تحریر:جاوید اختر بھارتی
سرزمین انبیاء جسے فلسطین کے نام سے جانا جاتا ہے آج وہاں جو کچھ ہورہا ہے اسے دیکھ کر اور سن کر دل دہل جاتاہے ہر جانب لاشیں بکھری پڑی ہوئی ہیں ہر طرف خون ہی خون نظر آتا ہے اور چیخیں سنائی دیتی ہیں خاندان کا خاندان صاف کیا جارہاہے گودیاں اجڑ رہی ہیں بچے، جوان، بوڑھے سب بارود کے ڈھیر پر کھڑے ہوکر اپنی اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں بلکہ پورا فلسطین اپنی آنکھوں سے موت کا منظر دیکھ رہاہے۔ نہ پناہ گزیں کیمپ کو چھوڑا جارہاہے ، نہ تعلیمی اداروں کو چھوڑا جارہاہے، نہ اسپتالوں کو چھوڑا جارہاہے، نہ مساجد کو چھوڑا جارہاہے بلکہ ہر مقام پر اسرائیل کی جانب سے وحشیانہ بمباری کی جارہی ہے۔ دس ہزار سے بھی زیادہ لوگوں پر بم برسا کر ان کا قتل عام کیا گیا اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ تقریباً پانچ ہزار بچے اس بمباری میں شہید ہوچکے ہیں، مکانات ملبوں کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ ایسی ایسی ویڈیو دیکھنے کو ملتی ہے کہ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اُجڑی ہوئی بستیوں کے لوگ طیارے کی گڑگڑاہٹ اور بم و بارود کے ڈھیر پر کھڑے ہوکر آگ اور خون میں صدائیں لگا رہے ہیں کہ اے اہل عرب تم کہاں ہو بیت المقدس کا تقدس پامال کیا جارہاہے ، سرزمین اسراء ومعراج کو خون سے لالہ زار کیا جارہاہے۔
ہماری بستیاں جلائی جارہی ہیں، ہماری نسل کشی کی جارہی، ہمارا قتل عام کیا جارہاہے، ہمارا دشمن اسرائیل فلسطین سے ہمارا نام و نشان مٹانے پر تلا ہوا ہے اور ہمیں مٹابھی رہا ہے۔ ہمارے جذبات کو کچلا جارہا ہے، ہمارے ارمانوں کا گلا گھونٹا جارہا ہے، عورتوں کو بیوہ کیا جارہاہے ، بچوں کو یتیم بنایا جارہا ہے،ظلم و دہشت گردی کا ننگا ناچ ناچا جارہا ہے لیکن پھر بھی تم نے کیوں ہمیں تنہا چھوڑ دیا۔ اے اہل عرب کیا تمہارے سینے میں دل نہیں ہے اور دل ہے تو اس میں اسلام کا اور اہل اسلام کا درد نہیں ہے، کیا بیت المقدس کی آزادی کا جذبہ نہیں ہے؟
آخر ہمارے بھی تو ماں باپ تھے ہم بھی تو کسی کے لاڈلے تھے 75 سال سے اسرائیل ہم پر ظلم کررہا ہے لیکن تمہاری آنکھیں بند ہیں تمہاری زبان خاموش ہے،، غزہ کے شہداء کے خون کا ایک ایک قطرہ تم سے سوال کررہا ہے کہ کیا فلسطین کی بربادی اور بیت المقدس کی تباہی کے بعد تم محفوظ رہوگے کیا تمہاری حکومتیں اور تمہاری عیش پرستیاں برقرار رہیں گی کیا صرف مذمت اور تنقید اور دعا سے کام چلاؤ گے اور اسی طرح مرنے اور تڑپنے کے لئے تم ہمیں تنہا چھوڑ دوگے؟
اے اہل عرب اور اے مسلم حکمرانو یاد رکھو چند لوگوں نے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کا قتل کیا تھا مگر سزا پوری قوم کو ملی، کیوں اس لئے کہ پوری قوم خاموش تھی اور آج تم اسرائیل کی جارحیت و بربریت پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہو۔ ہمارا خون بہایا جارہا ہے اور تم رقص و سرور کی بزم سجا رہے ہو۔ ہمیں جس طرح سے آج برباد کیا جارہاہے اور تم جس طرح خاموشی اختیار کئے ہوئے اور کچھ مسلم ممالک جس طرح منافقانہ کردار ادا کررہے ہیں اور اسرائیل جیسے ظالم ملک کی مدد کررہے ہیں تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی کیونکہ یا تو تم اسرائیل کی بربریت کی حمایت کررہے ہو یا بزدل ہوچکے ہو یا پھر دنیا کی عیش پرستی میں غرق ہوچکے ہو اور تاریخ اسلام سے منہ موڑ چکے ہو سیرت رسول اور سیرت صحابہ سے ناطہ توڑ چکے ہو۔ یہ بھی یاد رکھو کہ ہمیں بھیک کی ضرورت نہیں ہے بلکہ دفاعی طاقت کی ضرورت ہے اور تم دفاعی طاقت میں ہمارے معاون نہیں ہوسکتے تو تمہیں ہمارے لئے دعا کرنے کا بھی حق نہیں ہے کیونکہ ہم زندہ ہیں اور تم بظاہر زندہ ہو لیکن حقیقت میں مرچکے ہو یعنی جس کی غیرت مرجائے جس کا ضمیر مر جائے وہ مردہ کے ہی مترادف ہے۔ دعا ایک بہت بڑا ہتھیار ہے مگر یاد رکھیں مومن کے لئے ہے اور اسی لئے کہا گیا ہے کہ جو ڈرگیا وہ مومن نہیں یعنی مومن کبھی ڈرتا ہی نہیں ہے وہ ڈرتا ہے تو صرف اللہ ربّ العالمین سے اور اللہ نے مومن کے لئے کہا ہے کہ تمہاری دعا رد نہیں کی جائے گی۔ اس کا مطلب کہ جو اپنی حکومت اور دولت و عیش پرستی میں غرق ہوجائے وہ مومن نہیں ، جو اپنی قوم کے بہتے ہوئے خون کا تماشہ دیکھے وہ مومن نہیں، جو ظالم کے ظلم پر خاموش رہے اور مظلوم کا ساتھ نہ دے وہ مومن نہیں۔ اے اہل عرب اور اے مسلم حکمرانو، اب تم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھو کہ تمہارا شمار کن لوگوں میں کیا جائے گا۔
آج پوری دنیا کا مسلمان فلسطین کے مسلمانوں کے لئے دعائیں کررہا ہے کیونکہ اس کے پاس دوسرا کوئی وسائل نہیں ہے مگر اے مسلم حکمرانو تمارے پاس طاقت ہے فوج ہے جنگی ساز و سامان ہے مگر پھر بھی تم گیدڑ بھپکی سے اور تنقید و مذمت سے اور احتجاج و دعا سے پوری دنیا کے مسلمانوں کو بے وقوف بنارہے ہو اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے معجزے کا اور غیبی مدد کا انتظار کررہے ہو۔ ذرا تاریخ کا مطالعہ کرو تب معلوم ہوگا کہ غیبی مدد کب آئی ہے یقیناً غیبی مدد آئے گی مگر سونے کی کار سے چلنے اور کبسہ بریانی کھاکر اسرائیل کے مشروبات کولڈرنگ پی کر اسرائیل کی بربادی کیلئے اور بیت المقدس کی آزادی کے لئے دعا کروگے تو وہ دعا ایک بالست سے اوپر بھی نہیں جائے گی۔ غیبی مدد میدان بدر میں آئی اور جنگ خندق میں آئی جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منبر سے کہا کہ یا سارء الجبل تو غیبی مدد سے ان کی آواز اسلامی لشکر تک پہنچی اس کے بعد سے بے شمار واقعات رونما ہوئے مگر کوئی بتائے کہ اس کے بعد کہاں غیبی مدد آئی؟ غیبی مدد کے ہم منکر نہیں مگر حکم یہی ہے کہ پہلے اپنے جانور کو کھونٹے میں باندھو، پہلے خود اپنے گھر کے دروازے کو بند کرو پھر دعا کرو کہ اے اللہ میرے مال و اسباب کی حفاظت فرما۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فوجی دستہ تیار کیا اور میدان بدر میں قدم رکھا یعنی جنگ کے میدان میں اتر کر اللہ سے دعا کی تھی کہ اے پروردگار یہ مٹھی بھر تیرے نام لیوا مسلمان ہیں ان کی مدد فرما۔ خود نبی پاک نے خندق کھودی اور بھوک و پیاس کا حال یہ تھا کہ پیٹ پر دو دو پتھر باندھے اور اللہ سے دعا کی تھی، اور آج کیا حال ہے ہر سال حج کے موقع پر بھی دعا ہوتی ہے اور ہر سال رمضان المبارک میں تراویح کے مکمل ہونے پر حرمین شریفین میں دعائیں ہوتی ہیں جس میں اسرائیل کی تباہی کا بھی ذکر ہوتا ہے اور بیت المقدس کی آزادی کی بھی دعا ہوتی ہے مگر اسرائیل دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا جارہاہے۔ آخر کیوں؟ یہ غور کرنے کا مقام ہے کہ ہم ایک رسم ادا کررہے ہیں یا واقعی اللہ سے لو لگا رہے ہیں۔ اگر واقعی اللہ سے لو لگائیں تو یہ غیبی صدا کان میں نہیں سنائی دے گی تو دل میں سنائی دے گی کہ اے میرے بندے میں نے تجھے اشرف المخلوقات بنایا، انسان بنایا سوچنے سمجھنے اور فیصلہ لینے کے لئے دل و دماغ عطا کیا تو اس کا استعمال کر اور منجنیق تیار کر دفاعی نظام و قوت کو ترتیب دے وہ لشکر ترتیب دے اور وہ طریقہ اختیار کر جو طریقہ تمہیں نبی پاک نے بتایا ہے اور اس طرح تو بھی میدان میں اتر جس طرح رسول کائناتؐ میدان جنگ میں اترے۔ اس کے بعد غیبی مدد کے لئے پکار یقیناً تجھے فتح و کامرانی حاصل ہوگی۔ ایک ظالم ملک مسلم ممالک کی چوہدی میں رہتے ہوئے مسلمانوں پر بم برسائے 57 مسلم ممالک کے لئے اور اہل اسلام و بالخصوص اہل عرب کے لئے لمحہ فکریہ نہیں تو اور کیا ہے، مظلوم سے ہمدردی بھی اور ظالم سے یارانہ بھی اور اللہ سے دعا بھی یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے –