66

یادوں کا لمس۔۔۔۔ (افسانہ)

فاضل شفیع بٹ
اکنگام، انت ناگ
موبائیل نمبر:9971444589

جب احمد نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وقت بڑی تیزی سے بھاگ چکا تھا اور ایسی کروٹ لی تھی جس نے احمد کو جھنجوڑ کے رکھ دیا تھا ۔فقط چند سالوں میں ایک ایسی تبدیلی رونما ہوئی تھی جو احمد کے وہم و گمان میں نہ تھی ۔احمد خزاں کے موسم میں ایک بوڑھے چنار کے درخت تلے اپنے ماضی کی یادوں کے سمندر میں غوطہ لگا رہا تھا ۔خزاں کے ذرد پتوں کی طرح احمد کی یادیں بھی سونے کی مانند چمک رہی تھی ۔
احمد سلطان پور میں سکونت پذیر تھا ۔سلطان پور کا چھوٹا سا گاؤں دریائے جیم کے کنارے آباد ہے۔گاؤں کے بل کھاتے راستے ،چنار کے وہ شاندار پیڑ جو کبھی شاہجہاں نے ملک ایران سے منگواکر یہاں لگوائے تھے،وہ سنہرے اور سر سبز جنگل ،وہ کھیت کھلیان ،وہ ٹھنڈے اور شفاف پانی کے جھرنے ،وہ مختلف مذاہب کے لوگوں کا آپسی بھائی چارہ ،وہ صبح سویرے سورج کی شعاؤں اور گاؤں کے لمبے سپیدے کے درختوں کی قطاریں ،وہ گاؤں کی عورتوں کا ہر تیوہار پر ناچنا اور گانا، وہ مندر سے صبح تڑکے ہی دلکش بھجن کی آواز ۔۔۔۔احمد کی سوچ کا حصہ تھا۔
احمد کی آنکھوں سے آنسو کے چھوٹے چھوٹے قطرے زمین بھگو رہے تھے ۔وہ سات سال کا تھا جب گاؤں کے پرائمری اسکول میں داخلہ لیا۔ اسکول کا ہیڈ ماسٹر روپ کرشن ،نہایت سخت استاد تھاجو اپنے طلباء کی خوب خبر لیتا ۔ اسکول میں نریش، خالد اور احمد کی خوب جمتی تھی۔وہ اچھے دوست ہونے کے ساتھ ساتھ ہونہار طلباء میں شمار ہوتے تھے۔اسکول سے چھٹی ہوتے ہی تینوں دوست گلی ڈنڈے کے کھیل سے لطف اندوز ہوتے۔گلی ڈنڈا ان دنوں کا مقبول ترین کھیل تصور کیا جاتا تھا حالانکہ احمد اس کھیل میں کمزور تھا اور نریش ہمیشہ بازی مار لیا کرتا تھا۔شام کا کھانا کبھی نریش، کبھی احمد تو کبھی خالد کے گھر نوش ہوتا۔تینوں مذہب کے نام سے پرے اپنےبچپن کو ایک یادگار اور نہ مٹنے والی یادوں کا شہر تعمیر کرنے میں مصروف تھے۔ہر اتوار کی شام نریش کے گھر پر میلہ لگتا تھا کیونکہ ان کے گھر میں ریڈیو کے ساتھ ساتھ ایک ٹیلی ویژن بھی تھا۔ ریڈیو کے بدولت گاؤں کے بزرگ دنیا بھر کی خبروں سے آشنا ہوتے جب کہ ٹیلی ویژن سے سلطان پور کی بیشتر آبادی جن میں مرد، عورتیں، بوڑھےاور بچے سب شامل ہوتے،لطف اندوز ہوتے ۔الف لیلہ کا سلسلہ وار ڈرامہ بچوں کی تسکین کا سامان تھا۔
گاؤں کے بیشتر لوگ مزدوری کر کے اپنا پیٹ پال رہے تھے جبکہ چند افراد اچھے خاصے سرکاری عہدوں پر فائز تھے ۔حسد، بھید باو، آپسی رنجش، جیسے الفاظ سلطان پور گاؤں کی لغات میں دستیاب ہی نہ تھے ۔
احمد اور اس کے دوستوں نے پانچویں جماعت میں ایک کرکٹ ٹیم بھی تیار کر لی ۔ہر اتوار کو چنار کے درخت کے پاس موجود ایک خالی زمین کے ٹکڑے پر کرکٹ میچ کھیلا جاتا ،جس کو بعد میں چنار سٹیڈیم کے نام سے ہی منسوب کیا گیا ۔دھیرے دھیرے گاؤں کے جواں سال لڑکوں نے بھی سلطان پور کی ایک مضبوط کرکٹ ٹیم کھڑی کر ڈالی ۔موسم سرما آتے ہی جب اسکولوں اور کالجوں کے امتحانات تکمیل کو پہنچ جاتے، چنار سٹیڈیم میں ایک شاندار کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا جاتا ۔گاؤں کے بیشتر لوگ اس ٹورنامنٹ سے محظوظ ہوتے ۔احمد اور اس کے دوست امتحانات ختم ہوتے ہی اپنا بیشتر وقت چنار سٹیڈیم میں صرف کرتے ۔نہ کھانے پینے کی فکر اور نہ ہی کوئی غمِ زندگی۔۔۔۔۔بس وہ تینوں اپنی مستیوں میں مگن تھے۔تینوں دوستوں نے ایک ساتھ سلطان پور میں جینے مرنے کی قسمیں کھائی تھی لیکن کارگاہ الٰہی کے فیصلوں سے بلا کون واقف ہو سکتا ہے ،اچانک سلطان پور کی پُرامن فضا کو کسی کی نظر لگ گئی۔۔۔
بہار کا موسم اپنے عروج پر تھا ۔زمین نے ہری ہری گھاس اُگلنا شروع کر دی تھی ،ہر سمت چھوٹے چھوٹے لال اور زرد رنگ کے پھولوں نے جنم لینا شروع کیا تھا ۔بہار کی ایک کہر آلود صبح گاؤں کے ہندو اپنا سامان باندھنے میں مصروف تھے،وہ سلطان پور کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہنے والے تھے۔
ہر طرف افوائیں پھیلی تھیں کہ ہندوؤں کا قتل عام ہو رہا ہے ،اس لیے جتنی جلدی ہو سکے اپنا رختِ سفر باندھ کر دوسری ریاستوں میں منتقل ہو جانے میں ہی پہل کر لو۔روپ کشن اسکول کے احاطے میں ساکت بیٹھا چپ چاپ رو رہا تھا۔وہ اسکول اور طلباء کی یادوں کو ہمیشہ کے لیے اسکول کے صحن میں دفن کر کے ہجرت کرنے پر مجبور تھا ۔نریش زار و قطار رو رہا تھا اور احمد اور خالد بھی سسکیاں لے کر رو رہے تھے ۔نریش آج بچپن کے دوستوں سے جدا ہونے جا رہا تھا۔ سیاست کے ٹھیکے داروں نے چند سکوں کے عوض یہ فساد برپا کیا تھاجس میں بہت سے ہندوؤں کو اپنی جان کی قیمت ادا کرنی پڑی اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک ایسی دراڑ پیدا کر دی گئی جس نے پھر کبھی جڑنے کا نام تک نہ لیا۔ معصوم نریش اپنے دوستوں کے ہمراہ اپنا بچپن گزارنا چاہتا تھا لیکن گندی سیاست نے نریش سے یہ حق چھین لیا تھا ۔وہ ایک پرانی ٹرک میں اپنے اہل خانہ سمیت سوار ہوا حالانکہ وہ اپنی منزل سے نا آشنا تھے۔
سلطان پور کا گاؤں ایک دم سے سونا پڑ گیا ۔گاؤں کے مسلمانوں کو ایک صدمہ آن پہنچا تھا ،ایک ایسا صدمہ جس نے یہاں کے لوگوں کے دلوں میں ایک خلش اور نہ مٹنے والا درد پیدا کیا تھا ۔ہندو برادری کی اس اچانک ہجرت نے سلطان پور گاؤں میں خلا پیدا کر دیا۔یہاں کے لوگوں کے چہروں سے مایوسی اور شکستہ دلی کے ملے جلے آثار ہویدا ہوئے ۔
ابھی سلطان پور کے لوگ اس صدمے سے باہر ہی نہ آئے تھے کہ اچانک ایک رات گاؤں کے سرکاری اسکول کو نامعلوم افراد نے آگ کی نذر کیا ۔دیودار کی لکڑی سے بنا ہوا اسکول ،جہاں کا ہیڈ ماسٹر روپ کرشن تھا ،آج بھیانک سرخ آگ کی لپیٹ میں تھا اور آناً فاناً اسکول کی عمارت راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی سلطان پور میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا جس کی شروعات قتل و غارت اور ظلم و جبر سے ہوئی ۔جہاں ہندوؤں کے گھر جلائے گئے وہاں مسلمانوں کی ماؤں بہنوں کی عصمت کو تار تار کر دیا گیا ۔
سلطان پور کی فضا ایک دم سے آلودہ ہو گئی ۔گاؤں کے یہ حالات دیکھ کر لوگوں میں ایک شدید غم و غصہ کی لہر دوڑ رہی تھی اور ساتھ میں وہ اپنے بچوں کے مستقبل کو لے کر متفکر بھی تھے ۔نتیجتناً احمد اور خالد بھی ایک دوسرے کا ساتھ نبھانے میں کامیاب نہ ہوئے ۔دونوں کو مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے الگ الگ ریاستوں میں بھیج دیا گیا ۔
روپ کرشن، نریش اور دیگر ہندو برادری کے لوگ بیرون ریاستوں میں سکونت پذیر ہوئے حالانکہ اپنی رہائش کے مسئلے کو لے کر ان کو کافی مشکلات سے دوچار ہونا پڑا ۔
احمد بیرون ریاست میں دل لگا کر تعلیم کی طرف متوجہ ہوا ۔وہ ایک ڈاکٹر بننا چاہتا تھا ۔سال میں ایک آدھ بار سلطان پور کا رُخ کرتا جبکہ خالد بیرون ریاست میں جاتے ہی وہاں کے رنگین ماحول میں گھل مل گیا اور سلطان پور کے ساتھ ساتھ اس نے بہت جلد اپنے دوستوں کو بھی اپنے دل سے نکالنے میں کامیابی حاصل کی ۔وہ ایک آزادانہ زندگی بسر کرنا چاہتا تھا اور ماں باپ کے خون پسینے کی کمائی کو شراب، نشہ اور طوائفوں کی کوٹھیوں پر اُڑانے لگا ۔وہ ایک عیاش قسم کا آدمی بن گیا جو دنیا کی رنگینیوں میں ڈوب گیا۔
احمد اب ٹیلی فون کے ذریعے گھر والوں سے کبھی کبھار بات بھی کر لیتا تھا۔ دنیا اب بدل چکی تھی ۔سائنس نے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ٹیلی فون کے بعد احمد موبائیل فون کے مدد سے ہر روز اپنے والدین کی خبر لیتا اور چند سالوں میں ہی انٹرنیٹ نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا ۔اب ویڈیو کالنگ کی مدد سے احمد اپنے والدین کو روبرو دیکھ سکتا تھا اور ان سے باتیں بھی کر سکتا تھا ۔
احمد اب ڈاکٹر بن چکا تھا اور وہ سلطان پور میں ہی اپنا کلینک کھولنا چاہتا تھا۔ احمد نے بیرون ریاست سے سیدھے سلطان پور کا رُخ کیا۔ سلطان پور اب پوری طرح سے بدل چکا تھا ۔ہر کسی کےگھر میں ٹیلی ویژن تھا ،ہر ایک کے پاس اپنا اپنا موبائیل فون تھا ،لوگ اپنے آپ میں بے حد مصروف نظر آرہے تھے۔چنار سٹیڈیم پر گاؤں کے ایک مکار زمیندار نے اپنا قبضہ جما لیا تھا،اب وہاں چنار کا پیڑ غائب تھا اور سیبوں کا ایک باغ تھا۔ سلطان پور کے لوگوں کا وہ آپسی بھائی چارہ ،ایک دوسرے کے تئیں محبت و شفقت،وہ عورتوں کا محبتوں کے گیت گانا ۔۔۔۔۔سب کچھ ختم ہو چکا تھا ۔
احمد نے دیکھا کہ لوگ اپنا بیشتر وقت موبائیل فون کے ساتھ ہی صرف کرتے ہیں ۔کوئی فلمیں دیکھتا ہے تو کوئی گیم کھیلنے میں مصروف ہے۔ گویا موبائیل فون نے لوگوں کے دل و دماغ پر اپنا قبضہ جما لیا تھا۔احمد یہ دیکھ کر متحیر ہوا کہ گاؤں کے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھوں میں بھی کھلونوں کے بدلے موبائیل فون تھما دیے گئے تھے۔گاؤں میں کوئی گلی ڈنڈا نہیں کھیل رہا تھا ،کبڈی کے کھیل سے یہاں کے بچوں کو کوئی دلچسپی نہ تھی ۔بے حیائی کا زمانہ اپنی عروج کو پہنچ چکا تھا ۔احمد نے مزید دیکھا کہ یہاں کے لوگوں نے نت نئی چیزوں سے دوستی کر لی ہے جن میں فیس بک، یوٹیوب اور انسٹاگرام سرفہرست ہیں۔فیس بک اور انسٹاگرام کی بدولت لوگ بے حیائی کے دلدل میں بری طرح دھنس چکے ہیں۔ نوجوان مرد اور عورتیں سوشل میڈیا پر مشہور ہونے کے لیے اپنے اپنے عریاں جسموں کی نمائش کرتے ہیں جو کہ بعد میں ان کی کمائی کا ایک ذریعہ بھی بن جاتا ہے۔
سلطان پور کا سب سے امیر آدمی رشید چوہان کا بیٹا شاہد چوہان ہے جس کی یوٹیوب پر ایک چینل ہے اور شاہد نے تعلیم کو خیر آباد کہہ کر یہ چینل بنوائی تھی اور آج وہ اس چینل کے بدولت آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔
احمد نے گاؤں میں ایک چھوٹا سا کلینک شروع کیا۔ کلینک پر زیادہ کام نہ ہونے کے سبب احمد بھی اپنا بیشتر وقت فیس بک پر صرف کرنے لگا۔ ایک دن صبح تڑکے ہی جب احمد نے حسب معمول اپنا فیس بک اکاؤنٹ کھولا تو وہ ششدر رہ گیا۔اس نے خالد کی ایک خوبصورت تصویر دیکھی جس کے نیچے لکھا تھا :
"پرتاب گنج کے ایک فلیٹ سے خالد کی لاش برآمد ہوئی ۔موت کثیر مقدار میں شراب پینے کی وجہ سے ہوئی ہے۔اس کی لاش کو کل اس کے آبائی گاؤں سلطان پور لایا جائے گا "
احمد کی آنکھوں میں آنسوں کے چھوٹے چھوٹے قطرے نمودار ہوئے۔ اس نے اپنی آنکھوں کے سامنے بچپن کی یادوں کا ہلکا ہلکا دھندلکا محسوس کیا۔روپ کرشن۔۔۔۔ نریش۔۔۔۔ خالد ۔۔۔۔۔یادوں کی ایک تیز بارش نے احمد کے سارے جسم کو بھگو دیا ۔ خالد کی لاش کو سلطان پور لایا گیا اور اس کے تدفین کا سارا منظر شاہد چوہان نے اپنے موبائیل فون میں قید کر کے اپنی یوٹیوب چینل پر اپلوڈ کیا۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے وہ ویڈیو دیکھی اور اس کو آگ کی طرح پھیلایا۔
خالد کی اچانک موت احمد کے دل پر کافی گراں گزری ۔وہ روپ کشن اور نریش کے بارے میں سوچنے لگا اور فیس بک پر نریش کا اکاؤنٹ دیکھ کر وہ پھولے نہیں سمایا ۔اس نے نریش کو فیس بک کے ذریعے ایک پیغام بھیجا اور اس کا موبائل نمبر طلب کیا لیکن نریش کی جانب سے اس پیغام کا کوئی جواب نہ آیا۔
چونکہ اب حالات قدرے معمول پر آچکے تھے ،سرکار کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ لوہڑی کے موقع پر سلطان پور کے مندر کے پاس ایک میلے کا انعقاد کیا جائے گا جس میں گاؤں کی ساری ہندو برادری کو مدعو کیا گیا ۔ یہ اعلان گویا احمد کے رِستے زخموں پر مرہم کے مترادف تھا ۔ وہ میلے کا بے صبری سے انتظار کرنے لگا ۔
آج لوہڑی کے تیوہار کا دن ہے ۔آگ جلا کر سورج کی تپش کو پھر سے خوش آمدید کیا جائے گا۔سلطان پور میں لوگوں کی کافی چہل پہل تھی۔ ہندو برادری کے لوگ تقریباً پچیس سال بعد آج اپنے گاؤں کا دیدار کرنے کے لیے بے تاب تھے ۔آج وہ سلطان پور کی مٹی کی خوشبو سے اپنی روح کو تر و تازہ کرنے والے تھے ۔ہندو برادری کے نئے نئے چہرے سلطان پور میں نمودار ہوئے ۔معمر ہندو سلطان پور میں وارد ہوتے ہی آب دیدہ ہوئے۔وہ اپنے ہم عمر مسلمانوں کو گلے سے لگاتے ہوئے زار و قطار رو رہے تھے ۔
نریش ایک مہنگی گاڑی میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ سوار تھا ۔احمد پُرجوش انداز میں نریش کی سمت بھاگنے لگا ۔نریش کو دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں آنسوں کا سیلاب امڑ آیا ۔وہ نریش کو اپنے سینے سے لگانا چاہتا تھا لیکن نریش نے رسمی علیک سلیک کہتے ہوئے احمد کو نظر انداز کیا اور میلے کی جانب چل پڑا۔
نریش کا یہ رد عمل دیکھ کر احمد کے اعصاب چٹخنے لگے ۔نریش کا یہ برتاؤ اس کے وہم و گمان میں نہ تھا ۔وہ ایک گہری سوچ میں ڈوب گیا ۔شاید نریش کے دل و دماغ پر مسلمانوں کی نفرت مسلط ہے ۔شاید اس کی نظر میں ہجرت کے ذمہ دار اس دور کے مسلمان تھے جنہوں نے سیاست کی آڑ میں ہندوں کو اپنے گھروں سے بے گھر کیا تھا اور ان کی جائیداد پر اپنا قبضہ جمایا تھا۔احمد چنار کے پیڑ کی چھاؤں میں میلے میں آئے ہوئے ہندو برادری کے لوگوں کو دیکھ رہا ہے۔سب لوگ اپنے آپ میں کھوئے ہوئے ہیں ۔وہ پیار و محبت، وہ آپسی بھائی چارہ۔۔۔ سب وقت کے ساتھ اوجھل ہو چکا ہے۔لوگ اپنے اپنے موبائیل فونوں میں میلے کا منظر قید کر رہے ہیں۔احمد کے صبر کا پیمانہ اپنی تکمیل کو پہنچا ۔اس نے دوڑ کر نریش کا ہاتھ پکڑ لیا اور اس کو چنار کے پیڑ کے نیچے لا کر اس کو اپنے گلے سے لگا کر زور زور سے رونے لگا ۔نریش متحیر تھا وہ احمد سے مخاطب ہو کر بولا :
"احمد وہ زمانہ بدل چکا ہے ۔تمہاری برادری کے لوگوں نے ہمیں جلائے وطن کیا۔ہم گھر سے بے گھر ہو گئے ۔تمہیں معلوم بھی ہے کہ ہمیں کتنے مشکلات سے دوچار ہونا پڑا ۔یاد ہے وہ ماسٹر روپ کرشن ۔۔۔بیچارا ہجرت کے چند ماہ بعد ہی اس دنیا سے کوچ کر گیا۔مرتے وقت اس کی زبان پر محض سلطان پور کا نام تھا ۔سچ کہوں تو میرا دل پتھر کا بن چکا ہے اور اس میں تمہاری برادری کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ۔میں مانتا ہوں کہ ہم نے بچپن ایک ساتھ گزارا ہے لیکن میں اپنے بچپن کی ساری یادوں کو اس پرانے ٹرک میں چھوڑ کر آیا ہوں جس میں ہم اپنے ناآشنا منزل کی جانب چل پڑے تھے ۔تم بے وجہ اپنے آنسو بہا رہے ہو۔اپنے بچپن کی دنیا سے باہر آجاؤ ۔۔میں چلتا ہوں۔ مجھے دیر ہو رہی ہے”
احمد نے جواب میں کچھ نہیں بولا ۔وہ حیران تھا کہ کیا واقعی وقت اتنی جلدی کروٹ لے سکتا ہے ۔وہ اپنے بچپن کے زمانے میں دوبارہ لوٹنا چاہتا تھا ۔وہ ماسٹر روپ کرشن کے ہاتھوں مار کھانا چاہتا تھا ۔وہ خالد اور نریش کے ہمراہ گلی ڈنڈا کھیلنا چاہتا تھا ۔لیکن یہ محض اس کی یادوں میں ہی ممکن تھا ۔اصل میں یہ سب ناممکن تھا کیونکہ وقت بدل چکا ہے، لوگ بدل چکے ہیں، گویا ساری دنیا بدل چکی ہے۔مگر چنار کا وہ پیڑ وہی استادہ ہے جس کی ٹھنڈی چھاؤں میں احمد کبھی کبھار اپنے بچپن کی یادوں کو تروتازہ کرتا ہے ۔وہ مندر میں گھنٹی بھی بجاتا ہے۔۔۔ اکیلا گلی ڈنڈا بھی کھیلتا ہے ۔۔۔۔چنار سٹیڈیم میں کرکٹ بھی کھیلتا ہے۔۔۔۔وہ اپنے بچپن کی یادوں کے لمس میں لپٹی ایک بے جان لاش ہے ۔۔۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں