192

آہ ! غلام نبی خیالؔ۔۔۔چند یادیں،چند باتیں

سہیل سالم

15 اکتوبر2023 کی صبح کو میں چائے کی چسکیاں لے رہا تھا کہ نور شاہ صاحب کا فون آیا اور کہا کہ ’’غلام نبی خیال کا انتفال ہوگیا ہے‘‘۔ آہستہ آہستہ میں نے ان لفظوں کو اپنے کانوں میں اتارنے کی کوشش کی۔ میں نےانّا للہ وانّا الیہ راجعون پڑھ کر کچھ تفصیل جاننے کی کوشش کی ۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا کہ پچھلے مہینے میں ان کے یہاں گیا تھا ۔ان کے ساتھ چند قیمتی لمحے گزارنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ شاہ صاحب نے کہا کئی دن پہلے ان کی سرجری ہوئی تھی اور جمعہ رات کو میں بھی ان کے یہاںعیادت کے لئے گیا تھا اور ان کی جسمانی حالت اس قدر خراب تھی گویاان کی زبان نے ان کا ساتھ دینا چھوڑ دیا تھا۔ شاہ صاحب کی یہ خبر سن کر میں نے فون رکھ دیا۔ زندگی اور موت کا یہ حیرت انگیز رقص ازل سے ہی جاری ہے ۔جس کا اعتراف خود غلام نبی خیال نے اپنی نظم ’’جنگ‘‘ ٔمیں کیا ۔بقول غلام نبی خیال ؎
دریا ئے خاک و خوں سے گزرنا ہے اور بھی
جینے کی آرزو ہے تو مرنا ہے اور بھی
صدیوں کے بعد جس کی ہر اک موج تلاطم
اس درد کے دریا کو بپھرنا ہے اور بھی
اے رہ روان قافلہ قتل گاہ شوق
صحرائے غم سے پار اترنا ہے اور بھی
اس خبر کی تصدیق کے لئے جب میں نے سوشل میڈیا کی جانب رُخ کیا تو سب سے پہلے ووئس آف امریکہ کے سینئر رپورٹر یوسف جمیل نے فیس بک پرپوشٹ اپ لوڈ کیا تھا کہ کشمیر کے معروف صحافی، شاعر،ادیب اور ترجمہ نگار غلام نبی خیال انتفال کرگئے اور نمازہ جنازہ 11بجے سرینگر کے راولپورہ علاقے میں ادا کیا جائے گا جہاں مرحوم غلام نبی خیال کئی سالوں سے مقیم تھے۔ میں نے اُستاد محترم اشرف عادل اور منظورکنٹھ کو بھی یہ اطلاع دی کہ غلام نبی خیال انتفال کر گئے ہیں۔ وہ بھی یہ منحوس خبر سن کر چونک گئے۔ ہم نے مشورہ کیا کہ ہم ضرور مرحوم کے جنازے میں شرکت کریں گے۔ گھر سے ساڑھے نو بجے نکل کر ہم پونے گیارہ بجے ان کے گھر پر پہنچ گئے اور ان کے جنازے میں شرکت کی۔
دراز قد، دلکش خا ل وخد۔ گلابی چہرا، آنکھوںپر پہرا۔ کشادہ پیشانی، صحافت کی کہانی۔سر پر سفید سفید بال، مترجم باکمال۔ بڑے بڑے کان، علم و آگاہی کا دبستان۔ موٹی ناک، زبان بے باک۔ لبوں پر مسکان، اردو وادب کی جان۔ یہ ہیں صحافت کا ممتاز قلم کار ،نامور کالم نگار۔ شاعری کا روشن ستارہ، فہم و ادراک کا گہوارہ۔ کشمیر کی وادی کا ترجمان، تاریخ کی شان۔ ووئس آف کشمیر کے مدیر، عالی جناب غلام نبی میر۔ غلام نبی خیال کا اصلی نام غلام نبی میرہے۔ خیال صاحب کاتعلق سرینگر کے حول علاقے سے ہیں ۔آپ 4 مارچ 1939 کو شہر خاص کے تاریخی علاقے حول میں تولد ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے ہی علاقے میں حاصل کی ۔ 1952 میں اسلامیہ ہائی اسکول راجوری کدل سے میٹرک پاس کرنے کے بعد ریڈیوکشمیر میںنوکری کا پیشہ اختیا ر کیا لیکن انھوں نے اس پیشے سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور صحافت سے وابستہ ہوگئے۔ جناب غلام نبی خیال نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز 13 سال کی عمرمیں کیا جب ان کی پہلی غزل جالندر پنجاب سے شائع ہونے والے رسالہ ’’راہی ‘‘ میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد خیال ؔصاحب کی تحریریں برصغیرکے مختلف جرائد ورسائل اور اخبارات میں چھپنے لگیں جن میں آج کل، شب خون، اردو دنیا، معاصر، تعمیر،سب رنگ، نگارش ،نگینہ،انشا، فنون، تحریک نو، تریاق، ابجد، صدا،کشمیر،حکیم الامت ،کسوٹی، جدید، بیسویں صدی، شیرازہ اور جہات وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ آپ دبستان کشمیر کی عظیم ہستی اور معروف ادیب اور صحافی کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ترقی پسند تحریک کشمیر سے شائع ہونے والے کشمیر ی رسالہ’’کونگ پوش‘‘، رسالہ ’’گلریز‘‘،کے مدیر اور کشمیر ی کے پہلے ہفت روزہ اخبار ’’وطن‘‘ اور ’’انگریزی ہفت روزہ ’’وائس آف کشمیر ‘‘ کے مدیر اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔۔ اس وقت تک خیالؔ صاحب کی اردو میں چودہ ،کشمیری میں سترہ اور انگریزی میں دو کتابیں شائع ہو کر داد تحسین حاصل کرچکی ہیں۔ آپ ایک ذی علم، ذی شعور اورذی وقار وانسان تھے۔ان کے علم میں وسعت اور مشاہدے میں گہرائی و گیرائی تھی۔ ان کا تخلیقی کینواس بہت ہی رنگین تھا۔ اسی تخلیقی وسعت نے ان کی تخلیقی بصیرتوں کو وسعت اور گہرائی بخشی تھی ۔ اچھا ادب پڑھتے تھے، اچھا ادب تخلیق کرتے تھے اور اچھے ادب کی خدمت کرتے تھے۔
یہ گیارہ جون2020 کی بات ہے کہ میرا ایک مضمون بہ عنوان ’’پروین راجہ۔۔خود اعتمادی کی جگر سوز شاعرہ‘‘کشمیر عظمیٰ کے گوشہ خواتین میں شائع ہوا ۔ خیالؔ صاحب نے مجھے فون کر کے میرے چند ٹوٹے پھوٹے لفظوںکی تعریف کر کے میری حوصلہ افزائی بھی کی۔ اسی مضمون کے توسط سے میرا رابطہ خیالؔ صاحب کے ساتھ جڑ گیا۔ انھوں نے پھر مجھ سے پروین راجہ کا کلام مانگ لیا چناجہ پروین راجہ کا کلام ابھی کتابی صورت میں منظر عام پر نہیں آیا تھا۔ پھر جو بھی کچھ میرے پاس ان کا کلام تھا، میں نے وہ خیالؔ صاحب تک پہنچا دیا۔ خیالؔ صاحب نے بھی پھر پروین راجہ کی شاعری اور فن پر مقالہ تحریر کیا۔ مہینے میں ایک دو بار میں خیال صاحب کے پاس اپنی ادبی پیاس بجھانے جاتا تھا۔میں اس لئے بھی ان کے یہاںجاتا تھاکہ کاش مجھے خیال صاحب اپنی ساری کتابیں دیتا ۔ کووڈ19 نے زندگی کے مختلف شعبہ جات پر اپنے منفی اثرات مرتب کیے جن میں ادب بھی سر فہر ست ہے۔کشمیریا بیرون کشمیر سے شائع ہونے والے ادبی رسالہ و جرائد بند ہوگئے۔اس المناک صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد میں نے 2021 میں ایک ادبی رسالے سہ ماہی ’’کوہِ ماراں‘‘ نکالنے کی شروعات کی۔ اس سے قبل میں نے خیالؔ صاحب سے مشورہ کر لیا تھاکہ خاکسا ر ایساقدم اٹھانے والا ہے۔خیالؔ صاحب نے میرے حوصلے کو توانائی بخش کر مجھے اپنے نیک مشورے سے نوازا اور کہاکہ بیٹے رسالہ کا نام ایسا ہونا چائیے جو ہماری تہذیب و ثقافت کی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اعلیٰ پایہ کا ادبی جریدہ ہو۔ یہ خیالؔ صاحب کا خلوص اور شفقت تھی جو میرے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں۔
4جولائی 2023کو میں اور محترم منظور کنٹھ گھر سے دن کے چار بجے نکلے اور پانچ بچے کے قریب ان کے دولت حانہ (راولپورہوسنگ کالونی)پہنچ گئے۔ خیالؔ صاحب نے بڑی گرم خوشی سے استقبال کیا تھوڑی دیر تشریف رکھنے کے بعد چائے سامنے آگئی اور چائے کے کش لینے کے ساتھ ساتھ خیالؔ صاحب کی ادبی زندگی اور کشمیر کے معاصر ادبی صورتحال سے بھی روشناس ہو تے جارہے ہیں ۔ خیال صاحب نے کہا کلچرل اکیڈیمی والے شیرازہ کا فاروق نازکی نمبر شائع کرنے والے ہیں اسی کے لئے آج کل میں فاروق نازکی کی شاعری پر مضمون تحریر کر رہا ہوں اور شاید یہ خیالؔ صاحب کی ادبی زندگی کا آخری مضمون بھی ثابت ہوا۔ خیالؔ صاحب کشمیر میں لکھنے والی شاعری اور فکشن سے مطمئن توتھے ہی لیکن مجھے با ربار اصرار کرتے تھے کہ اپنے رسالہ میں ترجمہ نگاری لئے ایک مخصوص گوشہ رکھ لیجئے کیونکہ ترجمہ نگاری کے حوالے کوئی اچھا کام سامنے نہیں آرہا ہے۔ اس کے بعد میں نے خیالؔ صاحب سے درخواست کی مرحوم رحمن راہیؔ کی شاعری کے بارے میں چند باتیں بیان کیجئے۔ خیالؔ صاحب نے راہیؔ کی شاعر ی پرہمارے ساتھ نفصیل کے ساتھ بات کی اور ساتھ ہی میںخیالؔ صاحب نے ہمیں اپنی شاعری سے بھی محظوظ کیا۔ آپ بھی چند شعر ملاحظہ فرمائیں؎
یاد ہے جب مسکراتی تھی سحر اس شہر میں
روشنی تب سے نہیں آئی نظر اس شہر میں
کس طرح دامن بچائوں میں گلابوں کے لئے
موسم گل پھر رہا ہے در بدر اس شہر میں
اب کہاں وہ آسماں اور اونچی پروازیں کہاں
ٹوٹ کر بکھرے ہیں میرے بال و پر اس شہر میں
آفتاب آہستہ آہستہ غروف ہونے ہی والا تھا اور ہم نے خیالؔ صاحب سے جانے کی اجازت طلب کی ۔ خیالؔ صاحب نے اپنے دو شعری مجموعے مسدس کربلا اور شبنم کا آتش کدہ مجھے اور منظور صاحب کو دستخط کے ساتھ تحفتاً پیش کیے پھر اس کے بعد ہم نے گھر کی راہ لی۔ خیالؔ صاحب کا یہ رویہ بڑی شفقت، محبت اور انس کا غماز تھا۔ ان کی نرم طبعیت اور خوش مزاجی نے مجھ میں گویا سرشاری کی کیفیت بھر دی۔ آخرکار ادب کا یہ سپاہی 15 اکتوبرکواس جہاں فانی سے کوچ کر گیااور اپنے چاہنے والوں کو یادوں کا ایک قیمتی خزانہ دے کر تاعمر اُن کے دلوں میں گھر کر گیا۔ اللہ انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ یادیں اور باتیں بہت سی ہیں،خیر پھر کبھی۔بقول خیالؔ صاحب ؎
اے خدا انگشت خامہ تھام لے
رہبری تا منزل مقصودکر
دیکھتا ہوں نیلگوں جھیلوں کے خواب
پھر نہ ٹکرائیں نگاہوں سے سراب
اے خدا اے کردگار عالمین
بخش دے مجبور بندے کی خطا!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں