17

۲۷ اکتوبر۱۹۴۷ ۔۔ تاریخ کشمیر کے آئینے میں

رشید پروین ؔ سوپور

الحاق کشمیر کے بارے میں بھارت کا دعویٰ ہے کہ قبائلی حملہ کے پیش نظر کشمیر کو بچانے کے لئے مہاراجہ کو فوجی امداد کی پیشکش کی گئی ۔۲۵ اکتوبر کو لارڈ مونٹ بیٹن کی صدارت میں اجلاس بلایا گیا ۔ لیکن دن بھر کی بحث کے باوجود کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا ۔ ۲۶ تاریخ کو پھر میٹنگ بلائی گئی اور فیصلہ ہوا کہ وی پی مینن کو کشمیر روانہ کیا جائے گا تاکہ وہ مہاراجہ سے الحاق نامہ پر دستخط لے سکے جس کے بعد کشمیر فوجی امداد بھیجی جاسکے گی ۔۲۶ اکتوبر کو وی پی مینن سرینگر روانہ ہوجاتا ہے اور وہاں سے فوجی امداد کی درخواست اور الحاق نامے کے ساتھ واپس آجاتا ہے، ۲۷ اکتوبر کو بھارتی فوج سرینگر کے ہوائی اڈے پراُترتی ہے )۔
یہ بھارت کی دلیل ہے اور اسی دلیل پر الحاق کی بنیاد اور ساری عمارت کھڑی ہے اور یہی دستاویز تاریخ کا حصہ بن چکی ہے ۔۔لیکن اس دلیل کے جواب میں ہماری کئی تواریخ میں کچھ اور ہی طرح کے حالات و واقعات کا بیان ہے جنہیں تاریخ دانوں کی ایک کثیر تعداد درست اور سچ سمجھتی ہے۔ آپ کے لئے مختصر طور پر مسئلہ کشمیر کو سمجھنے کے لئے یہاں نقل کی جاتی ہے ۔لارڈ مونٹ بیٹن کو جو تحریر ۲۷ اکتوبر کو پیش کی گئی اور جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ ۲۶اکتوبر کو مینن سرینگر سے لائے ہیں قطعی طور پر واقعات کی کسوٹی پر جعلی ثابت ہوجاتی ہے اس کی تفصیل یوں ہے کہ الحاق کے لئے مہاراجہ کو منوانا ضروری تھا ۔مہاراجہ سے رابطہ کیا گیا تو وہ ریاست کا قانونی اور اخلاقی طور پر پاکستان کے ساتھ الحاق درست مانتے تھے کیونکہ ریاست جموں و کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی اور یہ ریاست بھارت کا حصہ بھی نہیں تھی بلکہ ایک مکمل آزاد اور خود مختار ریاست کی حیثیت سے نقشے پر موجود تھی ،،مہاراجہ کو بھارت کے ساتھ الحاق کی طرف مائل کرنے کے لئے پہلے لارڈ مونٹ بیٹن ،مہاراجہ کپورتھلہ ،اور اس کے بعد مہاراجہ پٹیالہ کو ہری سنگھ کے پاس بھیجا گیا لیکن مہاراجہ نے صاف اور واضح طور پر اپنے عزائم کا اظہار کرتے ہوئے ان سے کہا کہ میں یاتو الحاق پاکستان یا آزاد ریاست جموں و کشمیر کا خو ا ہشمند ہوں، تیسرا کوئی آپشن میری نظروں میں نہیں ۔ یہ بات نہرو اور پٹیل تک پہنچی تو پٹیل نے فورراً ہی حیدر آباد ٹائپ کے ’’کیپچر ‘‘ کی تجویز دی جس سے گاندھی نے سختی کے ساتھ رد کیا کیونکہ اس کیپچر کی وجہ سے دولاکھ لوگوں کی جانیں گئی تھیں اور گاندھی نہیں چاہتے تھے کہ کشمیر میں اس طرح کے حالات پیدا ہوں ۔اس پر گاندھی خود مہاراجہ سے ملنے وارد کشمیر ہوئے تاکہ الحاق کے ساتھ رام چند کاک وزیر اعظم کو بھی ہٹایا جائے جو الحاق ہند کے زبردست مخالف تھے ،لیکن گاندھی کو بھی اس کے سوا کامیابی نہیں ملی کہ مہاراجہ ،رام چند کاک کو ہٹانے اور شیخ محمد عبداللہ کو وزیر اعظم بنانے پر تیار ہوئے ۔شیخ پہلے ہی سے نہرو کے ساتھ ہم آہنگ ہوچکے تھے۔ لاچار ہوکر نہرو نے وی پی مینن کو ۲۵اکتوبر کی صبح مہاراجہ سے ملنے اور اقرار نامہ پر دستخط کے لئے یہاں بھیجا اس کے ساتھ کرنل مانک شاہ ،چار فوجی اتاشی اور دوارکا ناتھ کاچرو سرینگر پہنچے۔ مہاراجہ نے اس وفد کو کوئی خاص جواب نہیں دیا اور نہ ہی ان کے ساتھ دلی جانے پر رضامند ہوئے۔ آخری حربے کے طور پر ۲۶ اکتوبر کو صبح پو پھٹتے ہی نہرو اور پٹیل سپیشل جہاز سے سرینگر پہنچے ،یہاں ائر پورٹ کے ایک کونے میں انہوں نے شیخ اور مہاراجہ سے ملاقات کی۔شیخ اور نہرو کی یہ ملاقات بہت سارے تواریخ دانوں سے پوشیدہ ہے اور ہمیشہ پوشیدہ ہی رہتی لیکن اس کا راز ڈاکٹر جگت موہنی کے شوہر یعنی رتن رانی ہسپتال کی مالک ڈاکٹر جگت موہنی نے اپنے شوہر کے حوالے سے فاش کیا جنہوں نے خود انہیں اس روز صبح سویرے ایئر پورٹ پر دیکھا تھا اور جو بعد میں اخبار وں کی سرخی بھی بنی تھی۔ ( شبنم قیوم)
شیخ عبداللہ نہرو اور پٹیل کے ساتھ ہی دلی روانہ ہوئے، اس ملاقات کے بعد ہی بڑی عجلت میں مہاراجہ نے اپنا ساراسازو سامان ۲۲ ٹرکوں میں لوڈ کرکے جلد بازی سے جموں کی طرف کوچ کیا۔ ۲۶ اکتوبر ہی کو دلی میں میٹنگ میں وی پی مینن کو سرینگر بھیجنے کا فیصلہ ہواتاکہ وہ مہاراجہ سے الحاق اور فوجی امداد کی درخواست پر دستخط لے کر آئیں ۔لیکن شواہد کے مطابق اس روز مینن سرینگر بالکل نہیں آئے بلکہ دلی میں ہی دن بھر مہر چند مہاجن کے ساتھ دستاویز الحاق کا ڈرافٹ تیار کرتے رہے۔ اے جی نورانی نے بھی اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ یہ ڈرافٹ دلی میں ہی تیار ہوا ،اس کے پیچھے بڑی زبردست دلیل یہ ہے کہ سرینگر ائر پورٹ پر ۲۶ کی صبح کو نہرو پٹیل اور شیخ عبداللہ کو رخصت کرتے ہی مہارا جہ نے جموں کی طرف کوچ کیا تھا۔ چونکہ مہاراجہ کا پورا قافلہ دن بھر سفر میں رہا اور رات کے بارہ بجے جموں پہنچا ۔ پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ مہاراجہ نے کہا ں اور کس تاریخ کو الحاق نامے پر دستخط کئے؟لحاظا۲۶ اکتوبر کے روز مہاراجہ کی طرف سے فوجی امداد کی درخواست، دستاویز الحاق لکھنا ، دیکھنا اور اس پردستخط خارج از امکان اور بے بنیاد ہے۔دہلی میں ۲۶ اکتوبر کو مینن کی موجودگی کا یہ بھی ثبوت ہے کہ السٹر لیمب اور وکٹوریہ شیلفیڈ اپنی اپنی دستاویز میں لکھتے ہیں۔
۲۶اکتوبر کو وی پی مینن دلی سے باہر نہیں گئے یہ اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ یہ سارے دستاویز جعلی اور بنائے گئے ہیں۔ تواریخ سے ثابت ہے کہ ۲۶ اکتوبر کی رات کو نہرونے اپنے ایک خط میں اس بات کا بھی تذکرہ کیا ہے کہ۲۶ اکتوبر رات بھر وہ فوجی سازو سامان لادنے میں مصروف تھے اور ۲۷اکتوبر صبح سویرے ہی بھارتی فوجیں سرینگر ہوائی اڈے پر اتر چکی تھیں یعنی اس وقت لارڈ مونٹ بیٹن نے ابھی تک ان دستاویز کی منظوری بھی نہیں دی تھی کیونکہ بیٹن کے مطابق انہوں نے وہ پیپرس ۲۷ اکتوبر ۸بجے صبح سائن کئے۔ بھارت سرکار کے مطابق ۲۶ اکتوبر ۴۷ ۱۹کو مہاراجہ ہر ی سنگھ سے ملنے کے لئے وی پی مینن کو روانہ کیا گیا جس نے مہاراجہ ہری سنگھ سے دستاویز الحاق پر دستخط لے لئے ۔لیکن وی پی مینن اپنی کتاب ( امیگریشن آف انڈین سٹیٹس )میں لکھتے ہیں کہ وہ ۲۶ اکتوبر کو دلی میں موجود تھے۔۔۔ دوسری بات اس روز مہاراجہ سرینگر میں موجود نہیں تھے بلکہ وہ سرینگر جموں راستے میں کسی مقام پر پڑاؤ ڈالے تھے۔سچ یہ ہے کہ وی پی مینن ۲۷ اکتوبر کو سرینگر پہنچے تھے جب کہ اس روز صبح سویرے انڈین آرمی سرینگر کے ائر پورٹ پر پہنچ چکی تھی ۔ صاف ظاہر ہے کہ مہاراجہ نے کسی دستاویز پر ۲۶ یا ۲۷ کو دستخط نہیں کئے تھے ۔ اس رو سے ہری سنگھ اور لارڈ مونٹ بیٹن کے درمیان ہوئے دستاویز اور خطوط پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ مہاراجہ نے جموں میں مینن کی طرف سے لائے گئے کسی دستاویز پر دستخط نہیں کئے ہیں بلکہ فوجی امداد کے ساتھ ایک عارضی و مشروط معاہدہ نامہ لکھا ہے جس کی رو سے بھارت کا تین شرائط کے ساتھ ایک عارضی معاہدہ ثابت ہوتا ہے ،جس میں (۱) ڈیفنس (۲) رسل و رسائل (۳) خارجی امور کا تذکرہ ہے۔
ہندوستان کے پہلے صدر راجندر پرشاد کے پرسنل سیکریٹری پی این لکھن پال اپنی کتاب kashmir disputed میں لکھتے ہیں کہ یہ دستاویز عملی طور پر کوئی الحاق نامہ نہیں بلکہ ایک اگریمنٹ ہے جس کے تحت نارمل حالات یعنی قبائلیوں کے واپس جانے تک ہی اس کی ویلڈٹی برقرار تھی۔ ۲۷ اکتوبر کے روز جب وی پی مینن مہاراجہ کو منارہے تھے اس سے دس گھنٹے پہلے بھارتی افواج سرینگر ائر پورٹ پر لینڈ کر چکی تھیں اور جب شیخ محمد عبداللہ دلی میں مہاتما گاندھی سے کشمیر افواج بھیجنے کی درخوست کر رہے تھے اس سے ۶ گھنٹے پہلے ہی بھارتی فوجی کاروائیاں سرینگر میں شروع کر چکی تھیں۔ چونکہ ۲۷ اکتوبر کی صبح کو فوجیں بھیجنے کی تیاریاں ہوچکی تھیں اس لئے امداد کی درخواست اور الحاق نامہ پر ۲۶کی تاریخ لازمی بن جاتی تھی اور اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔کشمیر کے ایک بڑے وکیل ا ور محقق مر حوم غلام نبی ہاگرو نے بھی تفصیل کے ساتھ ان واقعات پر روشنی ڈالی ہے اور شبنم قیوم کی تاریخ بھی ان تمام شواہد سے بھری پڑی ہے۔ ان واقعات سے جو کہ ہم نے مختصر طور پر عرض کئے ہیں اور جن کی تفصیل ہماری تواریخوں کا حصہ ہیں، ہم یہ نتائج اخذ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اس سارے ڈرامے اور سازش میں چار کردار بڑے اہم رہے ہیں اور ان میں پنڈت نہرو ، سردار پٹیل ، لارڈ مونٹ بیٹن اور ہمارے شیخ محمد عبداللہ ہیں۔
دراصل ریاست جموں و کشمیر کی آزادی سلب کرنے اور غلامی کی زنجیروں کو ڈھالنے کا کام اس سے بہت پہلے اس وقت ریاست جموں وکشمیر سے متعلق نہرو اور شیخ عبداللہ کے درمیان نہ صرف دوستی قائم ہوچکی تھی بلکہ نظریاتی طور پر ہم آہنگ بھی ہوچکے تھے لیکن مسلم اکثریتی اور اپنے جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے اس کا الحاق پاکستان کے ساتھ قدرتی، جذباتی ا ور مذہبی طور بھی صحیح تھا۔ اس بات کا اعتراف تاریخی طور پر مہاراجہ اور اس کے آخری وزیر اعظم رام چند کاک کو آخر تک رہا۔
بھارت کے ساتھ الحاق کا تصور صرف اکیلے شیخ محمد عبداللہ کے دل و دماغ میں تھا جس میں ان کا بھر پور ساتھ جیسا کہ پہلے ہی کہا جا چکا ہے اس کے قریبی دو تین ساتھیوںنے دیا جو بعد میں یہاں کے وزرائے اعظم اور اعلیٰ بھی رہے۔دلچسپ بات ہے کہ بھارت میں غفار خان سرحدی گاندھی بھی کہلایا اور دوسرا ہمارا یہ قد آور لیڈر، جس نے سورہ الرحمان اپنے بھولے بھالے عوام کے سامنے لہک لہک کر گانا اپنا شیواہ بنایا تھا کشمیری گاندھی اور باپو کہلانا زیادہ پسند کرتا تھا ۔

رشید پروین ؔ سوپور

(الحاق کشمیر کے بارے میں بھارت کا دعویٰ ہے کہ قبائلی حملہ کے پیش نظر کشمیر کو بچانے کے لئے مہاراجہ کو فوجی امداد کی پیشکش کی گئی ۔۲۵ اکتوبر کو لارڈ مونٹ بیٹن کی صدارت میں اجلاس بلایا گیا ۔ لیکن دن بھر کی بحث کے باوجود کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا ۔ ۲۶ تاریخ کو پھر میٹنگ بلائی گئی اور فیصلہ ہوا کہ وی پی مینن کو کشمیر روانہ کیا جائے گا تاکہ وہ مہاراجہ سے الحاق نامہ پر دستخط لے سکے جس کے بعد کشمیر فوجی امداد بھیجی جاسکے گی ۔۲۶ اکتوبر کو وی پی مینن سرینگر روانہ ہوجاتا ہے اور وہاں سے فوجی امداد کی درخواست اور الحاق نامے کے ساتھ واپس آجاتا ہے، ۲۷ اکتوبر کو بھارتی فوج سرینگر کے ہوائی اڈے پراُترتی ہے )۔
یہ بھارت کی دلیل ہے اور اسی دلیل پر الحاق کی بنیاد اور ساری عمارت کھڑی ہے اور یہی دستاویز تاریخ کا حصہ بن چکی ہے ۔۔لیکن اس دلیل کے جواب میں ہماری کئی تواریخ میں کچھ اور ہی طرح کے حالات و واقعات کا بیان ہے جنہیں تاریخ دانوں کی ایک کثیر تعداد درست اور سچ سمجھتی ہے۔ آپ کے لئے مختصر طور پر مسئلہ کشمیر کو سمجھنے کے لئے یہاں نقل کی جاتی ہے ۔لارڈ مونٹ بیٹن کو جو تحریر ۲۷ اکتوبر کو پیش کی گئی اور جس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ ۲۶اکتوبر کو مینن سرینگر سے لائے ہیں قطعی طور پر واقعات کی کسوٹی پر جعلی ثابت ہوجاتی ہے اس کی تفصیل یوں ہے کہ الحاق کے لئے مہاراجہ کو منوانا ضروری تھا ۔مہاراجہ سے رابطہ کیا گیا تو وہ ریاست کا قانونی اور اخلاقی طور پر پاکستان کے ساتھ الحاق درست مانتے تھے کیونکہ ریاست جموں و کشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست تھی اور یہ ریاست بھارت کا حصہ بھی نہیں تھی بلکہ ایک مکمل آزاد اور خود مختار ریاست کی حیثیت سے نقشے پر موجود تھی ،،مہاراجہ کو بھارت کے ساتھ الحاق کی طرف مائل کرنے کے لئے پہلے لارڈ مونٹ بیٹن ،مہاراجہ کپورتھلہ ،اور اس کے بعد مہاراجہ پٹیالہ کو ہری سنگھ کے پاس بھیجا گیا لیکن مہاراجہ نے صاف اور واضح طور پر اپنے عزائم کا اظہار کرتے ہوئے ان سے کہا کہ میں یاتو الحاق پاکستان یا آزاد ریاست جموں و کشمیر کا خو ا ہشمند ہوں، تیسرا کوئی آپشن میری نظروں میں نہیں ۔ یہ بات نہرو اور پٹیل تک پہنچی تو پٹیل نے فورراً ہی حیدر آباد ٹائپ کے ’’کیپچر ‘‘ کی تجویز دی جس سے گاندھی نے سختی کے ساتھ رد کیا کیونکہ اس کیپچر کی وجہ سے دولاکھ لوگوں کی جانیں گئی تھیں اور گاندھی نہیں چاہتے تھے کہ کشمیر میں اس طرح کے حالات پیدا ہوں ۔اس پر گاندھی خود مہاراجہ سے ملنے وارد کشمیر ہوئے تاکہ الحاق کے ساتھ رام چند کاک وزیر اعظم کو بھی ہٹایا جائے جو الحاق ہند کے زبردست مخالف تھے ،لیکن گاندھی کو بھی اس کے سوا کامیابی نہیں ملی کہ مہاراجہ ،رام چند کاک کو ہٹانے اور شیخ محمد عبداللہ کو وزیر اعظم بنانے پر تیار ہوئے ۔شیخ پہلے ہی سے نہرو کے ساتھ ہم آہنگ ہوچکے تھے۔ لاچار ہوکر نہرو نے وی پی مینن کو ۲۵اکتوبر کی صبح مہاراجہ سے ملنے اور اقرار نامہ پر دستخط کے لئے یہاں بھیجا اس کے ساتھ کرنل مانک شاہ ،چار فوجی اتاشی اور دوارکا ناتھ کاچرو سرینگر پہنچے۔ مہاراجہ نے اس وفد کو کوئی خاص جواب نہیں دیا اور نہ ہی ان کے ساتھ دلی جانے پر رضامند ہوئے۔ آخری حربے کے طور پر ۲۶ اکتوبر کو صبح پو پھٹتے ہی نہرو اور پٹیل سپیشل جہاز سے سرینگر پہنچے ،یہاں ائر پورٹ کے ایک کونے میں انہوں نے شیخ اور مہاراجہ سے ملاقات کی۔شیخ اور نہرو کی یہ ملاقات بہت سارے تواریخ دانوں سے پوشیدہ ہے اور ہمیشہ پوشیدہ ہی رہتی لیکن اس کا راز ڈاکٹر جگت موہنی کے شوہر یعنی رتن رانی ہسپتال کی مالک ڈاکٹر جگت موہنی نے اپنے شوہر کے حوالے سے فاش کیا جنہوں نے خود انہیں اس روز صبح سویرے ایئر پورٹ پر دیکھا تھا اور جو بعد میں اخبار وں کی سرخی بھی بنی تھی۔ ( شبنم قیوم)
شیخ عبداللہ نہرو اور پٹیل کے ساتھ ہی دلی روانہ ہوئے، اس ملاقات کے بعد ہی بڑی عجلت میں مہاراجہ نے اپنا ساراسازو سامان ۲۲ ٹرکوں میں لوڈ کرکے جلد بازی سے جموں کی طرف کوچ کیا۔ ۲۶ اکتوبر ہی کو دلی میں میٹنگ میں وی پی مینن کو سرینگر بھیجنے کا فیصلہ ہواتاکہ وہ مہاراجہ سے الحاق اور فوجی امداد کی درخواست پر دستخط لے کر آئیں ۔لیکن شواہد کے مطابق اس روز مینن سرینگر بالکل نہیں آئے بلکہ دلی میں ہی دن بھر مہر چند مہاجن کے ساتھ دستاویز الحاق کا ڈرافٹ تیار کرتے رہے۔ اے جی نورانی نے بھی اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ یہ ڈرافٹ دلی میں ہی تیار ہوا ،اس کے پیچھے بڑی زبردست دلیل یہ ہے کہ سرینگر ائر پورٹ پر ۲۶ کی صبح کو نہرو پٹیل اور شیخ عبداللہ کو رخصت کرتے ہی مہارا جہ نے جموں کی طرف کوچ کیا تھا۔ چونکہ مہاراجہ کا پورا قافلہ دن بھر سفر میں رہا اور رات کے بارہ بجے جموں پہنچا ۔ پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ مہاراجہ نے کہا ں اور کس تاریخ کو الحاق نامے پر دستخط کئے؟لحاظا۲۶ اکتوبر کے روز مہاراجہ کی طرف سے فوجی امداد کی درخواست، دستاویز الحاق لکھنا ، دیکھنا اور اس پردستخط خارج از امکان اور بے بنیاد ہے۔دہلی میں ۲۶ اکتوبر کو مینن کی موجودگی کا یہ بھی ثبوت ہے کہ السٹر لیمب اور وکٹوریہ شیلفیڈ اپنی اپنی دستاویز میں لکھتے ہیں۔
۲۶اکتوبر کو وی پی مینن دلی سے باہر نہیں گئے یہ اس بات کا ٹھوس ثبوت ہے کہ یہ سارے دستاویز جعلی اور بنائے گئے ہیں۔ تواریخ سے ثابت ہے کہ ۲۶ اکتوبر کی رات کو نہرونے اپنے ایک خط میں اس بات کا بھی تذکرہ کیا ہے کہ۲۶ اکتوبر رات بھر وہ فوجی سازو سامان لادنے میں مصروف تھے اور ۲۷اکتوبر صبح سویرے ہی بھارتی فوجیں سرینگر ہوائی اڈے پر اتر چکی تھیں یعنی اس وقت لارڈ مونٹ بیٹن نے ابھی تک ان دستاویز کی منظوری بھی نہیں دی تھی کیونکہ بیٹن کے مطابق انہوں نے وہ پیپرس ۲۷ اکتوبر ۸بجے صبح سائن کئے۔ بھارت سرکار کے مطابق ۲۶ اکتوبر ۴۷ ۱۹کو مہاراجہ ہر ی سنگھ سے ملنے کے لئے وی پی مینن کو روانہ کیا گیا جس نے مہاراجہ ہری سنگھ سے دستاویز الحاق پر دستخط لے لئے ۔لیکن وی پی مینن اپنی کتاب ( امیگریشن آف انڈین سٹیٹس )میں لکھتے ہیں کہ وہ ۲۶ اکتوبر کو دلی میں موجود تھے۔۔۔ دوسری بات اس روز مہاراجہ سرینگر میں موجود نہیں تھے بلکہ وہ سرینگر جموں راستے میں کسی مقام پر پڑاؤ ڈالے تھے۔سچ یہ ہے کہ وی پی مینن ۲۷ اکتوبر کو سرینگر پہنچے تھے جب کہ اس روز صبح سویرے انڈین آرمی سرینگر کے ائر پورٹ پر پہنچ چکی تھی ۔ صاف ظاہر ہے کہ مہاراجہ نے کسی دستاویز پر ۲۶ یا ۲۷ کو دستخط نہیں کئے تھے ۔ اس رو سے ہری سنگھ اور لارڈ مونٹ بیٹن کے درمیان ہوئے دستاویز اور خطوط پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ مہاراجہ نے جموں میں مینن کی طرف سے لائے گئے کسی دستاویز پر دستخط نہیں کئے ہیں بلکہ فوجی امداد کے ساتھ ایک عارضی و مشروط معاہدہ نامہ لکھا ہے جس کی رو سے بھارت کا تین شرائط کے ساتھ ایک عارضی معاہدہ ثابت ہوتا ہے ،جس میں (۱) ڈیفنس (۲) رسل و رسائل (۳) خارجی امور کا تذکرہ ہے۔
ہندوستان کے پہلے صدر راجندر پرشاد کے پرسنل سیکریٹری پی این لکھن پال اپنی کتاب kashmir disputed میں لکھتے ہیں کہ یہ دستاویز عملی طور پر کوئی الحاق نامہ نہیں بلکہ ایک اگریمنٹ ہے جس کے تحت نارمل حالات یعنی قبائلیوں کے واپس جانے تک ہی اس کی ویلڈٹی برقرار تھی۔ ۲۷ اکتوبر کے روز جب وی پی مینن مہاراجہ کو منارہے تھے اس سے دس گھنٹے پہلے بھارتی افواج سرینگر ائر پورٹ پر لینڈ کر چکی تھیں اور جب شیخ محمد عبداللہ دلی میں مہاتما گاندھی سے کشمیر افواج بھیجنے کی درخوست کر رہے تھے اس سے ۶ گھنٹے پہلے ہی بھارتی فوجی کاروائیاں سرینگر میں شروع کر چکی تھیں۔ چونکہ ۲۷ اکتوبر کی صبح کو فوجیں بھیجنے کی تیاریاں ہوچکی تھیں اس لئے امداد کی درخواست اور الحاق نامہ پر ۲۶کی تاریخ لازمی بن جاتی تھی اور اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔کشمیر کے ایک بڑے وکیل ا ور محقق مر حوم غلام نبی ہاگرو نے بھی تفصیل کے ساتھ ان واقعات پر روشنی ڈالی ہے اور شبنم قیوم کی تاریخ بھی ان تمام شواہد سے بھری پڑی ہے۔ ان واقعات سے جو کہ ہم نے مختصر طور پر عرض کئے ہیں اور جن کی تفصیل ہماری تواریخوں کا حصہ ہیں، ہم یہ نتائج اخذ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اس سارے ڈرامے اور سازش میں چار کردار بڑے اہم رہے ہیں اور ان میں پنڈت نہرو ، سردار پٹیل ، لارڈ مونٹ بیٹن اور ہمارے شیخ محمد عبداللہ ہیں۔
دراصل ریاست جموں و کشمیر کی آزادی سلب کرنے اور غلامی کی زنجیروں کو ڈھالنے کا کام اس سے بہت پہلے اس وقت ریاست جموں وکشمیر سے متعلق نہرو اور شیخ عبداللہ کے درمیان نہ صرف دوستی قائم ہوچکی تھی بلکہ نظریاتی طور پر ہم آہنگ بھی ہوچکے تھے لیکن مسلم اکثریتی اور اپنے جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے اس کا الحاق پاکستان کے ساتھ قدرتی، جذباتی ا ور مذہبی طور بھی صحیح تھا۔ اس بات کا اعتراف تاریخی طور پر مہاراجہ اور اس کے آخری وزیر اعظم رام چند کاک کو آخر تک رہا۔
بھارت کے ساتھ الحاق کا تصور صرف اکیلے شیخ محمد عبداللہ کے دل و دماغ میں تھا جس میں ان کا بھر پور ساتھ جیسا کہ پہلے ہی کہا جا چکا ہے اس کے قریبی دو تین ساتھیوںنے دیا جو بعد میں یہاں کے وزرائے اعظم اور اعلیٰ بھی رہے۔دلچسپ بات ہے کہ بھارت میں غفار خان سرحدی گاندھی بھی کہلایا اور دوسرا ہمارا یہ قد آور لیڈر، جس نے سورہ الرحمان اپنے بھولے بھالے عوام کے سامنے لہک لہک کر گانا اپنا شیواہ بنایا تھا کشمیری گاندھی اور باپو کہلانا زیادہ پسند کرتا تھا ۔

۲۷ اکتوبر۱۹۴۷ ۔۔ تاریخ کشمیر کے آئینے میں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں