23

انتخابی نتائج ۔۔۔ ’’ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ‘‘

رشید پروینؔ سوپور

اب جب کہ بلی تھیلی سے باہر آچکی ہے لیکن کس رنگ و روپ اور کس چال ڈھال سے ؟ اس کی شاید بہت سارے سیاسی پنڈت توقع نہیں کرتے تھے ، لیکن یہ کوئی انہونی نہیں ہے ، وقت اپنے آپ کو دہراتا ہے اور ان نتائج کے آتے ہی کسی بھی تجزیہ نگار کا ذہن ایک جست لگا کرماضی کے ا تخابات یعنی ۱۹۷۷میں آکر ایک لمحے کے لئے اگر رک جاتا ہے تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں ؟۔
پہلے ۱۹۷۷ کے انتخابی نتائج پر ایک سر سری نظر اور اس کے بعد کل کے نتائج کو سمجھنے میں شاید بڑی آسانی پیدا ہو، ایسا مانا جاتا ہے کہ مرارجی ڈیسائی کے دور ۱۹۷۷میں پہلی بار آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوئے اور ا ب پھر ایک بار بڑی مدت کے بعد عوام نے کم سے کم کسی بھی دھونس دباؤ اور ڈر و خوف کے بغیراپنی رائے کا استعمال کیا ہے، یہ ایک عمومی سوچ ہے جو اپنے پسِ منظر میں درست اور صحیح ہے ۔ ۱۹۷۱ کے شیخ اندرا ایکارڈ کے خلاف ایک تند و تیز لہر مسلسل کشمیر کے سیاسی منظر نامے میں اپنی قوت کے ساتھ موجود تھی، لیکن اس کے باوجود جو نتائج سامنے آئے تھے وہ کسی بھی طرح سے حالیہ منظر نامے سے نہ تو مختلف ہیں اور نہ کچھ الگ یا منفرد سے ہیں۔ ۷۷ میں کل ۷۶ نشستیں ہوا کرتی تھیں اور انتخابات میں این سی نے سویپ کرتے ہوئے ۴۷ نشستوں پر اپنی جیت درج کی تھی۔ جنتا پارٹی نے ۱۳ کانگریس ۱۱ کے ہندسے پر رہی تھی اور جماعت اسلامی جس کے پاس اس سے پہلے ۵ نشستیں تھیں صرف ایک سوپور کی نشست تک سمٹ گئی تھی، آزاد چار تھے۔ میں اس کی توضیح نہیں کروں گا کہ اچانک سیاسی فضاؤں نے اپنا رخ کیوں اور کس طرح بیک وقت تبدیل کیا تھا ؟ لیکن کشمیری عوام نے ہمیشہ اور شروع سے ہی ’’ردِ عمل ‘‘کا اظہار کیا ہے جو ماضی میں بھی ایک حقیقت رہی ہے اور آج بھی اپنی جگہ پر حقیقت ہے۔
اب جہاں تک ۲۰۲۴ کے حالیہ انتخابات کا تعلق ہے اس میں اگر چہ مرکزی سرکار نے، ایسا کہا جاتا ہے کہ بڑی ہوشیاری اور چالاکی سے اپنی بساط بچھائی تھی لیکن حیرت انگیز بات شاید یہ ہے کہ انہوں نے کشمیر میں ماضی کے انتخابات، ان کی حکمت عملیوں اور ان کے نتائج پر شاید کبھی غور نہیں کیا یا دوسرا پہلو یہ ہوسکتا ہے کہ انہیں ان نتائج کی اپنی حکمت عملی کے تحت توقع رہی ہو اور توقع رکھنی بھی چاہیے تھی۔ اس بار این سی نے اپنا ہدف اکیلے ہی پالیا اور ۴۲ سیٹوں پر اپنی جیت درج کی ،کانگریس نے بھی این سی اتحا دکے ساتھ ۶ نشستوں پر اپنی جیت درج کی ہے ، پی ڈی پی بیک وقت تین سیٹوں تک محدود ہوچکی ہے اور آپ کو یاد ہوگا کہ ۲۰۱۴ میں پی ڈی پی ۲۸ کے ہندسے پر ایک بڑی پارٹی بن کر ابھر آئی تھی اور پی ڈی پی جیسا کہ آپ کو معلوم ہے اس ہندسے تک آنے میں بڑی تیز رفتار رہی تھی اور آج اپنے گھر کی سیٹ بھی جیت نہیں پائی۔ اس کی بھی اپنی تشریحات ہیں۔ عوام شاید این سی کا ایک متبادل چاہتے تھے لیکن پی ڈی پی نے بی جے پی کے ساتھ تعاون کر کے عوامی منڈیڈیٹ سے تجاوز کیا تھا اور اس طرح زمینی سطح پر پی ڈی پی نے ہی بی جے پی کو میچ کھیلنے کے لئے پچ فراہم کی تھی اور حالیہ انتخابات میں پی ڈی پی کے بارے میں این سی یہ تاثر دینے میں بھی کامیاب رہی کہ وہ بی جے پی کی بی ٹیم ہے بلکہ رشید انجینئر کو بھی اسی زمرے میں ڈالا جاسکتا ہے جس کے بارے میں یہی ایک ہتھیار استعمال ہوا جو بہر حال تیر بہدف ثابت ہوا ۔ رشید کے بارے میں دو بی جے لیڈراں نے جو وضاحت کی کہ بی جے پی کا انجینئر سے تعلق نہیں ، انہیں یہ تردید کرنے کی کیوں ضرورت پیش آئی؟ عوام نے اس سے ،’’ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ‘‘کے کھاتے میں درج کیا۔ کیا یہ جان بوجھ کر کیا گیا تھا؟ یہاں دونوں پی ڈی پی اور انجینئر رشید کے بارے میں پھر یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہی اس حمام میں رہے ہیں یا اور بھی اس حمام میں نہا چکے ہیں؟ کیا اس سے پہلے بھی کسی نے ایسا کیا ہے ؟ اب ان باتوں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ، (کون کتنا گنہگار ہے کہوں کہ نہ کہوں)۔
بہر حال این سی نے کشمیر صوبے سے ۳۵ نشستوں پر جیت درج کی ہے اور جموں صوبے میں انہوں نے سات کا ہندسہ پا لیا ہے۔ سکور بورڈ ایک نظر میں یوں ہے این سی ۴۲، بی جے پی ۲۹، کانگریس ۶ ، پی ڈی پی ۳، پیپلز کانفرنس ۱ ، سی پی ایم ۱، عآپ ۱، آزاد ۷۔عآپ نے پہلی بار جموں و کشمیر میں اپنا کھاتہ کھولا ہے، جو شاید اچھی کارکردگی کا اظہار ہے۔ اب ایک سر سری نظر سے بھی ان نتائج کو دیکھا جائے تو بلکل واضح ہو تا ہے ،کہ خطے تقسیم ہیں اور ووٹر بھی مذہبی اور دوسری بنیادوںپر ایک دوسرے سے مکمل جداگانہ ووٹ کرتے ہیں، جہاں ہمیں کوئی ذہنی اور سوچ و فکر کی ہم آہنگی نظر نہیں آتی۔ جموں خطے میں ۴۳ نشستوں میں ۲۹ نشستوں پر جیت درج کرنا اور کشمیر خطے میں این سی کا ۴۲ تک پہنچنا ، ظاہر ہے کہ دو مختلف سوچ و فکر کی غماز ہے اور بلکل واضح ہوجاتا ہے کہ کس نے کس کے خلاف ووٹ کیا ہے۔
اب پچھلے دو دنوں میں ان نتائج سے متعلق جو بیا نات سامنے آئے ہیں ان کی روشنی میں بھی اس بات کا تعین کیا جاسکتا ہے ۔ایسے نتائج کیونکر سامنے آئے ہیں۔ فاروق عبداللہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’’عوام نے مرکز کے یکطرفہ فیصلے کو مسترد کیا ہے ‘‘ظاہر ہے کہ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ عوام نے ۳۷۰ کے ایبارگیشن وغیرہ کے فیصلے کو قبول نہیں کیا اور اس اہم بات کی وضاحت میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ۲۰۱۹ سے جتنا کچھ بھی مرکزی لیڈراں اس فیصلے سے متعلق بیان بازیاں اور جو توضیحات آگے بڑھا رہے تھے وہ مفروضات ہی ثابت ہوئے ہیں اور زمینی سطح پر ان کی کوئی حقیقت نہیں اور نہ ہی کشمیری عوام نے اس فیصلے کو کوئی قبولیت ہی بخشی ہے کیونکہ بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان نتائج نے بلند بانگ طریقے پر یہ واضح کیا ہے کہ عوام نے مرکزی پالسیوں کو حق بجانب قرار نہیں دیا ہے اور جو بھی فیصلے ریاست جموں و کشمیر سے متعلق ۲۰۱۹ کواور اس کے بعد کئے گئے ہیں ، لوگ ان سے مطمین نہیں۔ جموں میں کانگریس پٹ چکی ہے صرف راجوری کی ایک سیٹ نکانے میں کامیاب ہوئی۔ راہول کی حکمت عملی شاید کمزور رہی، وہ کشمیر تو کمپین کے سلسلے میں پدھارے لیکن جموں پر توجہ مبذول نہیں کی ، انہیں جموں کی فکر ہونی چاہئے تھی کیونکہ یہاں زمینی سطح پر کانگریس کے لئے رکھا ہی کیا تھا؟ کانگریس لیڈر شپ کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے تھا کہ کشمیری عوام این سی اور کانگریس دونوں کو ۳۷۰ اور ۳۵ اے کی بیخ کنی میں یکساں گنہگار ٹھہراتے رہے ہیں ، کیونکہ یہی تاریخ ہے کہ الحاق کے ایک چھوٹی سی مدت کے بعد ہی کانگریس جموں و کشمیر کے سپیشل سٹیٹس کو تاریخی طور ختم کرنے کے در پے رہی ہے ، اور اسی سلسلے میں شیخ کی گرفتاری اور پھر مختلف ادوار میں یکے بعد دیگرے کٹھ پتلیوں کو تخت شاہی پر براجمان کیا گیا۔ بقول امیت شاہ کہ ہم نے کیا ہی کیا ہے؟ یہ دفعہ تو پہلے کھوکھلی تھی اور اس میں کچھ رہا ہی نہیں تھا ‘‘ ظاہر ہے کہ ایک کھوکھلا درخت تھا جس سے ۵ اگست ۲۰۱۹ کو ایک ہی دھکے سے گراکر سڑک یعنی تعمیر و ترقی کی مسدود راہیں کھول دی گئیں۔
بہر حال اس الیکشن میں ۱۹۷۷ کی ہی طرح این سی کی رگوں میں پھر ایک بار عوامی لہو موجزن نظر آرہا ہے اور یہ بھی این سی کی تاریخ رہی ہے کہ یہ جماعت فیصلوں اور کشمیر کے مفادات کی رکھوالی اور پاسبانی میں ہمیشہ کمزور اور ضعیف ثابت ہوچکی ہے۔ پہلے بھی اقتدار اس کا مطمع نظر تھا آج بھی بلکل ایسا ہی ہے ، لیکن کشمیری عوام کا ووٹ جو آج کھلے دل سے پھر ایک بار این سی کوحاصل ہوا ہے کھلے طور عوام کی مرکزی حکمرانوں کے خلاف ردِ عمل کا اظہار ہے کیونکہ اپنے جذبات اور احساسات کو اس طرح سے زباں دینے کے سوا اور کیا اوپشن موجود تھا ؟ عمر عبداللہ نے بیان دیا ہے کہ وہ ریاستی درجے کی بحالی کے لئے اولین فرصت میں قرار داد پیش کرے گا۔ کبھی اس طرح کی اٹانومی کی قرارداد جناب فاروق عبداللہ نے بھی پیش کی تھی جس سے پڑھے بغیر ہی ردی کی ٹوکری میں ڈالا گیا تھا۔ اب بھی یہی کچھ ہوگا کیونکہ یہ عمر کو بھی پتہ ہے اور عوام کو بھی ، لیکن ایک فارمیلٹی ہے تاکہ لوگ جان سکیں کہ قراداد پیش ہوئی ہے۔ کیا کشمیر کے عوام اس سے بے خبر ہیں کہ صرف بی جے پی ہی ریاست کا درجہ بحال کر سکتی ہے ، اور وہ اس بات کا کریڈٹ این سی کو کیوں دیں گے اور اگر دیتے ہیں تو پھر اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ ’ ردِ عمل‘ سے یہ لوگ واقف اور باخبر رہے ہیں اور ان کی تھنک ٹینک نے اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا ہے ۔ رہا ۳۷۰ تو یہ پہلے ہی بی جے پی کلیر کر چکی ہے اور بار بار اسی نعرے اور اسی بنیاد کو آگے بڑھا کر جموں میں نشستوں کی اچھی خاصی تعداد بی جے پی حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ بہر حال اس الیکشن کی توضیحات اور تشریحات آگے ہوتی رہیں گی اور سیاسی پنڈت بھی جائزہ لیتے رہیں گے کہ کشمیری عوام نے ۷۷ کو کیوں اور کیسے دہرایا۔
جنوب میں التجا مفتی، ویری ، سر تاج مدنی محبوب بیگ جیسے کہنہ مشق اور دیرینہ سیاست داں پشت بہ دیوار ہوچکے ہیں اور اسی طرح شمالی کشمیر میں ضلع بارہمولہ کے سات حلقوں میں چھ پر این سی نے کامیابی حاصل کی ہے۔ ابھی یہی کہا جاسکتا ہے کہ اس بار کشمیری عوام نے اپنی سوچ و فکر اور سادگی کے ساتھ جو پیغام دیا ہے وہ واضح ہے، اور این سی کی تھنک ٹینک کو بھی سمجھنا چاہئے کہ ہر بار اور ہر بات پہ سمجھوتہ اور ہر مسلے میں پشت بہ دیوار ہونے سے بہتر ہے کہ ان اشوز کو ایڈریس کرنے کی کوشش کریں جن کے خواب انہوں نے بیچے ہیں اور واضح طور اس بات کو سمجھا جائے کہ عوام سمجھتے ہیں این سی کی اب کی سرکار اب کچھ زیادہ پابہ زنجیر ہے جس کا اظہار انتخابات سے پہلے ہی عمر عبداللہ نے ایک پریس کانفرنس میںیہ کہہ کر کیا تھا ’’ کہ اب کے چیف منسٹر کی حیثیت چپراسی سے زیادہ کی نہیں ہوگی جو بغل میں فائلیں دبائے گورنر کی دہلیز پر کھڑا رہا کرے گا اور میں اس طرح کا چیف منسٹر بننا پسند نہیں کروں ‘‘ لیکن سیاست میں بس یہی ہوتا ہے کہ جو دکھتا ہے وہ نہیں ہوتا۔ بقولِ غالب
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں