراش گنڈ ، بڈگام
غلام نبی خیال کے مطابق ان کا جنم ۴ ؍ مارچ ۱۹۳۹ء کو سرینگر کشمیر میں ہوا۔ ابتدائی تعلیم سرینگر کے ایک تاریخی اسکول’’ اسلامیہ ہائی اسکول‘‘ سے حاصل کرلی۔ پہلے ریڈیو کشمیر سرینگر میں ملازم ہوئے اور اسکے بعد جے اینڈ کے اکیڈیمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجز میں بھی کچھ برس تک کام کیا، لیکن وہ سرکاری نوکریوں میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں لیتے تھے، اس لئے یکے بعد دیگرے دونوں نوکریوںسے الگ ہوئے۔ سیاسی دلچسپی بھی رکھتے تھے۔ اس وجہ سے انہیں جیل بھی جانا پڑا، جہاں کئی اہم کتابوں کا مطالعہ کیا اور وہاں مولانا محمد سعید مسعودی کے اثر میں بھی آگئے، اس طرح رُباعیات عمر خیام کا ترجمہ وہیں کیا۔ جیل سے چھوٹنے کے بعد وہ صحافت کے پیشے سے جُڑ گئے۔ مطالعے کو جاری رکھتے ہوئے جموں و کشمیر یونیورسٹی سے پرائیویٹ اُمیدوار طور پر ایم اے اُردو کی ڈگری حاصل کرلی۔مختلف زبانوں اور ادبیات کا مطالعہ اس قدر کیا کہ ایک تو، وہ بہ یک وقت تین زبانوں اُردو انگریزی اور کشمیری میں لکھتے ہیں، اچھّا خاصا speach دیتے ہیں اور ایک زبان کو دوسری زبان میں ( بشمول فارسی) منتقل بھی کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ تینوں زبانوں میں انعامات بھی حاصل کرلئے۔تینوں زبانوں میں اب تک ان کی بتیس سے زائد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں اور مختلف اخبارات، جرائد اور رسالوں میں چھپے ہوئے ان کے مضامین اور اخباری کالموں کی تعداد کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ہے۔
انکی چند اہم کتابوں میں رباعیات عمر خیام (۱۹۶۱) ، زنجورہ ہند ساز (۱۹۶۳) ، گاشر منأر( ۱۹۷۳ء) اقبال اور تحریک آزادی کشمیر۔ (چار ایڈ شنز) کاروان ِخیال ، چنار رنگ ، کشمیر کی وادی (ترجمہ)
Leaves of Chinar (2012), Progressive Literary Movement in kashmir (2011)
اور شبنم کا آتش کدہ وغیرہ خاص شامل ہیں۔ انکے حاصل کردہ دو درجن انعامات میں چند اہم انعامات میں ریاستی کلچرل اکاڈمی ایوارڑ، ساہتیہ اکاڈمی انعام وغیرہ ۔۔۔۔خاص اہم ہیں۔
اُردو ، کشمیری اور انگریزی کے تقریباً سبھی بڑے بڑے ریاستی ملکی اور بین الاقوامی اخبارات رسائل اور جرائد میں انکے مضامین تواتر سے چھپتے رہے، وہ کئی پرنٹ اور الیکٹرانک ایجنسیوں کے ساتھ وابستہ رہے۔ کئی اخباروں اور رسائل کی ادارت بھی انھوں نے سنبھالی۔
غلام نبی خیالؔ نے اگرچہ تھوڑی ہی مدت کیلئے سرکاری نوکری کی، مگر اگر دیکھا جائے، تو وہ بھی ان کی صحافتی سروس میں ہی شمار کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ ریڈیو الیکٹرانک میڈیا میں آتا ہے اور کلچرل اکیڈیمی کے کام کو ادبی صحافت کے کھاتے میں ڈالا جاسکتا ہے۔ غلام نبی خیالؔ کے اچھے صحافی ہونے میں کوئی دو رائے نہیں، البتہ صحافتی Management میں وہ کسی حد تک ناکام ہی رہے، اسی لئے وہ وید بھیسن Kashmir times فیاض احمد کلو Greater kashmir communication کشمیر اعظمیٰ، ثنا اللہ بٹ (آفتاب) صوفی غلام محمد ( سرینگر ٹائمز) کے جیسا کو ئی اپنا Establishment نہیں بنا سکے۔ ٹھیک یہی حال پرتھوی راج کپور کا بھی تھا۔ وہ بہت بڑے فلم ساز اور اداکار مانے جاتے ہیں، لیکن بقولِ خواجہ احمد عباس کے وہ ناکام پرڈیوسر تھے۔ اس کے باوجود بھی اگر پوری ریاست کی صحافتی تاریخ میں ہمیں مجموعی طور پر چند اچھّے صحافیوں یا قلم کاروں یا ادبی صحافیوں کی تلاش ہوگی، تو ہماری نظر محمد الدین فوقؔ کے بعد سیدھے غلام نبی خیالؔ پر ہی رُک سکتی ہے۔
ان کی ادبی خدمات الگ۔ انکی صحافتی زندگی پر ایک ضخیم کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ مگر خیال صاحب کی ادبی و صحافتی خدمات کا جائزہ پوری طرح سے ابھی تک نہیں لیا گیا، اگرچہ انہیں کافی انعامات و اعزازات سے نوازا گیا۔
ہندوستان میں جب ترقی پسند تحریک سکڑنے لگی، تو کشمیر میں اس نے اپنا سر نکالنا شروع کیا۔ یہاں کے بیشتر ادیب اس تحریک سے وابستہ ہوگئے۔ اس تحریک سے وابستہ قلم کاروں نے اپنی ترجمانی کیلئے ۱۹۵۴ء میں رسالہ ’’ کونگ پوش‘‘ جاری کیا اور اسکی ادارت۱۹۵۵ء غلام نبی خیالؔ کو ہی سونپی گئی۔ انکے ساتھ اس رسالے کی ادارت میں عبدالعزیز ہارون اور نور محمد روشن بھی شامل تھے۔ اس طرح یہ رسالہ برسوں تک جاری رہا اور ہماری ادبی تاریخ کا ایک اہم باب رقم کر گیا۔ سیاسی سطح پر مسئلہ کشمیر نے کئی کروٹیں بدل لیں۔ یہاں ’’ محاذ رائے شماری‘‘ ایک سیاسی گروپ وجود میں آگیا اور ۱۹۶۴ء میں اس گروپ نے اپنا ترجمان ہفت روزہ ’’ محاذ‘‘ جاری کیا، جس کے مدیر غلام نبی خیالؔ چُن لئے گئے، اس ہفت وار کا شیر کشمیر نمبر خاص یادگار ہے۔ یہ اخبار اپنی دم دار تحریروں کی وجہ سے حکومت کی نظروں میں کھٹکتا رہا، اس لئے صادق حکومت نے اس پرچے پر ۱۹۷۷ء میںپابندی لگا دی۔ خیال صاحب کو سیاسی پشت پناہی بھی حاصل تھی، اس لئے انہوں نے ۱۹۶۵ء میں بہت جلد اپنا پہلاکشمیری ہفت روزہ ’’ وطن ‘‘ جاری کیا۔اخبار ’’ وطن‘‘ کشمیری زبان میں تھا، جسکی Readership محدود تھی، اس لئے خیال صاحب کو یہ اخبار جون ۱۹۶۸ء میں ہی بند کرنا پڑا۔ البتہ اس کے ۱۰۶ شماروں میں کچھ خصوصی شمارے جیسے امن نمبر ، شہید نمبر ، محرم نمبر وغیرہ آج بھی حوالے کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ’’ امن نمبر‘‘ ایک سو صفحات پر مشتمل ہے، جسکی نظیر صحافتی تاریخ میں دُور دُور تک ہی دیکھی جاسکتی ہے۔ ’’ وطن‘‘ کے بند ہوجانے کے بعد ہی انہوں نے ۱۹۶۸ء میں اپنا اُردو ہفت روزہ’’ اقبال‘‘ شائع کیا ہے، جس کو بعد میں روزانہ کردیا گیا۔ یہ اخبار باقی اخبارات سے کچھ ہٹ کر ضرور تھا، اسے ہم نیم ادبی اخبار کہیں گے۔ اس اخبار میں سردار جعفری ، حسر ت جے پوری ، دلکش آفریدی ، بانو سرتاج ، لیلا لکھنؤی وغیرہ جیسے قلم کار چھپتے تھے۔خیال صاحب کو کچھ اپنی ذاتی مجبوریوں کے سبب اس کو بھی ۱۹۷۵ء میں بند کرنا پڑا۔
اس دوران خیال صاحب نے صحافت کا دوسرا رُخ اپنا لیا۔ وہ India Today نیوز میگزین کے نامہ نگار دس سال تک رہے۔ ۱۹۷۷ء میں Status man کے نامہ نگار ہوئے۔ کشمیر یونیورسٹی میں جب منظور الامین کی سر براہی میں شعبٔہ مآس کمیونیکیشن کھل گیا، تو خیال صاحب کو وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر وہاں دو سال کیلئے بلایا گیا۔ انہوں نے ریاستی، ملکی اور غیرملکی بہت سارے اخبارات اور نیوز چنلوں کیلئے کام کیا۔ جن میں وائس آف امریکہ ، انڈیا ٹوڈے، السٹریڈ ویکلی آف انڈیا، سنڈے میل، گجرات سماچار،نے شن پاکستان، جرمن ریڈیو، سکائی نیوز ٹی وی لندن، گارڈین لندن، پاکستان ٹیلی وژن، نوائے وقت پاکستان، ٹائم میگزین امریکہ نام کے چند خاص اہم ادارے ہیں۔ رواں شورش کے دوران غلام نبی خیال پر نا معلوم ایجنسیوں نے دو بارجان لیوا حملے کئے، جسکی وجہ سے انہیں بیرونی ممالک کی نیوز ایجنسیوں کے ساتھ کام کرنا ترک کرنا پڑا۔ پھر بھی وہ ۲۰۰۲ء سے اپنا انگریزی نیم ادبی پرچہ Voice of kashmir نکالتے رہے۔ اسکے علاوہ اُردو کشمیری اور انگریزی کے چوٹی پایہ ادبی رسالوںمیں انکے ادبی و ثقافتی، مضامین تواتر سے چھپتے رہیں۔جن میں شیرازہ، ہمارا ادب( اُردو، کشمیری، انگریزی)کلچرل اکیڈیمی، اُردو دُنیا، ایوانِ اُردو، آجکل(دلی) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ غلام نبی خیالؔ Greater kashmir کے ساتھ ساتھ وادی کشمیر کے مختلف اخباروں اور رسالوں جیسے کشمیر اعظمیٰ، کشمیر پرچم ، بے لاگ وغیرہ کیلئے حالات حاضرہ پر لگاتار Freelance کے طور پر مضامین لکھتے تھے۔
مختلف انعامات کے ساتھ ساتھ خیال کو جو انکی صحافتی خدمات کے عوض انعامات دے دئے گئے، ان میں ناگری پرچارنی سبھا کلکتہ ۱۹۷۶ء جرنلسٹس ویلفیر فونڈیشن ایوارڑ نئی دہلی ( ۱۹۸۲ء) لالہ ملک راج صراف ٹرسٹ ایوارڑ جموں ( ۱۹۸۹ء) دور درشن ایوارڑ چندی گڑھ ۲۰۰۶ء، دستار فضلیت ( پیش کردہ ریڈیو کشمیر کشتواڑ (۲۰۱۳ء) اور راج بیگم ایوارڑ سرینگر ۲۰۱۴ء خاص شامل ہیں۔ ۱۹۷۶ء میں انہوں نے کل ہند ایڈیٹرس کا نفرنس کے سلسلے میں بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے ملاقات کی۔ انہیں برٹنڈر سل نے ۱۹۶۶ء میں ایک خط بھی لکھا۔خیال صاحب نے جنوری ۱۹۹۰ء میں وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو لاہور میں انٹریو لے لیا۔ اسی طرح صدر ہند گیانی ذیل سنگھ ( جولائی ۱۹۸۶ء) سکندر حیات خان وزیر اعظم پاکستانی مقبوضہ کشمیر ( ۱۹۸۷ء) فروری ۱۹۸۷ء میں صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق، ۱۹۷۹ء لتا منگیشکر، ۱۹۹۶ء میں، نصرت فتح علی خان، گلزار وغیرہ جیسے عالمی شہرت یافتہ شخصیات کے انٹریو بھی انہوں نے لے لئے۔
جیسے کہ اُوپر ہم نے خیال صاحب کے نیم ادبی ہفت وار اخبار Voice of kashmir کا ذکر کیا ہے۔ یہ اخبار آٹھ صفحات پرپھیلا ہوا ہوتا ہے، اس میں حالات حاضرہ کے ساتھ ساتھ ادبی اور ثقافتی مسائل اور مباحث ہی زیادہ تر چھپتے ہیں۔ خاص کر کشمیر کی ثقافت کو انگریزی زبان کے ذریعے فروغ دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اُردو زبان و ادب کے بارے میں بھی اس میں انگریزی زبان میں مضامین شائع کئے جاتے ہیں۔ ساتھ ہی خیال صاحب کی اپنی کتاب My story My kashmir اس اخبار کے ذریعے سیریل کی صورت میں قارئیں تک پہنچا دی گئی۔ مقامی ادب پاروں کا ترجمہ بھی انگریزی میں پیش کیا جاتا ہے۔
خیال صاحب بڑی آزادی کے ساتھ اُردو انگریزی میں کشمیر کے بارے مضامین لکھتے تھے، جو کہ مقامی اخبارات اور رسائل کی زینت بنتے تھے۔ یہ مضامین زیادہ تر سیاسی اور تاریخی نوعیت کے ہوتے تھے، جن میں ان کا نظریہ مسئلہ کشمیر صاف چھلکتا ہوا نظر آتا تھا۔ علاوہ ازیں Only Stinking, Dal for Kashmir (GK) ,Migrant Matters جیسے مضامین بھی ہمیں ملتے تھے۔ مجموعی طور پرکہا جاسکتا ہے کہ ریاست کے تمام قلم کاروں میں ’’کشمیریات‘‘ کی ترجمانی سب سے زیادہ واضح طور پر خیال صاحب ہی کیاکرتے تھے۔