90

اقتدار۔۔۔ کس کے لئے خواب اور کس کے لئے تعبیر

رشید پروینؔ سوپور

’’۸ اکتوبر کو ہم جموں و کشمیر کی حکومت بنائیں گے‘‘ کئی پارٹیاں ایسا دعوے کر رہی ہیں لیکن جس یقین اور اعتماد کے ساتھ بی جے پی اس دعوے کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے وہ فی الحال سوچ و فکر کو دعوت دے رہی ہے، کیونکہ جموں کے زمینی حقائق ایسے نہیں لگتے جیسا کہ بی جے پی کو گماں رہا ہوگا لیکن پھر بھی اس یقین اور اعتماد کی وجوہات پر فی الحال صرف غور ہی کیا جاسکتا ہے، لیکن پہلے یہ کہ انتخابات کے تینوں مر حلے اختتام پزیر ہوچکے ہیں اور ایسا کہا جاسکتا ہے کہ اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں اور یہ کہ ان تینوں مر حلوں کے دوران کہیں پر بھی کوئی قابل ذکر ناخوشگوار واقع رونما نہیں ہوا ، جس کی توضیحات ایک تو کئی ہوسکتی ہیں دوسری اس منظر کو صرف بی جے کے نقطہ نظر سے دیکھا جاسکتا ہے اور بس۔ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے اس پسِ منظر میں یہ کہا ہے کہ ’’ لوگ بندوق اور صندوق کا فرق سمجھ چکے ہیں ‘ ظاہر ہے کہ یہ اشارہ اس جانب ہے کہ عوام نے انتخابات میں حصہ لیا ہے، بڑی مدت کے بعد اپنے ووٹ کا استعمال کیا ہے اور اپنی مرضی اور خوشی کے ساتھ اس سارے انتخابی عمل میں حصہ لیا ہے، جو ایک مثبت سوچ و فکر کی غماز ہے بلکہ مرکزی اقتداری ایوان اس سے یہ نتائج اخذ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ عوام نے اپنے ماضی کو بلا کر اپنے مسقبل کی جانب رخ کیا ہے۔ ہم اس کی تشریح میں کچھ کہنا پسند نہیں کریں گے،بس اتنا کہ کشمیری قوم شاید وہ واحد قوم ہے جس پر وقفے وقفے سے دورے پڑتے ہیں اور ان دوروں کی اقسام بھی وقت کے لحاظ سے الگ ہوتی ہے ،یا پھر وہی بخشی غلام محمد مر حوم کی بات کہ میرے ساتھ چالیس لاکھ عوام ہیں اور شیر کشمیر کے ساتھ بھی یہی چالیس لاکھ ہیں۔
بہرحال اسمبلی انتخابات کے تیسرے مر حلے میں۴۰ حلقوں سے ووٹر ٹرن آوٹ ۶۹۔۵۵ اور تین مر حلوں میں مجموعی ٹرن آوٹ ۸۸۔۶۳ رہا ۔ اہم بات یہ ہے کہ بی جے پی اور امیت شاہ سے لے کر ہر چھوٹا بڑا لیڈر حکومت بنانے کے نہ صرف دعوے کر رہا ہے بلکہ انہیں بڑی بے صبری سے ۸ اکتوبر کا انتظار ہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ۸ اکتوبر کا سورج جموں کشمیر میں زعفرانی رنگ کا کمل لے کر طلوع ہوگا اورباکل ان کا اعتما ہے کہ وہ ’اقتدار نشین ‘ہو جائیں گے، اس بات کے باوجود کہ انہوں نے وادی میں کسی امیدوار کو نہیں اٹھایا تھا۔ بظاہر اور براہ راست ان کا کوئی امیدوار میدان میں نہیں تھا لیکن پارٹیاں ایک دوسرے پر بی جے پی امیدوار اور بی جے پی کی بی ٹیم ہونے کا الزام لگاتی یا طعنہ دیتی رہی ہیں لیکن اس میں کتنی حقیقت ہے اس کے بارے میں قبل از وقت اعتماد کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اب یہ ایسا بھی تو نہیں کہ وہ جموں میں کلین سویپ کر کے اس منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہوجائے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ ۲۰۱۴ میں بی جے پی نے جموں سے پچیس نشستیں حاصل کی تھیں، اب کی بار بتایا جاتا ہے کہ ایسا نہیں لگتا لیکن ہمارا خیال ہے کہ اس بار بی جے پی نے آخری دنوں اپنے عوام کو اپنی جانب راغب کیا اور یقینی طور پر ان کے نعرے نے ہندو ووٹ کو یکجا کرنے میں بڑی مدد کی اور ہوسکتا ہے کہ اس نعرے کی بنیا د پر انہیں اس بار بھی سیٹوں کی اچھی خاصی تعداد مل جائے ، لیکن کتنی ؟ یقینی طور پر وہ کسی اور کے تعاون کے بغیر کرسی نشین ہونے کا خواب نہیں دیکھ رہے ہوں گے ،کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ؟ تو پھر اقتدار میں آنے کی بنیاد اور یقین کیا ہوسکتا ہے ؟ اس بات کی وجوہات یوں ہوسکتی ہیں کہ شاید بی جے پی کو گھاٹی سے توقع سے زیادہ سیٹیں ملنے کی امید ہو ، یہ تو معلوم ہی ہے کہ وہ خود یہاں الیکشن فرے میں نہیں تھی لیکن بی جے پی ’ہارس ٹریڈنگ ‘کی ماہر ہے اور کشمیری لوگ اقتدار کو بہت اور اولین ترجیح دیتے ہیں۔
ابھی نتائج سامنے آنے سے پہلے ہی این سی بی جے پی کے مذاکرات کی بات کی جارہی ہے۔ این سی نے اس کی تردید کی ہے لیکن تردید ہی اپنے آپ میں شبہات بھی پیدا کرتی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اقتدار میں آنے کی خاطر کسی بھی پارٹی سے لوگ آسانی سے اپنے گھونسلے بدل دیتے ہیں یا بدلنے کے لئے تیار رہتے ہیں یا یہ اس طرح بھی ممکن ہوسکتا ہے کہ ایک نیا سیاسی پسِ منظر ابھر کر سامنے آئے جہاں کشمیر اور جموں دونوں خطوں کی پارٹیاں یا نمائندے بنیادی طور پر جموں و کشمیر سے متعلق کچھ بنیادی باتوں پر اتفاق کر کے ا تحاد اور ایک دوسرے کے تعاون سے اقتدار پر براجمان ہوں۔ اس اتحاد کے لئے یہ بنیادی اور لازمی نقاط طئے کئے جائیں جو دونوں خطوں کے لئے یکسان اہم اور ناگزیر ہوں۔ ان میں ریاستی درجہ کی بحالی اور اس سے بھی اہم زمین اور نوکریوں کا تحفظ ا ور ترقیاتی پیکیج ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ تینوں نقاط جموں کے لئے بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے کشمیر کے لئے ہیں۔جموں کی مارکیٹ کا انحصار کشمیر پر ہے کیونکہ جموں تجارتی لحاظ سے کشمیر پر منحصر ہے اور اگر کشمیر مارکیٹ بیٹھ جاتی ہے تو جموں شدید طور پر متاثر ہوتا ہے ، جموں کی ساری انڈسٹری اس بات کو ٹھیک سے سمجھ چکی ہے ، اس لئے سرکار کے لئے بھی اتحاد اور تعاون اس پس منظر میں کوئی انہونی نہیں ۔ یہ ساری چیزیں اس وقت بی جے پی کی جھولی میں ہیں اور بی جے پی ہی تعاون اور اتحاد کے دروازے کھول سکتی ہے اس سے صرف اپنی ہندوتا پالیسی میں تبدیلی لانی ہوگی اور یہ تبدیلی جتنی جلدی بھی آتی ہے ملک بھر کے لئے بہتر اور اچھا قدم ثابت ہوگا۔ یہ اس پسِ منظر میں بھی بڑی حد تک درست لگتا ہے کہ ابھی اپنے ایک حالیہ بیان میں امیت شاہ نے یہ کہا بھی کہ ریاستی درجہ صرف بی جے پی ہی بحال کر سکتی ہے اور کوئی نہیں۔
کشمیر کی کوئی پارٹی شاید تنہا حکومت سازی نہ کر پائے کیونکہ تمام حلقوں میں این سی کانگریس اور پی ڈی پی نہ صر ف ایک دوسرے کے مقابل تھیں بلکہ بڑی حد تک انہیں محدود رکھنے اور ووٹوں کو منتشر کر نے کے لئے بھی امیدواروں کی مشروم گروتھ موجود تھی ، یقینی طور پر اس بڑی تعداد کا اثر سرینگر اور اہم حلقے سوپور کی ووٹر ٹرن اُور پر صاف ظاہر ہوا ،یہ بھی آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ اب کشمیر کی کسی بھی پارٹی کا تنہا حکومت سازی کرنااگرچہ دشوار بھی ہے لیکن دو منٹ کے لئے یہ مان بھی لیا جائے تو آگے ’ کرسی نشین‘ ہوکر وہ کیا کر پائے گی اور ہاتھ پیر کس حد تک کھلے ہیں؟ کیونکہ مر کزی سرکار نے تو پہلے ہی اس طرح کی حکومت کو پابہ زنجیر کرنے کے مقصد سے کچھ نئے قوانین لاگو کئے ہیں جن میں حکومت سازی کے باوجود یہ سرکار از خود کوئی کام نہیں کر پائے گی بلکہ ہر ہر قدم پر بلکہ منسٹر کے کہیں دورے کی انفارمیشن بھی دو روز قبل لیفٹنٹ گورنر کے ٹیبل پر ہونی چاہئے ، تو ظاہر ہے کہ اس طرح کی حکومت سازی سے کس طرح کے نتائج اخذ ہوسکتے ہیں ؟ لگتا ہے کہ کشمیر نشین سیاسی پارٹیوں کے لئے اتنی ہی سپیس رہنے دی گئی ہے کہ وہ ایک مخلوط سرکار کی طرف قدم بڑھانے کے لئے مجبور ہو کیونکہ اس کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ کار ہی نہیں۔ لیفٹننٹ گورنر کو اتنے ہی نہیں بلکہ یہ بھی اختیا رسونپا گیا ہے کہ وہ اپنی صوابدید پر ۹۰ سیٹوں کے علاوہ پانچ اراکین کو خود ہی نامزد کریں گے ۔۔پولیس بیرو کریسی اور اٹارنی جنرل اور پراسکیوٹر پر بھی گورنر کا کنٹرول ہوگا ، تقرریاں بھی گورنر کے کنٹرول میں ہوں گی، اتنا ہی نہیں بلکہ ایل جی کے ایک نمائندے کو تمام اجلاسوں میں شرکت کا پابند بنادیا گیا ہے ۔ پانچ اراکین کامطلب صاف ہے کہ میچ کی شروعات سے پہلے ہی ان کے اکاونٹ میں یہ سکور موجود ہوگا اور آج ہی ایک بیان میں جناب لیفٹنٹ گورنر نے کہا ہے کہ یہ پانچ اراکین آنے والی اسمبلی میں اہم کر دار ادا کریں گے۔
الیکشن سے پہلے تک کئی پارٹیا ںسجاد لون اور الطاف بخاری کوبی جے پی کے پراکسی کے طور پر پیش کر رہی تھیں ، لیکن اب انتخاب میں جو نظر آرہا ہے وہ کہ یہ لوگ نہ تین میں تھے اور نہ تیراں میں ۔ اسی طرح این سی ،کانگریس کے نشانے پر انجینئر رشید رہے اور رشید کے بارے میں دو سوالات کو بہت زیادہ ابھارا گیا ، ایک تو یہ کہ وہ عبوری ضمانت پر کیسے رہا ہوئے ، اس میں حیرانگی کا معاملہ کہاں سے بنتا ہے ، کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ بہت کچھ کے باوجود ہندوستان کا عدلیہ ابھی کام کر رہا ہے اور مبنی بر حق بھی فیصلے کرتا رہا ہے ، دوئم یہ کہ اس کی فنڈنگ کہاں سے ہو رہی ہے ؟ ہم نے جماعت اسلامی کے سید علی گیلانی کے پارلیمانی انتخابات بھی دیکھے ہیں اسمبلی انتخابات بھی ، اور یہ بھی دیکھا ہے کہ لوگ اپنی جیبوں سے بھی خرچہ کیا کرتے تھے اور وسیع القلبی کے ساتھ ڈونیٹ بھی کیا کرتے تھے ، حالیہ اسمبلی الیکشن کے دوران میری ملاقات ایک دوست سے ہوئی جنہوں نے کہاکہ ’میں نے اپنے آزا د امیدوار کی کمپین کے دوران لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ روپیہ خرچ کیا ہے، میرے پاس اس میں شک کرنے کی کوئی خاص وجہ نہیں تھی۔ کیا رشید انجینئر کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہے یا کچھ اور ؟ ابھی یہ پردوں میں ہی رہے گا لیکن بہت جلد سب کچھ پردوں سے باہر آئے گا۔
جماعت اسلامی کے امیدواراں بھی اس انتخاب میں حصہ لے چکے ہیں ، اور انہوں نے جس بات کو بنیاد بناکر انتخابات میں آنے کی دلیل بنائی ہے اس پر ہم کوئی توضیح نہیں کریں گے لیکن الیکشنوں میں آنے کی جو توضیح وہ کر چکے ہیں اس میں وہ جان نہیں ، لیکن بہر حال ہم اس پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے صرف ایسا کہیں گے کہ ساوتھ کے کئی علاقوں میں ان کا خاصا ووٹ بینک تھا ، جنہوں نے پی ڈی پی کو ۲۰۱۴ میں ۲۸ کے ہندسے تک پہنچایا تھا ، سو آج اس الیکشن میں انہوں نے خود اس ووٹ کو کیش کرنا چاہا، تودلچسپ بات دیکھنے کی یہ ہوگی کہ کیا وہ اپنے کسی امیدوار کو اسمبلی میں پہنچانے کے قابل بھی ہوں گے کہ نہیں۔
پی ڈی پی کا کئی سیٹوں پر کافی زور تھا ، اور ایسا لگتا ہے کہ شاید ایک مختصر سی تعداد ان کے حصے میں بھی آئے، لیکن اس کے باوجود یہی ہے کہ کشمیر نشین پارٹیوں کا منڈیڈیٹ منتشر سا ہوگا اور ایسا ممکن ہی نظر نہیں آ تا کہ ان میں کوئی پارٹی حکومت سازی کی پوزیشن میں ہو بلکہ یہ شاید مل کر بھی حکومت کی منزل تک نہ پہنچ سکیں ۔ کیونکہ بی جے پی نے بہت سوچ سمجھ کر انتخابی میدان سجایا تھا، جس میں کشمیر میں لاتعداد امیدواروں کا آنابھی یہ عندیہ دے رہا تھا کہ مسلم آبادی کے ووٹ کو منتشر رکھا جائے تاکہ ایک بڑی مسلم آبادی کو بے دست و پا کر کے رکھا جائے۔۔ ظاہر ہے کہ ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں شاید بی جے پی کے اعتماد اور یقین کی ایک بنیاد یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ایک مخلوط حکومت ہی ایک آخری اوپشن ہو جس میں بی جے بھی ایک اہم اکائی کی حیثیت سے شامل اقتدار رہے اور اگر ایسا ہوا تو یقینی طور پر اپرہینڈ بی جے پی ہی کا ہوگا ۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں