14

ڈاکٹر شہزداہ سلیم کا سماجیاتی مطالعہ۔۔۔’’اگر میں زندہ ہوتی‘‘ کے حوالے سے

سہیل سالم، رعناواری

ؐاچھا مضمون یا اچھی کتاب سماج کی خستہ حالت پر غور کرنا ،سماجی اقدار کے شدید احساس اور وسیع مشاہدے سے وجود میں آتی ہے۔ ایسی کتابیں قاری کو ایک نئے دنیا میں لے جاتی ہے اور جب مصنف اس میں تحقیق، عام فہم اور مدبرانہ آہنگ پیدا کردیتا ہے۔نئے لکھنے والوںمیں یہ خصوصیات بہت ہی کم پائی جاتی ہے۔ کئی مصنف ایسے بھی ہے جو روایت کا راستہ تر ک کر کے لکھنا پسند کرتے ہیں۔ لکھنا جن کے لئے خون جگر صرف کرنے کا دوسرا نام ہے۔ڈاکٹر شہزادہ سلیم ؔ کا شمار بھی ایسے مصنفین میں ہوتا ہے۔
’’اگر میں زندہ ہوتی ‘ڈاکٹر شہزادہ سلیم ؔ کی پہلی اردو ہ تصنیف ہے جو کہ 2023 میں منصہ شہود پر آگئی۔ ۔اس سے قبل ان کی دو کتابیں انگریزی زبان میں منظر عام پر آچکی ہیں۔ جن کے عنوانات کچھ اس طرح سے ہیں:my dis apperance dad شاعری اور postive youth devlopment through cultural & literary activties جو کہ مضامین پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ \literature folk\ feminis\ culutral studies\ anthroplogy\ shvisim\ chilg physcology پران کے مضامین آئے دن اقوامی اور بین الاقومی رسالوں کی زینت بنتے رہتے ہیں ۔
زیر نظر کتاب ’’اگر میں زند ہ ہوتی ‘‘ کے پس منظر میں یہی سوال اُبھرتا ہے کہ کشمیر میں خواتین زیر عتاب کیوں ؟کیوں ابھی تک1700 خواتین گھریلو تشدد کی شکا ر ہوگی۔کیوں ابھی تک کشمیر میں595 خواتین عصمت ریزی کی شکا ر ہوگی۔کیوںابھی تک 876 خواتین جہیز نہ لانے پر ظلم و ستم سہ رہی ہے۔کیوں ابھی تک کشمیر میں 572خواتین نے خودکشی کر لی۔ کیوں1300 خواتین نے رشتہ داروں کے کہنے پر نوکریاں چھوڑ دی اور بہت سارے سولات جن سے ہمارے وجود پر عجیب سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔
سماج کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد سماجی فلاحی وبہبود ی کے لئے ،معاشرتی توازن،سیاسی نظام،معاشی صورت حال اور دیگر شعبوںمیں خواتین کے کردار کی اہمیت اور افادیت پر ہمیشہ زور دیتے ہیں کیونکہ سماج میںخواتین کی اہمیت اور عظمت کو نظر انداز کرنے کا تو کوئی جواز ہی نہیں۔ عورت ہر روپ اور ہر رشتہ میں وفاداری کی علامت، مونس و غم خواراور محبت کا پیکر سمجھی جاتی ہے۔ زیر نظر کتاب ’’ اگر میں زندہ ہوتی‘‘ میں بھی شہزادہ سلیم نے عورت کے مسائل و مشکلات پر تفصیل سے بات کر نے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے جو کہ ڈائری کی صورت میں منصہ شہود پر آگئی ہے۔ جن کے موضوعات، مفہو م و مطالب، سیاسی میدان میں خواتین کی شمولیت، خواتین کے تناسب میں کمی، تعلیم، گھر یلو تشدد، زچگی حقوق، کم عمری میں شادی، خواتین کے ساتھ استحصال کی انتہا اور، عورت کے خواب اور پیغام ہیں۔ لفظ ’’عورت ‘‘ کو مختلف معنی میں وضاحت کی گئی ہے۔اگر کسی کامیاب انسان کے پس منظر میں کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے تو یہاں عورت کو کامیابی کی سیڑھی قرار دیا جاتاہے ۔ اس سے ظاہر ہوا کہ عورت کے وجود میں کہیں نہ کہیں قوت عظمی ضرور موجودہیں۔عورت کے مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے شہزادہ سلیم لکھتے ہیں:’’ عورتوں کے بارے میں کافی تقریریں سن کر سکول کے دنوں سے ہی دل کو یہ ساری باتیں عام سی لگتیں تھیں۔دل جیسے اکتا سا گیا تھا۔ لیکن جو نہی اللہ تعالیٰ نے میرا نکاح نصیب فرمایا تو مجھے عورت کی عظمت کا اندازہ بخوبی ہوا۔ مجھے لیکن اس بات کا احساس تب ہوا جب میں نے دیکھا کہ میری بیوی ہمارے بچے کو رات میں کئی بار دودھ پلاتی ہے جس کا مجھے کبھی کبھی ادراک بھی نہیں ہوتا اور صبح وہی بیوی باور چی خانے میں میرے لئے ناشتہ اور ظہرانہ تیار کرتی ہیں۔میں سوچتا تھا کہ وہ سوتی کب ہے۔کبھی کبھار اگر میری نیند کھل جاتی تھی ،مجھے پورے دن نہ سونے کا احساس ہوتا تھا۔لیکن بیوی کے معاملے میں حیران ہوں جو سارا کام نپٹا کر بھی گھر کے باقی افراد خانہ کے طعنے سننے کا کالیجہ رکھتی ہے‘‘( ۔۔ص۔14 ) ۔اب اگر عورت زندگی کے معنویت سمجھانے میں مہارت رکھتی ہے توپھر کیوں اور کیسی اس کی ذات میں احساس کمتری نے جنم لیا۔اس سلسلے میں یہ تہمت مردوں پر لگائی گئی ہے یاپھر عورت ہی عورت کی دشمن ثابت ہوئی ہے۔یہ وہ مسلہ ہے جسے حل کرنے کے لیے شہزادہ سلیم نے کتاب میں ایک چھوٹی سی گزارش کی ہے کہ سماج کے باشعور افراد خود پہچانیں، خود شناخت کریںاور خود غور فکر کریںنیزعورت کی اس صورت حال کا جائرہ لے جس کو ہر وقت آلودہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عورت کی اس صورت حال کو مدد نظر رکھتے ہوئے شہزادہ سلیم رقمطرازہیں:’’محمدرمضان نامی اس شخص نے دوسری نوکری ڈھونڈنے کے بجائے گھر میں گوشہ نشینی کرلی اور سگریٹ پہ سگریٹ سلگتا رہا ۔یہاں تک کہ وہ کئی ساری نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوگئے۔اب بچوں اور بوڑھے ساس سسر کی پوری ذمہ داری میمونہ پہ پڑی جس کی تنخواہ فقط پانچ ہزار روپے تھی جو کئی ماہ کے بعد اسکو ملتی تھی۔نتیجہ یہ ہوا کہ گھر کے سسرنے میمونہ کی زندگی اجیرن بنادی کیونکہ وہ اپنی بہو کی کمائی کا عادی بن گیا اور جب اس کو وقت پہ تنخواہ ہاتھ میں نہیںملتی تھی تو وہ اپنی بہور کو مارنے لگتا ۔بچوں کو بھی سکول سے ہاتھ دھونا پڑا اور میمونہ خود نفسیاتی بیماری اور ڈپریشن کا شکار ہوگئی۔‘‘ (۔۔ص۔۔106 )
عورت کا اصل اور حقیقی حسن، اس کا حیا اور نسوانیت ہے پھر یہی خصوصیات نشونما پاکر محبت، وفا،اخلاص اور انس جیسے با وقار جذبوں کی شکل وصورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہی وہ خصوصیات ہیںجس کی روشنی سے تصویر کائنات میں رنگینی پیدا ہوتی ہے۔ ایک عورت جب ماں کادرجہ اختیار کر لیتی ہے تو اس کے بعد بچے کی نہ صرف پرورش و پرداخت اور رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی ہیں بلکہ زچگی کے دوران کئی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور اپنے اس وجود کے ٹکڑے کو ہر آفت سے محفوظ رکھتی ہے تاکہ دونوں کی زندگی میں تندرستی قائم رہے ۔ بقول شہزادہ سلیم:’’اگرچہ حکومت نے اس ضمن میں بچوں کی پرورش کی جس کو سرکاری زبان میں سمجھا جاتا ہے اور واگزار کرایا ہے۔ تاہم غیر سرکری انجمنیں جس میں ہماری دینی،سماجی اور دوسری رضا کر انجمنیں بھی شامل ہے اس ضمن میں ناکام دکھائی دے رہی ہیں۔ اسی لئے میری رائے میں نجی سطح پر کسی بھی قیمت پر اس instutionپر کافی محنت کرنے اور سدھار لانے کی ضرورت ہے اور اپنے من سے اس فتور کو دور کرنے کی ضرورت ہے (۔۔ص۔78)
خواتین کو عزت و احترام سے نوازنا دراصل انسانیت کے احترام کے مترادف ہے ۔اگر ہم اپنی ماں کو عزت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں تو دنیاکی ہر خاتون کا احترام کرنا ہمارے لئے لازمی بن جاتا ہے۔ مختلف طریقے اپنا کر عورت کا استحصال کرنا اور اسے کمزور وحقیر سمجھ کر اس زندگی کو تباہ و برباد کرنا ،ایک قو م کو برباد کرنے کے برابر ہیں۔ اسلام نے ایک صالح معاشرے کی بنیادرکھی جہاں عورتوں کے حقوق کو غضب کرنا، عورتوں پرظلم وجبر کرنا ،طاقت کابے جا استعمال کر کے بیٹیوں کی ولادت کو باعث رسوائی سمجھنا ایک سنگین جرم قرار دیا ہے۔ انسان تو انسان بلکہ ہر چرند و پرندکے حقوق کا احترام کرنے کی تلقین کی ہے۔اس کے پس منظر میں شہزادہ سلیم لکھتے ہیں :’’حضور ﷺ کے آخری خطبہ میں عورتوں کے حقوق کے بارے میں مسلمانوں کو کاقی زور سے آگاہ کر دیا۔ لڑکی کو باپ کی وارثت میں حصہ دینے کا حکم۔ لڑکیوں کی پرورش کو جنت حاصل کرنے کا حصول۔لڑکیوں کو علم حاصل کرنے کا حکم۔ مرد کو ایک عورت کا نگہبان قرار دینا۔‘‘ (۔۔ص۔۔111 )
اسلام نے عورت کو ایک اعلیٰ مقام عطا کیا جوقیامت تک ہماری بہنوں کے لئے مشعل راہ ہے۔ علاوہ ازیں خواتین کو ایک ایسے اعلیٰ طرز حیات وتعلیم سے سنوارا جس سے انھیں دنیا و آخرت میں کا میابی حاصل ہوسکتی ہے۔ معاشرے کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے ہمیں خواتین کی فلاحی و بہبودی کو بر قرار رکھنے کے لئے ان کے نیک ارادوں کو مزید قوت بخشنی ہوگی کیونکہ ایک صالح معاشرہ تبھی وجود میں آسکتا ہے جب مرد کے ساتھ ساتھ اس میںایک عورت کا بھی عمل دخل ہو۔ بقول شہزادہ سلیم :’’رحمت اس سے شادی کرنا چاہتی تھی ۔یہ سن کر اس کے گھر والے اس کے خلاف ہوگئے اور اس سے سارے رشتے ناطے توڑنے پر تیار ہوگئے مگر محبت کا بھرم رکھتے ہوئے گھر والوں کی مرضی کے خلاف رحمت نے شادی کر لی۔ایک سال بعد اللہ تعالی نے ایک خوبصورت بچہ بھی عطا کیا۔لیکن رحمت کو جلد ہی اس بات کا احساس ہونے لگا کہ اس لڑکے سے شادی کرنے کا فیصلہ کتنا غلط تھا کیونکہ اس کے خاوند نے اس کی زندگی اجیرن بنائی تھی۔رحمت کا کہنا تھا کہ حالانکہ وہ سرکاری نوکری کر رہی تھی ،اس کا خاوند ہر مہینے اس کی تنخواہ چھین لیتا تھااور پھر اسے ایک ایک پائی کا محتاج بنا دیتا۔(۔۔ص۔۔ 138 )
’’اگر میں زندہ ہوتی‘‘کے مطالعے ومشاہدے کو مدد نظر رکھتے ہوئے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ شہزادہ سلیم کشمیر میں شعبہ سماجیات کی ایک معتبر آواز ہیں اور ان کا تجربہ قابل قدر ہے انھوں نے سماج میں خواتین کے معاملات و مسائل پر غور فکر کرنے کی دعوت دی ہے تاکہ عورت زندہ ہو کر بھی ہر حال میں زندہ ہی دکھائی دے جس کے سبب کائنات کی چمک دھمک بر قرار رہیں۔ کتاب کی طباعت عمدہ ہے نیز سرورق جاذب نظر اور دلکش بھی ہے۔ لہذا سماجیات میں اس کتاب کی خاطر خواہ پذیرائی یقینی ہے۔بقول کیفی اعظمی
تو افلاطون و ارسطو ہے تو زہر و پرویں
تیرے قبضہ میں ہے گردوں تیری ٹھو کر میں زمیں
ہاں اٹھا جلد اٹھا پائے مقدر سے جبیں
میں بھی رُکنے کا نہیں وقت بھی رُکنے کا نہیں
لڑکھڑائے گی کہاں تک کہ سنبھلناہے تجھے
اُٹھ میری جان میرے ساتھ چلنا ہے تجھے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں